خیبرپختونخوا حکومت نے وفاق سے افغانستان سے بات چیت کے لیے درکار ٹی او آرز جلد از جلد منظور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ وفاق صوبے میں دہشت گردی کی روک تھام کے اہم مسئلے پر سیاست کرنے سے گریز کرے۔ انہوں کہا کہ وفاق کو پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ کے بیرونی دوروں پر کوئی اعتراض نہیں‘ جب حکومتِ پنجاب بھارت سے سموگ ڈپلومیسی کر سکتی ہیں تو دہشت گردی جیسے اہم مسئلے پر خیبر پختونخوا حکومت کی افغانستان سے بات چیت میں کیا حرج ہے؟ اس میں دورائے نہیں کہ افغانستان کی صورتحال کا براہِ راست اثر خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی اضلاع پر پڑتا ہے‘ اس ضمن میں متاثرہ اضلاع میں قیامِ امن کے لیے صوبائی حکومت کا مطالبہ درست اقدام معلوم ہوتا ہے۔ اگر صوبائی حکومت کو لگتا ہے کہ امن کے لیے افغانستان کے ساتھ بات چیت مؤثر ثابت ہو سکتی ہے تو وفاق کی سرپرستی میں اسے ایک موقع ضرور دیناچاہیے۔ تاہم ایسے حالات میں جب افغان قیادت داخلی طور پر اختلافات کا شکار ہے‘ کیا خیبرپختونخوا حکومت کی کوششیں کامیاب ہو ں گی؟
افغانستان میں داخلی انتشار کسی بھی وقت شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ میں طالبان حکومت‘ معاشی بدحالی اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ طالبان کی حکومت میں مختلف دھڑوں کے درمیان پالیسیوں اور اقتدار کی تقسیم پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر طالبان قیادت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک دھڑا لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کرتا ہے اور اسے اسلامی اصولوں کے مطابق ضروری سمجھتا ہے جبکہ دوسرا دھڑا سخت گیر مؤقف اختیار کرتے ہوئے لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ حقانی گروپ لڑکیوں کی تعلیم کا حامی سمجھا جاتا ہے جبکہ قندھاری گروپ اس کے برعکس سخت گیر مؤقف کا حامل ہے۔ یوں اس تقسیم نے نہ صرف طالبان کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچایا ہے بلکہ افغان معاشرے میں بھی گہری تقسیم پیدا کر دی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے بھی طالبان میں اختلافات موجود ہیں۔ کچھ رہنما معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے لچکدار پالیسیاں اپنانے کے حامی ہیں جبکہ دوسرے سخت گیر مؤقف پر قائم ہیں۔ یہ اختلافات معاشی بدحالی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اقتدار کی تقسیم بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس پر طالبان کے مختلف دھڑوں میں تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔ اقتدار پر قبضے کے بعد مختلف دھڑوں نے اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دی ہے جس سے حکومت میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ یہ اختلافات طالبان کی حکومت کو اندرونی چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں اور ان کا اثر افغانستان کے مستقبل پر بھی پڑ سکتا ہے۔
معاشی بدحالی افغانستان میں داخلی انتشار کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بین الاقوامی امداد کی کمی اور معاشی پابندیوں کے باعث افغان معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ بیروزگاری‘ غربت اور خوراک کی قلت نے عام افراد کی زندگی اجیرن بنا دیی ہے جس سے طالبان حکومت کے خلاف عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ سماجی مسائل بھی افغانستان میں انتشار کو ہوا دے رہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک جیسے مسائل نے افغان معاشرے میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ افغانستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے پاکستان نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے مگر اس وقت صورتحال ماضی سے کافی مختلف ہے۔ طالبان حکومت پاکستان سے تعاون کی تو خواہاں ہے مگر ان شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے تیار نہیں جو پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہیں حالانکہ طالبان قیادت بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت افغانستان کے معاشی استحکام میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ خشکی سے گھرا ہونے کی وجہ سے افغانستان کے لیے پاکستان ایک اہم تجارتی راہداری کا کام کرتا ہے۔ پاکستان کی بندرگاہیں بین الاقوامی تجارت کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستان کے ذریعے افغانستان کو بحیرۂ عرب تک رسائی ملتی ہے جس سے وہ دنیا بھر سے تجارت کر سکتا ہے۔ یہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان ایک اہم ٹرانزٹ روٹ بھی ہے‘ جو وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان تجارت کو فروغ دیتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اگرچہ مختلف ادوار میں مختلف تجارتی معاہدے ہوتے رہے ہیں‘ تاہم 2010ء کا پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ سب سے اہم سمجھا جاتا ہے جس میں طورخم بارڈر‘ سپین بولدک اور غلام خان بارڈر کو زمینی تجارت کے لیے شامل کھولا گیا جس سے افغانستان کو گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان کو ٹیکس اور تجارتی پابندیوں میں مختلف ادوار میں چھوٹ دی گئی‘ جس کا مقصد افغان تجارت کو فروغ دینا تھا‘ تاہم ٹرانزٹ ٹریڈ کے سامان کو افغانستان لے جانے کے بجائے پاکستان میں ہی غیرقانونی طور پر فروخت کیا جانے لگا‘ جس سے پاکستان کی مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچا اور ٹیکس چوری بھی ہوئی۔ اس معاہدے کی آڑ میں سمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ حکومت پاکستان کے حالیہ اقدامات میں سمگلنگ کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات‘ مانیٹرنگ کو مؤثر بنانا اور سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائیاں شامل ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانا اور غیرقانونی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔
پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات سے افغانستان کے لیے اپنے معاشی چیلنجوں پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ پاکستان کی بندرگاہیں اور زمینی راستے افغانستان کی بین الاقوامی تجارت کے لیے ناگزیر ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ رہیں گے تو افغانستان کی تجارت میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی‘ جس سے افغان معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ بین الاقوامی پابندیوں اور اندرونی مسائل کی وجہ سے افغانستان کی معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ ایسے میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی افغانستان کے لیے معاشی مشکلات کا باعث بنے گی۔ پاکستان سے درآمد ہونے والی اشیا کی قلت سے افغانستان میں مہنگائی بڑھے گی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح افغانستان کی پاکستان کے راستے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت بھی متاثر ہو گی‘ جس سے افغانستان کے لیے نئے تجارتی مواقع پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین اچھے تعلقات نہ صرف معاشی استحکام کے لیے ضروری ہیں بلکہ خطے کے امن و امان کے لیے بھی اہم ہیں۔ دونوں ممالک کو مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنی اور خطے میں امن قائم کرنا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے مابین کشیدگی برقرار رہے گی تو دہشت گرد گروہوں کو فائدہ پہنچے گا اور خطے میں عدم استحکام بڑھے گا۔ اگست 2021ء میں امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہوا تھا۔ ان ساڑھے تین برسوں کے دوران کسی ملک نے افغانستان کو تسلیم نہیں کیا۔ افغان قیادت کے لیے افغانستان کو عالمی سطح پر تسلیم کرانا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ 90ء کی دہائی میں جب طالبان نے پہلی بار افغانستان میں اقتدار حاصل کیا تو پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا‘ اب بھی اگر دنیا نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا شروع کیا تو پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہو سکتا ہے لیکن صرف اسی صورت جب طالبان قیادت اپنے سخت گیر مؤقف کو ترک کرکے پاکستان کی اہمیت کو سمجھے۔