"RS" (space) message & send to 7575

پاک افغان مذاکرات کیوں ضروری؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کو مشترکہ چیلنجوں کا سامنا ہے‘ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ دونوں ملک اپنے مسائل کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں دونوں ملکوں میں تعلقات کی ازسر نو تعمیر کیلئے اعلیٰ سطحی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب دونوں ہمسایہ ممالک تجارت‘ آمدورفت‘ سرحدی انتظام اور مہاجرین جیسے پیچیدہ مسائل پر تعاون کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کی ہدایت پر افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا‘ جو امریکی وفد کے افغانستان سے رخصت ہونے کے بعد ایک اہم سفارتی قدم ہے۔ امریکی وفد کا حالیہ دورۂ افغانستان ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی جو 2021ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا ایک نادر موقع تھا۔ اس وفد میں امریکی خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور زلمے خلیل زاد جیسی اہم شخصیات شامل تھیں۔ اس دورے کا بنیادی مقصد افغانستان میں قید امریکی شہریوں کی رہائی اور دیگر اہم دوطرفہ امور پر بات چیت کرنا تھا۔ اس دورے کے نتیجے میں طالبان نے امریکی شہری جارج گلیزمن کو رہا کیا‘ جو ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس کے ساتھ ہی افغان وزارتِ داخلہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکہ نے افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی گرفتاری پر اعلان کردہ ایک کروڑ ڈالر کا انعام ختم کر دیا ہے‘ یوں اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی جانب ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس دورے کی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی جو کہ طویل عرصے سے تعطل کا شکار تھے۔ اس سے دونوں ممالک کو اپنے مشترکہ مسائل پر بات چیت کرنے اور ان کے حل کے لیے مل کر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
مشیر اطلاعات وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے اس موقع پر کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں مذاکرات کیلئے پہنچ گیا مگر وفاقی حکومت ہمیں اجازت نہیں دے رہی۔ امریکی وفد کے دورۂ افغانستان کے بعد محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد کا دورۂ کابل دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرت اگرچہ ابتدائی شکل میں ہیں مگر خوش کن خبر یہ ہے کہ دونوں طرف سے مسائل کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلوں کو مرتب کیا جا رہا ہے‘ جس میں آنے والے مہینوں میں پاکستانی وزیر خارجہ کا کابل کا ممکنہ دورہ بھی شامل ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق دونوں ممالک رابطوں کی خلیج کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں اطراف کے وزرا باقاعدگی سے ایک دوسرے کے ہاں آئیں گے اور آن لائن ملاقاتوں کا بھی ایک منظم شیڈول بنایا جا رہا ہے۔ ایجنڈے میں سرفہرست مسائل میں سے ایک طورخم بارڈر کی نازک صورتحال ہے جہاں دونوں ممالک کی تکنیکی ٹیمیں اپریل میں ملاقات کرنے والی ہیں۔ ان مذاکرات کا محور متنازع علاقوں کا حل ہو گا جہاں دونوں فریق نقشوں‘ سیٹلائٹ تصاویر اور ساختی ڈیزائنوں کا باریک بینی سے جائزہ لے کر کسی قابلِ قبول حل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ مشترکہ رابطہ کمیشن (جے سی سی) کے طویل عرصے سے التوا کا شکار اجلاس کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں‘ جس کا آخری اجلاس چار جنوری 2024ء کو ہوا تھا۔ جے سی سی کے اجلاسوں کی بحالی کو‘ دو طرفہ تعاون کو ایک مضبوط ادارہ جاتی بنیاد فراہم کرنے کی جانب ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ یہ سفارتی پیش قدمی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان اور افغانستان علاقائی سیاست کے پیچیدہ جال میں الجھے ہوئے ہیں۔ مسلسل بات چیت اور منظم روابط بہتر تعلقات کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں‘ تاہم سکیورٹی خدشات اور سیاسی اختلافات اب بھی دونوں ممالک کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں ہم نے مستحکم افغانستان کی ضرورت پر زور دیا تھا‘ عالمی قوتیں بھی یہی چاہتی ہیں کیونکہ افغانستان کے غیرمستحکم ہونے کی صورت میں پورا خطہ متاثر ہو گا۔ آنے والے دنوں میں امریکہ اور طالبان کی مزید ملاقاتیں ہوں گی کیونکہ طالبان کے پاس اب بھی کچھ امریکی یرغمالی موجود ہیں۔ افغانستان میں امریکی یرغمالیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم مبینہ طور پر یہ تعداد بہت قلیل ہو سکتی ہے ‘پھر بھی امریکہ اپنے شہریوں کی رہائی کیلئے پُرعزم ہے اور اس مقصد کیلئے مختلف سفارتی ذرائع کا استعمال کر رہا ہے کیونکہ امریکہ اپنے شہریوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی پر ہونے والے مذاکرات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے امریکی کمپنیوں سمیت بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو افغانستان میں معدنیات نکالنے کیلئے سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے کیونکہ افغانستان میں معدنی وسائل کی ایک وسیع رینج موجود ہے جن میں لیتھیم‘ تانبا‘ سونا اور دیگر قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔ طالبان ان وسائل کو اپنی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر معدنیات نکالنے کیلئے ان کے پاس وسائل موجود نہیں۔ ظاہر ہے امریکہ بھی طالبان کی اس مجبوری سے واقف ہے‘ اسی طرح امریکی کمپنیوں کیلئے ایسے افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا آسان نہیں ہو گا جہاں نہ حکومت کی عملداری ہے اور نہ ہی قوانین ہیں۔
افغانستان میں سرمایہ کاری کیلئے کئی چیلنجز موجود ہیں جن میں سیاسی عدم استحکام‘ سکیورٹی خدشات‘ قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک کا فقدان اور بنیادی ڈھانچے کی کمی شامل ہیں۔ ان چیلنجز کے باوجود کچھ امریکی کمپنیاں افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کر سکتی ہیں۔ افغانستان میں معدنی وسائل کی وسیع رینج موجود ہے اور اگر سیاسی اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو یہ سرمایہ کاری منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں لیتھیم کے ذخائر پر چین نے بھی گزشتہ دنوں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا امریکی کمپنیوں کی ممکنہ سرمایہ کاری براہِ راست چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش ہے لیکن یہ واضح ہے کہ افغانستان کے معدنی وسائل دونوں ممالک کیلئے اہم ہیں۔ چین نے افغانستان میں اپنی موجودگی کو مسلسل بڑھایا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی شعبے میں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت افغانستان میں بنیادی ڈھانچے اور معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ افغانستان میں موجود قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر جدید ٹیکنالوجی اور توانائی کی منتقلی کیلئے اہم ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تزویراتی مقابلہ بڑھ رہا ہے اور افغانستان اس مقابلے کا ایک میدان بن سکتا ہے۔ امریکی کمپنیاں افغانستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی مفادات حاصل کر سکتی ہیں لیکن انہیں سیاسی اور سکیورٹی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغانستان میں عالمی طاقتوں کی موجودگی پاکستان کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اگر اعلیٰ سطح پر اس کا ادارک کر لیا گیا ہے اور محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد کے دورۂ کابل کے یہی عوامل ہیں تو یہ بروقت اور درست اقدام ہے۔ پاکستان کے بدخواہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ امن قائم ہو‘ وہ ان سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے‘مگر ہمیں صبر کا دامن تھام کر دانش مندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں