"RS" (space) message & send to 7575

افغانستان کا داخلی بحران

افغانستان کی طالبان حکومت اس وقت داخلی بحران کا شکار ہے۔ سراج الدین حقانی اور عبدالحکیم شرعی کے مبینہ استعفوں نے طالبان کے اندرونی اختلافات کو آشکار کر دیا ہے۔ یہ دونوں شخصیات طالبان حکومت میں انتہائی بااثر تصور کی جاتی ہیں۔ سراج الدین حقانی‘ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں جو طالبان کا ایک طاقتور دھڑا سمجھا جاتا ہے۔ اس نیٹ ورک کا افغانستان اور خطے میں عسکری اور سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ طالبان حکومت میں وزیر داخلہ اور نائب امیر کی حیثیت سے ملک کی داخلی سلامتی کے ذمہ دار سراج الدین حقانی کے پاس وسیع انتظامی اور سکیورٹی اختیارات ہیں۔ وہ طالبان کے عسکری امور میں شامل رہے ہیں اور ان کی عسکری صلاحیتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ عبدالحکیم شرعی طالبان کے چیف جسٹس اور وزیر قانون ہیں۔ وہ طالبان کے قانونی اور عدالتی نظام کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں طالبان کے امیر مُلا ہبت اللہ اخونزادہ کا سب سے قابلِ اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ اس قریبی تعلق کی وجہ سے وہ طالبان کی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ مذہبی علما پر مشتمل طالبان کونسل کے سربراہ بھی ہیں۔ یوں ان دونوں شخصیات کی اہمیت طالبان حکومت میں ان کے اعلیٰ عہدوں اور گہرے اثر و رسوخ سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے فیصلوں اور اقدامات کا افغانستان کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ سراج الدین حقانی گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان سے غیر حاضر تھے‘ ان کی غیر موجودگی سے ان کے مخالفین نے وزارتِ داخلہ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اسی طرح وزیر انصاف عبدالحکیم شرعی نے بھی بدعنوانی کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دیا اور وہ بھی دبئی چلے گئے ہیں۔ طالبان کے اندر اقتدار کی کشمکش اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ سراج الدین حقانی کی غیر موجودگی میں ان کے نائب صدر ابراہیم نے‘ جو قندھار دھڑے سے قریبی تعلق رکھتے ہیں‘ وزارتِ داخلہ کا عملاً کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے جتنے بھی بااعتماد لوگ تھے چاہے صوبائی سطح پر‘ ضلعی سطح پر‘ مقامی سطح پر یا سکیورٹی سطح پر‘ ان سب کو صدر ابراہیم نے قندھار گروپ کے کہنے پر تبدیل کر دیا ہے۔
سراج الدین حقانی اور ہبت اللہ اخونزادہ کے درمیان پالیسی اختلافات طالبان حکومت کے اندر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سراج الدین حقانی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے نرم رویے کے حامی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خواتین کو اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس اخونزادہ خواتین کی تعلیم پر سخت پابندیوں کے حامی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ خواتین کی تعلیم اسلامی قوانین کے منافی ہے۔ سراج الدین حقانی افغانستان کے سیاسی منظر نامے میں وسیع تر نمائندگی کے حامی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان حکومت میں دیگر سیاسی دھڑوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اخونزادہ صرف طالبان کی حکمرانی پر زور دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طالبان کو ہی افغانستان پر حکومت کرنے کا حق ہے۔ قندھاری دھڑے نے مبینہ طور پر کالعدم ٹی ٹی پی‘ اسلامک سٹیٹ خراسان صوبہ اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے جنگجوؤں کو ارزگان‘ غزنی اور قندھار صوبوں میں منتقل کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں موجودسراج الدین کے بھائی انس حقانی نے بھی افغانستان واپس آنے سے انکار کر دیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بیرونی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے‘ قطری اور قندھاری دھڑے میں اہم شخصیات طالبان حکومت میں حقانی نیٹ ورک کی اہمیت کی سخت مخالف ہیں۔ حقانی اور ان کے خاندان کو شدید حفاظتی خطرات کا سامنا ہے‘ جس کی وجہ سے وہ خوست میں جلال الدین حقانی کے مدرسے میں اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے طالبان کے اندرونی تنازع اور تقسیم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بعض اطلاعات میں حقانی کا استعفیٰ قبول ہو چکا ہے جبکہ کچھ ذرائع کے مطابق ابھی تک استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیر انصاف عبدالحکیم شرعی کا استعفیٰ بھی قبول نہیں کیا گیا ہے لیکن افغانستان سے انکی روانگی طالبان کے حکومتی ڈھانچے میں پڑتی ہوئی دراڑوں کا اشارہ دیتی ہے۔
افغانستان میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی سے لاکھوں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی کے فیصلے کے بعد سے افغانستان میں لڑکیوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق تقریباً اس وقت 14 لاکھ افغان لڑکیاں ثانوی تعلیم سے محروم ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق سکول جانے کی عمر کی 80 فیصد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی کا اثر خاص طور پر طبی اور دیگر پیشہ ورانہ شعبوں پر پڑ رہا ہے‘ جہاں خواتین ڈاکٹروں اور ماہرین کی ضرورت ہے۔ یہ پابندیاں نہ صرف لڑکیوں کے مستقبل کو متاثر کر رہی ہیں بلکہ افغانستان کی سماجی اور اقتصادی ترقی پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ قندھاری گروپ پاکستان کے ساتھ زیادہ سخت مؤقف رکھتا ہے جبکہ حقانی گروپ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
افغانستان میں معاشی بدحالی اور اندرونی اختلافات پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ افغانستان کی معیشت جو پہلے ہی بیرونی امداد پر انحصار کرتی تھی‘ عالمی سطح پر فنڈز کی بندش کے بعد مزید زوال پذیر ہو گئی ہے۔ اس معاشی دباؤ سے طالبان کے اندرونی اختلافات مزید گہرے ہو رہے ہیں جس سے افغانستان میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ غیرمستحکم افغانستان کے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ مستحکم افغانستان کا خواہاں رہا ہے کیونکہ پاکستان کی سلامتی کا انحصار افغانستان میں امن و امان پر ہے۔ مستحکم افغانستان پاکستان کو دہشت گردی اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے‘ پاکستان کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات کو فروغ دے سکتا اور پورے خطے میں امن و امان کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے افغانستان سے متصل علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کی اہم وجہ افغانستان سے دراندازی ہے‘ یہ دراندازی اس لیے ہوتی ہے کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام ہے۔ اسی عدم استحکام کی وجہ سے پاک افغان سرحد پر سکیورٹی خلا پیدا ہوا ہے جس سے دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرگرمیاں بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ اگلے روز خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں نے تین مختلف مقامات پر حملے کیے‘ جس سے ان کی منصوبہ بندی اور ہم آہنگی ظاہر ہوتی ہے۔ لکی مروت‘ پشاور اور جمرود میں ایک ہی وقت میں تھانوں اور چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو آج دہشت گردی کے سنگین خطرات کا سامنا ہے‘ مگر سول و عسکری قیادت دہشت گردی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے فکر مند بھی ہے اور تدبیر بھی کر رہی ہے۔ ہم جلد یا بدیر اس چیلنج پر قابو پا لیں گے‘ تاہم اگر افغانستان اپنی عدم تعاون والی روش پر قائم رہا تو اس کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔
افغان قیادت آج اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ اسے دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک طرف مضبوط اور مستحکم افغانستان کا خواب ہے جو عالمی برادری اور پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ اس راستے پر چل کر افغانستان معاشی ترقی‘ امن اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف سخت گیر مؤقف پر قائم رہتے ہوئے شدت پسند عناصر کی سرپرستی اور انہیں پناہ دینے کا راستہ ہے۔ یہ راستہ افغانستان کو تنہائی اور عدم استحکام کی طرف لے جائے گا۔ شدت پسند عناصر کی سرپرستی سے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ معاشی امداد اور سرمایہ کاری پہلے ہی رُک چکی ہے‘ اس کے نتیجے میں افغانستان میں غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا جس سے عدم استحکام اور بدامنی بڑھے گی۔ افغان قیادت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کیلئے کون سا راستہ منتخب کرتی ہے۔ ایک ذمہ دار اور پُرامن ملک بننے کا راستہ یا پھر شدت پسندی اور تنہائی کا راستہ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں