"MMC" (space) message & send to 7575

مشاورت میں برکت

اہم دینی وملّی امور میں اہل الرّائے اور اُس شعبے کے ماہرین سے مشاورت کرنا رسول اللہﷺ کی سنت ہے اور آپﷺ نے مختلف مواقع پر تعلیمِ امت کیلئے صحابۂ کرام سے مشورہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''پس اللہ کی رحمت ہی کے سبب آپ اُن کے لیے نرم ہوگئے اور اگر آپ تُند خو اور سخت دل ہوتے تو وہ ضرور آپ کے ارد گرد سے منتشر ہو جاتے‘ سو آپ اُن کو معاف کر دیں اور اُن کے لیے استغفار کریں اور (اہم) امور میں اُن سے مشورہ لیں‘ پھر جب آپ کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیں تو (کامیابی کے لیے) اللہ پر بھروسا کریں‘ بیشک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ (آل عمران: 159)۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے: ''اور ان کے کام باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں‘‘ (الشوریٰ: 38)۔ اس آیتِ مبارکہ کے نزول پر آپﷺ نے فرمایا تھا: ''بیشک اللہ اور اس کا رسول مشورہ سے مستغنی ہیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے مشورہ کو میری امت کیلئے رحمت بنا دیا ہے‘‘ (روح المعانی‘ جلد: 4‘ ص: 107)۔ ظاہر ہے مشورہ اُن امور میں ہوگا‘ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کے صریح احکام نہ ہوں‘ ورنہ اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت ہر حال میں لازم ہے۔
رسول اللہﷺ نے جنگی امور میں صحابۂ کرام سے مشاورت فرمائی۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفارِ مکہ کے جنگی قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے تو آپﷺ نے اُن کی بابت مسلمانوں سے مشورہ کیا کہ اُن سے کیا سلوک کیا جائے‘ کیونکہ اُس وقت جنگی قیدیوں کی بابت اَحکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''(بدر کے موقع پر) قیدی لائے گئے‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ صحابی بیان کرتے ہیں: میں نے کسی شخص کو رسول اللہﷺ سے زیادہ اپنے رفقاء سے مشورہ لینے والا نہیں دیکھا‘‘ (ترمذی: 1714)۔ اسی طرح غزوۂ احزاب میں آپﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے کو قبول فرماتے ہوئے دفاع کیلئے خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا اور اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور تقریباً ایک ماہ کے محاصرے کے بعد کفار کو نامراد ہو کر واپس لوٹنا پڑا۔ لیکن ظاہر ہے کہ مشورہ اہلِ رائے سے کرنا چاہیے یا اگر معاملہ کسی خاص شعبے سے متعلق ہے تو اُس کے ماہرین سے مشورہ لینا چاہیے‘ کیونکہ مشاورت اور اجتماعی رائے میں برکت ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی معاملے میں صحیح اور غلط کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات اگر ایک رائے فی نفسہٖ درست ہے‘ تو دوسری اس سے بہتر ہو سکتی ہے اور تیسری بہترین ہو سکتی ہے۔ کسی مقصدِ خیر کو حاصل کرنے کیلئے ایک سے زیادہ تدابیر (Strategies) ہو سکتی ہیں‘ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک موقع پر اُس وقت کے مخصوص حالات کے تحت ایک تدبیر کارگر ثابت ہوتی ہے‘ لیکن دوسرے موقع پر وہی تدبیر یا چال ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس لیے مختلف مواقع پر ایک سے زیادہ آراء سامنے آنے سے مسئلے کے حل کی احسن صورت نکل آتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو بندہ مشورہ لے‘ وہ کبھی بدبخت نہیں ہوگا اور جو بندہ اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھے وہ کبھی نیک بخت نہیں ہوتا‘‘ (الجامع لاحکام القرآن‘ جلد: 14‘ ص: 250)۔
رسول اللہﷺ کے بعد خلفائے راشدین بھی مباح اُمور میں امین لوگوں سے مشاورت کرتے تھے تاکہ مسئلے کے حل کے لیے کوئی احسن صورت سامنے آ جائے اور وہ اسے اختیار کر لیں‘ ہاں! اگراُن پر واضح ہو جاتاکہ درپیش معاملے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کے واضح احکام موجود ہیں‘ تو پھر وہ نبیﷺ کے اِتّباع میں یکسو ہو کر اس پر عمل پیرا ہو جاتے‘ اور کسی اور جانب نہ دیکھتے‘‘ (سنن ابو داؤد‘ باب المشورہ)‘ کیونکہ جب اللہ اور اس کے رسول کی منشا قطعی طور پر معلوم ہو جائے تو پھر کسی اور جانب دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن یہ امر بھی لازم ہے کہ جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہو‘ خیر خواہ ہو‘ اپنی اور سب کی فلاح چاہتا ہو‘ دھوکا نہ دے؛ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ''جس سے مشورہ مانگا جائے‘ وہ امین ہوتا ہے‘‘ (ابوداؤد: 5087)۔ یعنی اس پر لازم ہے کہ دیانت داری سے رائے دے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے: ''نبیﷺ نے نماز کی جماعت کیلئے لوگوں کو مطلع کرنے کے بارے میں صحابۂ کرام سے مشورہ کیا کہ کیا طریقۂ کار اختیار کیا جائے‘ پھر خواب میں ایک صحابی کو فرشتے نے کچھ کلمات اِلقا کیے تو رسول اللہﷺ نے اسے پسند فرمایا اور انہی کلماتِ مبارکہ پر مشتمل اذان کو مشروع کر دیا‘ جو آج بھی مسلمانوں کا شِعار ہے۔ دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمرؓ تمام اہم معاملات میں صحابۂ کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے اور ہر درست مشورے کو قبول کرتے تھے۔ انہوں نے شراب کی حد کے بارے میں صحابۂ کرام سے مشورہ کیا اور حضرت علیؓ کے مشورے پر شراب کی حد اَسّی کوڑے مقرر کی۔ طواف کے دوران کچلے جانے کے سبب ایک شخص کی موت واقع ہو گئی‘ حضرت علیؓ نے کہا: ''مومن کا خون رائیگاں نہیں جاتا‘ اس کی دِیَت بیت المال سے ادا کی جائے‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس مشورے کو قبول کیا اور کہا: ''اگر علی نہ ہوتے‘ تو عمر ہلاک ہوجاتا‘‘ یعنی اس پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔
اہم امور میں مشاورت کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا شِعار قرار دیا اور رسول اللہﷺ کو صحابۂ کرام سے مباح امور میں مشاورت کا حکم فرمایا۔ مشاورت میں برکت ہے‘ خیر ہے‘ اجتماعیت ہے اوراس کے نتیجے میں انسان عُجبِ نفس‘ خود فریبی اور خود رائی میں مبتلانہیں ہوتا۔ اجتماعی امور میں مشاورت سے سب میں احساسِ شرکت پیدا ہوتا ہے اور اجماعی یا اکثری فیصلوں اور اُن کے نتائج کی ذمہ داری بھی سب پر عائد ہوتی ہے‘ کسی ایک فرد پر تنہا ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مسلمانوں سے مشاورت کا حکم دینے کے بعد فرمایا: ''جب آپ (کسی کام کا) پختہ ارادہ کر لیں تو پھر اللہ پر توکل کریں‘‘ یعنی پھر یکسو ہوکر اور اللہ پر توکل کرکے اس کام میں لگ جانا چاہیے۔ مشورہ کرنے میں خیر ہے‘ مگر ہر حال میں مشورہ ماننا ضروری نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کسی سے مشورہ لیا جائے تو وہ کہتا ہے ''مشورہ دینے کا کیا فائدہ‘ کوئی مانتا تو ہے نہیں‘‘۔ رسول اللہﷺ نے ایک صحابیہ حضرت بَرِیرہؓ کو اپنے سابق شوہر کے ساتھ نکاح میں رجوع کرنے کا مشورہ دیا‘ انہوں نے عرض کی: ''یا رسول اللہﷺ! کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: (نہیں!) یہ میری سفارش ہے‘ اس نے عرض کی: پھر مجھے ان سے کوئی حاجت نہیں ہے‘‘ (بخاری: 5283)۔ رسول اللہﷺ نے یہ مثال تعلیمِ امت کیلئے قائم فرمائی تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہر حال میں مشورہ ماننا ضروری نہیں ہے‘ مشورے کو رَدّ بھی کیا جا سکتا ہے اور مشورہ دینے والے کو اسے اپنی توہین پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔
یہ چند سطور میں نے اس لیے لکھیں کہ ہمارے ہاں حکمرانوں پر تو شاہانہ مزاج رکھنے کا طَعن کیا جاتا ہے‘ جو کافی حد تک درست ہے لیکن مستقبل میں حکمرانی کے امیدوار رہنماؤں کی ذہنی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے‘ یعنی سب ہی اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اور عملی طور پر اپنے آپ کو خطا سے محفوظ گردانتے ہیں‘ اس لیے انہیں صرف وہی مشورہ یا رائے اچھی لگتی ہے‘ جس میں ان کے ہر قول وفعل کی غیر مشروط طور پر تحسین کی جائے اور ان کے کسی اِقدام پر انگلی نہ اٹھائی جائے۔ کوئی کتنی ہی نیک نیتی سے رائے دے یا تنقید کرے‘ وہ اسے اپنی توہین پر محمول کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ سے اختلاف رائے رکھنے والا ہر شخص آپ کا دشمن یا آپ کا مخالف ہے‘ وہ آپ کا خیرخواہ اور آپ کا ہمدرد بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ منہ پر مدح وستائش کرنے والا ہر شخص آپ کا بہی خواہ ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''جب تم (کسی کے سامنے اس کی) تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو اس کے منہ پر مٹی ڈالو‘‘ (بخاری: 7495)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں