کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اُس کے داخلی اور خارجی حالات کا آئینہ ہوتی ہے اور بین الاقوامی اُفق پر اس کے قومی مفادات کی حفاظت اور ترویج کے لیے ایک مضبوط حصار کا کام کرتی ہے۔ یہ پالیسی قومی سلامتی کے قلعے کو استحکام بخشتی ہے‘ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے سنہری در وا کر کے معاشی خوشحالی کے گلستان میں رنگ بھرتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں‘ دہشت گردی اور وبائی امراض جیسے عالمگیر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کے پل تعمیر کرتی اور مختلف تہذیبوں کے درمیان ثقافتی تبادلے کی شمع فروزاں کرتی ہے۔ اس لیے جدید دور میں مختلف ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ایک ملک کے ساتھ حد سے زیادہ قربت دوسرے ممالک کے ساتھ تنازعات کا باعث بن سکتی ہے جبکہ متنوع ممالک کے ساتھ تجارتی روابط معاشی فوائد کے حصول کا ذریعہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سفارتی اثر و رسوخ کے لیے بیک وقت مختلف ممالک کے ساتھ روابط ناگزیر ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک تاریخی طور پر ہمیشہ کسی نہ کسی بلاک کا حصہ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں‘ جب دنیا دو بڑے بلاکس میں بٹی ہوئی تھی‘ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا اور سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنا۔ اس اتحاد سے پاکستان کو معاشی اور عسکری امداد ملی لیکن اس یکطرفہ پالیسی کی وجہ سے سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا میں بلاکس کی اہمیت کم ہوئی اور ممالک نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں تنوع لانا شروع کیا۔ پاکستان نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی‘ چین اور روس سمیت دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا۔ سی پیک جیسے عظیم منصوبے نے ہمیں چین کے مزید قریب تو کر دیا مگر یہ منصوبہ کئی ممالک کو نہیں بھاتا۔ ملک میں بڑھتی دہشت گردی کے پیچھے ایک بڑی وجہ سی پیک کو سبوتاژ کرنا بھی ہے۔ چین کی 14ویں نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے اجلاس کے موقع پر صدر شی جن پنگ نے جس وژن کا خاکہ پیش کیاوہ نہ صرف چین کی ترقی کی راہ متعین کرتا ہے بلکہ سی پیک کے تناظر میں پاکستان کی معاشی‘ سکیورٹی اور سفارتی پالیسیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یاد رہے نیشنل پیپلز کانگریس چین کی قومی مقننہ ہے جو چینی حکومت میں طاقت کا سب سے اہم ادارہ ہے۔ یہ ادارہ چین کی پارلیمنٹ کے طور پر کام کرتا ہے اور چین کے آئین کے مطابق یہ ملک میں قانون سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔عالمی سیاست کے بدلتے منظرنامے‘ امریکہ چین کشیدگی اور پاک افغان تعلقات کے پیچیدہ معاملات نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مزید چیلنجنگ بنا دیا ہے۔ پاکستان ایک نازک سفارتی موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے سی پیک کی ترقی کو یقینی بناتے ہوئے امریکہ‘ چین اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو محتاط انداز میں سنبھالنا ہے۔چینی صدر شی جن پنگ کی مشترکہ ترقی کی پالیسی پاکستان کے لیے سی پیک کے دوسرے مرحلے میں سپیشل اکنامک زونز کے فروغ اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ اقدام صنعتی پیداوار بڑھا کر پاکستان کی برآمدات کو بہتر کر سکتا ہے‘ جس سے معیشت کو بڑا سہارا ملے گا۔ پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لیے سی پیک میں افغانستان کی شمولیت ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔ چین کی علاقائی ترقی کی حکمت عملی پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری بنانے کا موقع دیتی ہے جس سے سرحدی علاقوں میں امن اور معاشی استحکام کو فروغ ملے گا۔ اس موقع پر چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے گلوبل ساؤتھ کی حمایت پر زور دیا‘ جس میں پاکستان کے لیے علاقائی سفارتکاری کا کردار بڑھانے کا سنہری موقع ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ مل کر عالمی سفارتی اتحاد میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کی آواز بن سکتا ہے۔ اگرچہ حالیہ ٹرمپ دور کی تجارتی جنگ نے امریکہ چین تعلقات میں تلخی پیدا کی ہے لیکن پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی‘ افغان امن عمل اور اقتصادی شراکت داری جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دے۔ دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان معاشی رعایتیں بھی حاصل کر سکتا ہے۔
ٹرمپ دور کی اقتصادی جنگ کے بعد سے امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی کشیدگی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کا تاثر چین نواز ہونے کا ہے جبکہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان ایک کثیرجہتی حکمت عملی اپنائے۔ ایسے میں غیر جانبداری کی راہ اختیار کرنا ایک مشکل مگر ناگزیر اقدام ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات‘ بارڈر سکیورٹی کے مسائل اور دہشت گرد تنظیموں کی نقل و حرکت سی پیک کی سکیورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اگر افغانستان میں عدم استحکام جاری رہا تو سی پیک کے مغربی روٹس متاثر ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف چینی سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان کو بڑھتے ہوئے قرضوں اور مالی عدم توازن کا سامنا ہے۔ امریکہ اور مغربی مالیاتی ادارے اکثر چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات پر شفافیت کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے پاکستان بین الاقوامی مالیاتی دباؤ میں آ جاتا ہے۔ بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں کی کارروائیاں سی پیک کے خلاف بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر ان داخلی مسائل کو حل نہ کیا گیا تو نہ صرف چین کا اعتماد مجروح ہو گا بلکہ دیگر غیر ملکی سرمایہ کار بھی پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ پاکستان کو ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط عملی حکمت اپنانا ہو گی۔
چین امریکہ کشیدگی میں پاکستان کو غیر جانبدار مصالحتی کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ مثبت تعلقات قائم رکھے جا سکیں۔ پاکستان‘ چین امریکہ سہ فریقی ڈائیلاگ کا آغاز کر کے سی پیک پر تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو سی پیک کے ساتھ جوڑ کر افغانستان کی معیشت کو مستحکم کر کے سرحدی علاقوں میں قیام امن کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ افغان حکومت کے ساتھ مشترکہ سکیورٹی معاہدوں سے بھی مغربی روٹس کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ‘ ترکیہ اور وسط ایشیائی ریاستوں کو سی پیک کا حصہ بنا کر ملٹی لیٹرل انویسٹمنٹ کی حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت صنعتی زونز میں مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ چین پاکستان مشترکہ سکیورٹی فورس بنا کر اس میں مقامی بلوچ اور پشتون نوجوانوں کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ دہشت گردی کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ سی پیک روٹس پر جدید ٹیکنالوجی جیسے ڈرون سرویلنس اور سائبر سکیورٹی سسٹمز نصب کیے جائیں۔
صدر شی جن پنگ کا وژن‘ سی پیک کا مستقبل اور عالمی طاقتوں کے درمیان بڑھتا تناؤ تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں توازن‘ معاشی حکمت عملی میں تنوع اور داخلی سکیورٹی میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اگر پاکستان ان چیلنجز سے ذہانت اور دور اندیشی سے نمٹے تو نہ صرف سی پیک ایک علاقائی گیم چینجر ثابت ہو گا بلکہ پاکستان عالمی سیاست میں کلیدی کردار ادا کر کے اپنی معیشت اور خارجہ پالیسی کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔