بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں معدنیات کا ایک وسیع خزانہ پوشیدہ ہے۔ اگر ان ذخائر کو مؤثر طریقے سے نکالا اور استعمال کیا جائے تو یہ ملک کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘ تاہم ان قیمتی وسائل کا حصول ہمیشہ سے کٹھن رہا ہے اور اس میں مختلف سیاسی‘ معاشی اور تکنیکی چیلنجز حائل رہے ہیں۔ اب جبکہ حکومت نے اس جانب سنجیدہ کوششیں شروع کی ہیں اور عالمی سرمایہ کاروں نے پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جس کے نتیجے میں کئی نامور کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے تیار نظر آتی ہیں تو امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ شاید اب ان رکاوٹوں پر قابو پا لیا جائے گا لیکن اس خواب کی تعبیر صوبوں کے مکمل تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گی کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات نکالنے کے بیشتر اختیارات صوبائی حکومتوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ وفاقی حکومت مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے اہم اختیارات مرکز کے پاس منتقل کرنا چاہتی ہے‘ جس کے لیے منرل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن اتھارٹی کے قیام کا منصوبہ زیر غور ہے۔ اس مجوزہ قانون پر بعض سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دیے گئے معدنیات کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس طرح یہ آئین کے منافی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات کا شعبہ بڑی حد تک صوبائی دائرہ اختیار میں آتا ہے جس کے تحت صوبائی حکومتیں اپنے قوانین خود بناتی اور نافذ کرتی ہیں۔ وفاق کی جانب سے کسی ایسے قانون کی کوشش‘ جس کے لیے صوبائی اسمبلیوں کی منظوری لازمی ہو‘ اس خدشے کو جنم دے رہی ہے کہ مرکز صوبائی خودمختاری کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں بلوچستان نے پہلے ہی متعلقہ قانون سازی کر لی ہے‘ مگر وہاں کی قوم پرست جماعتوں نے اس کی مخالفت کی ہے اور اس قانون سازی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔خیبر پختونخوا میں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے جہاں اپوزیشن جماعتیں اس بل کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مجوزہ مائنز اینڈ منرلز ترمیمی بل 2025ء کا مقصد صوبے کے معدنی وسائل کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا‘ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو راغب کرنا‘ کان کنی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانا اور غیر قانونی کان کنی کی روک تھام ہے۔ صوبائی حکومت کا ماننا ہے کہ اس بل کے ذریعے صوبے کے وسیع معدنی ذخائر کو اقتصادی ترقی کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ تاہم صورتحال یہ ہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی بھی اس معاملے پر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور ہم خیال مجوزہ ایکٹ میں ترامیم کے حامی ہیں جبکہ دوسرا دھڑا اس کی مخالفت میں ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ آئین کے مطابق معدنی وسائل پر صرف صوبے کا حق ہے۔ یہ قانون معدنیات کو وفاق کے زیر انتظام لاتا ہے اور صوبے کو اس کے قدرتی وسائل سے محروم کرتا ہے۔ علی امین گنڈاپور اپنے رفقا کو مذکورہ بل پر اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس بل کے تحت صوبائی حکومت کے کسی اختیار کو کسی دوسرے ادارے کو منتقل نہیں کیا جا رہا۔ پی ٹی آئی نے اس صورتحال کا جائزہ لینے اور بل میں ضروری ترامیم تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مخالف دھڑے کا الزام ہے کہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر ان کے وزیراعلیٰ وفاقی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ انہیں صوبے کا مقدمہ لڑنا چاہیے اور یہ کہ جب خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2017ء پہلے سے موجود ہے اور اس میں صوبے کے حقوق کا تحفظ بھی کیا گیا ہے تو پھر ایک نیا ترمیمی ایکٹ کیوں لایا جا رہا ہے؟
مائنز اینڈ منرلز بل پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ضروری ہے کیونکہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے۔ اگر حکومت پی ٹی آئی کی پروا نہیں کرتی تب یہ مشکلات برقرار رہیں گی۔ اس وقت پیپلز پارٹی‘ جے یو آئی‘ اے این پی اور جماعت اسلامی بھی بل کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اے این پی نے متنازع مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو صوبائی خودمختاری کے خلاف قرار دیتے ہوئے 23 اپریل کو باچا خان مرکز پشاور میں اے پی سی طلب کر رکھی ہے۔ اے این پی کا مؤقف ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی۔ آئینی طور پر قدرتی وسائل پر پہلا حق اور اختیار اُس سرزمین پر بسنے والے عوام کا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وجہ سے پہلے ہی خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔ اے این پی کے پی کے صدر میاں افتخار حسین کہتے ہیں کہ دہشت گردی میں بھی ہمارے وسائل کو لوٹا گیا اور انہیں غیر آئینی طور پر یہاں سے لے جایا گیا اب اس ایکٹ کی شکل میں اس عمل کیلئے آئینی جواز پیدا کیا جا رہا ہے۔ میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اس عمل پر کسی طور خاموش نہیں رہے گی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد معدنیات جیسے معاملات پر وفاق یا اس کے ماتحت کسی ادارے کا صوبے کو ہدایت دینا غیر آئینی اور وفاقی نظام کے منافی ہے۔ اے این پی الزام عائد کر رہی ہے کہ مجوزہ منرل اینڈ مائنز بل کو پی ٹی آئی بارگیننگ کیلئے استعمال کر رہی ہے جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کے حامی اس بل کو عمران کی رہائی سے مشروط کر رہے ہیں۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا ہے کہ مائنز اینڈ منرلز بل صوبے کے وسائل پر حملہ ہے‘ آج پھر ایک ایسا قانون صوبوں سے پاس کرایا جا رہا ہے جو وسائل پر قبضہ ہے۔ اگر حکومت ہوش کے ناخن نہیں لیتی تو پھر ہمیں عوام میں جانا ہو گا۔ منرلز بل کی پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی مخالفت کی گئی۔ پارٹی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ یہ بل صوبے کی خود مختاری کو کمزور کرنے اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روح کے منافی ہے۔ ان کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعے صوبے کے معدنی وسائل پر وفاق کا کنٹرول بڑھایا جائے گا‘ جس سے صوبے کی مالیاتی اور انتظامی خودمختاری متاثر ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما احمد کنڈی نے اس بل سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
اپوزیشن جماعتوں اور صوبوں کی حمایت کے بغیر وفاقی حکومت کے لیے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کی منظوری اور نفاذ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنی وسائل پر صوبائی حقوق تسلیم شدہ ہیں‘ اس ضمن میں وفاقی حکومت کا یکطرفہ اقدام ایک نئے آئینی تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے سیاسی مخالفت بڑھے گی اور صوبائی تعاون کا فقدان عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالے گا۔ مقامی آبادی کے ممکنہ ردعمل اور قانونی چیلنجز سے بھی نفاذ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ معدنیات کے معاملے پر کئی برسوں کے بعد پیشرفت دیکھنے کو ملی ہے‘ اس امید کو ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ وفاقی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے سیاست کی نذر نہ ہونے دے اور صوبائی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اعتماد کی فضا قائم کرے تاکہ منرلز انویسٹمنٹ فورم کے ذریعے جو سرمایہ کار ہمارے معدنی ذخائر کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور منرلز انویسٹمنٹ فورم سے جو توقعات قائم کی گئی ہیں‘ انہیں حتمی شکل دینے میں ممکنہ دشواری اور مشکلات سے بچا جا سکے۔