یہ فتوے کا محل نہیں‘ تہذیب کا معاملہ ہے۔ ہماری تہذیب کا‘ جس کا ایک ستون حفظِ مراتب ہے۔
عارف علوی صاحب فرطِ جذبات میں بہہ گئے‘ یہاں تک کہ حفظِ مراتب کو نظر انداز کر دیا۔ تہذیب کیا ہے: محبت اور نفرت کے اظہار میں توازن۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے ہمیں اس معاملے میں بھی اپنی رہنمائی سے محروم نہیں رکھا۔ کون ہے جو ہمیں آپﷺ کی ذاتِ والا صفات سے عزیز تر ہو سکتا ہے لیکن دیکھیے‘ آپﷺ نے کیا فرمایا۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عمرؓ کو یہ کہتے سنا: اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: ''تم لوگ میری تعریف اور مدح میں حد سے تجاوز نہ کرو‘ جیسا کہ مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا۔ بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو‘‘۔
عمران خان صاحب کی تعریف کے لیے مستعمل اسالیب کی کمی نہیں تھی۔ شاعری‘ بالخصوص غزل تو ہے ہی محبوب کی تعریف میں مبالغہ۔ علوی صاحب چاہتے یا شاعری کے ذوق آشنا ہوتے تو اردو شاعری سے کوئی اسلوب مستعار لے سکتے تھے۔ معلوم نہیں یہ بے توفیقی ہے یا بد ذوقی کہ انہوں نے عمران خان صاحب کی مقبولیت کا موازنہ انبیا کی مقبولیت سے جا کیا۔ معاملہ محض ذوق کا نہیں‘ اس غلط فہمی کا بھی ہے کہ مقبولیت حق وصداقت کا کوئی پیمانہ ہے۔ بین السطور انہوں نے جو کچھ کہا‘ اس کا اندازہ ان کے لہجے اور سامعین کی طرف سے 'بیشک بیشک‘ کے تائیدی الفاظ سے کیا جا سکتا ہے۔ اب مناسب یہی ہے کہ بین السطورکو اس کی جگہ پہ مستور رہنے دیا جائے۔
سیاست میں مبالغہ ہوتا ہے‘ بد احتیاطی بھی۔ مگر جو کچھ عمران خان صاحب کے بارے میں سننے اور دیکھنے میں آیا ہے‘ اس کی کوئی نظیر اس سے پہلے موجود نہیں۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو مذہبی ہے۔ اگر یہ غیر مذہبی دائرے میں ہوتا تو مضحکہ خیز قرار دے کر‘ لوگ صرفِ نظر کر لیتے۔ مذہب کا معاملہ نازک ہے‘ بطورِ خاص اُس وقت جب فضا ایک معاملے میں زیادہ حساس ہو۔ خان صاحب کی تعریف میں مذہبی لغت کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ وہ خود بھی اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انہیں کسی الٰہی مشن پر بھیجا گیا ہے اوران پر آزمائشیں اسی لیے ہیں کہ اس مشن کے لیے ان کی تربیت کی جائے۔ ان کے متاثرین بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی تعریف میں زیادہ سے زیادہ مبالغہ کرتے ہیں کہ ان کا شمار خدا کی برگزیدہ ہستیوں میں کیا جائے۔
یہ عمومی سیاست میں نہیں ہے۔ یہ کلٹ کی لغت ہے۔ کلٹ ظاہر ہے کہ مصنوعی عمل ہے جس کے لیے کوئی الہامی سند موجود نہیں ہوتی‘ جیسے اللہ کے سچے پیغمبروں کے بارے میں ہوتی ہے۔ کلٹ میں سب کچھ انسان ساختہ ہو تا ہے۔ تصوف کی روایت میں اس کے بیشمار شواہد مل جاتے ہیں۔ مذہبی سیاست میں بھی یہی ہوتا ہے۔ ایرانی انقلاب اور اس کے بعد بالخصوص ایران عراق جنگ میں جو لٹریچر وجود میں آیا اس کی ایک مثال ہے۔ عمران خان صاحب بھی ایک کلٹ ہیں۔ اب عارف علوی صاحب جیسا مذہبی پس منظر رکھنے والا کوئی آدمی ہی کیوں نہ ہو‘ جب اس فضا میں جیتا ہے تو اسی طرح کلام کرنے لگتا ہے۔
اس سارے مقدمے میں غلط فہمی یہ ہے کہ مقبولیت کسی کے سچا ہونے کا پیمانہ ہے۔ انبیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حق اپنے استدلال اور دلیل کی بنیاد پر حق ہوتا ہے نہ کہ پیروکاروں کی تعداد کی اساس پر۔ اس کا مطلب جمہوریت کی نفی نہیں۔ جمہوریت کبھی حق وباطل کا فیصلہ نہیں کرتی۔ یہ سیاسی واجتماعی معاملات میں فصلِ نزاع کا ایک طریقہ ہے۔ انسان کا فیصلہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ اس میں غلطی کا امکان مضمر ہوتا ہے۔ اس امکان کے باوصف‘ جمہوریت کو اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ سیاسی تنازعات کے لیے جو دیگر حل پیش کیے جاتے ہیں وہ اس سے زیادہ ناقص ہیں۔ پھر جمہوریت میں انسانوں کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ اپنے غلط فیصلے کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ علوی صاحب نے مقبولیت کو خان صاحب کے برحق ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا۔ اس مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ایک خطرناک وادی میں جا قدم رکھا۔
میں علوی صاحب کے بارے میں یہ گمان نہیں کرتا کہ وہ انبیا کے ساتھ عمران خان صاحب کا موازنہ کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے میں نے ان کی بات کو فتوے کا موضوع نہیں سمجھتا۔ تاہم اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب کے بارے میں ان کا علم محدود ہے۔ وہ حفظِ مراتب کی اس قدر سے واقف نہیں جو اسلامی تہذیب کا ایک ستون ہے۔ بعض دیگر اقدار کے معاملے میں بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ میں نے بارہا ایوانِ صدر میں جمعہ کی نماز ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ادا کی۔ مسجد میں آتے جاتے وقت نہ تو وہ کسی کو سلام کرتے تھے اور نہ کسی کو مخاطب بناتے۔ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی کی طرف مسکرا کر دیکھا ہو۔ میں اس رویے کی کوئی توجیہ نہیں کر سکا۔
عارف علوی صاحب کے اس تبصرے میں سیاسی جماعت کے کارکنوں کے لیے بڑا سبق ہے۔ اپنے راہنماؤں سے محبت فطری ہے۔ اس کے اظہار میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ان کے بارے میں مگر یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ وہ انسان ہیں‘ فرشتے یا معاذاللہ خدا کے فرستادہ نہیں۔ اقتدار کی سیاست میں سر تا پا آلودہ لوگوں کا معاملہ تو اخلاقی طور پر اتنا کمزور ہوتا ہے کہ ان کی تعریف میں مبالغہ کرتے وقت یہ احتیاط کی جائے کہ اقلیمِ مذہب میں قدم نہ جا پڑے۔ ہماری تہذیبی روایت میں انبیا‘ صحابہ اور امت کے نیک افراد سے منسوب دعائیہ جملوں میں بھی حفظِ مراتب کا اہتمام ہوتا ہے‘ اگرچہ اس باب میں تشدد کو روا نہیں رکھا گیا۔ مثال کے طور پر 'رضی اللہ عنہ‘ ایک صحابی کے لیے استعمال ہوتا ہے جو قرآن مجید کی ایک نص پر مبنی ہے۔ غیر صحابی نیک فردکے لیے 'رحمۃ اللہ علیہ‘ لکھا جاتا ہے۔ بعض قدیم کتابوں میں غیر صحابی کے لیے بھی 'رضی اللہ عنہ‘ لکھاگیا ہے اور اس پر کسی نے فتویٰ نہیں دیا۔ تاہم عمومی روش احتیاط اور حفظِ مراتب ہی پر مبنی ہے۔
میں‘ اسی لیے ہمیشہ اس جانب متوجہ کرتا رہا ہوں کہ سیاست کو کلٹ بننے سے شعوری طور پر روکا جائے۔ اہلِ سیاست کے لیے مرشد طرح کی اصلاحوں کے استعمال پر فتویٰ نہیں دیا جا سکتا لیکن اس سے کلٹ بننے کا عمل غیر شعوری طور پر آگے بڑھتا ہے۔ یہاں تک کہ عارف علوی صاحب جیسا مذہبی پس منظر رکھنے والا بھی اسی رو میں بہہ جاتا ہے۔ اس لیے اس سے بچنے ہی میں خیر ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ نون لیگ کے ایک راہنما سے بھی اسی نوعیت کا ایک غیر محتاط جملہ منسوب ہے۔ سب کو اس سے شعوری طور پر بچنا چاہیے۔ خود لیڈر کو اس کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے۔ مولانا مودودی کی مخالفین نے ایک بار ان کے بارے میں مشہور کر دیا کہ وہ مہدی ہونے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ان کا جواب یہی تھا کہ میں جب اس طرح کے دعووں سے پاک اپنے رب کے حضور پہنچ جاؤں گا تو ان لوگوں کے پاس اپنی مدافعت میں کہنے کو کچھ نہیں ہو گا۔ ایسے لوگ رسوخ فی العلم کی وجہ سے محتاط ہوتے اور اپنے حلقے کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈر کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ عمران خان صاحب کے مداحوں کو اس بارے میں تعلیم وتربیت کی شدید ضرورت ہے۔