افغانستان میں موجود امریکی اسلحے کا دہشت گردی کیلئے استعمال پاکستان کیلئے تشویشناک ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ بھی دہشت گردی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے طورخم بارڈر بند ہے۔ طورخم بارڈر کی بندش افغانستان کیلئے بھی معاشی لحاظ سے نقصان دہ ہے کیونکہ افغانستان کا اپنی ضرورت کیلئے پاکستان سے سامان منگوانا پڑتا ہے۔ پاکستان سے افغانستان کو خوراک‘ ایندھن اور دیگر ضروری سامان برآمد کیا جاتا ہے۔ اگر یہ بارڈر چند روز بند رہتا ہے تو افغانستان میں ان اشیا کی قلت ہو جاتی ہے۔ طورخم بارڈر کی بندش سے افغانستان کی برآمدات بھی پاکستان نہیں پہنچ پاتیں۔ افغان قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی مشکلات کے محرکات کیا ہیں اور اس کے تدارک سے وہ کیا حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ بنوں حملے میں افغانستان سے لائے گئے امریکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت منظرِ عام پر آ ئے ہیں۔ افغانستان سے جدید اسلحے کی سمگلنگ اور کالعدم ٹی ٹی پی کا سکیورٹی فورسز اور عوام کے خلاف اسلحے کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کے دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے مگر افغان حکومت نہ صرف اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلکہ افغان قیادت نے دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ عدم تعاون اور بے اعتنائی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان افغانستان سے ہونے والی دراندازی کا کوئی جواب نہ دے۔ برسوں سے پاکستان 37لاکھ سے زائد افغان شہریوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ 2023ء میں جب پاکستان نے غیر قانونی مہاجرین کی مرحلہ وار واپسی شروع کی تو افغانستان نے اس پر ردعمل دیا مگر دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کا استعمال روکنے کیلئے تسلی بخش اقدامات نہیں کئے۔ اب تک آٹھ لاکھ سے زائد افغان شہری واپس جا چکے ہیں‘ جب مزید افغان شہری واپس جائیں گے تو افغان حکومت کی مشکلات بڑھیں گی۔ حکومت کی طرف سے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو بھی 31مارچ تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یکم اپریل سے تمام غیر ملکیوں کی ملک بدری کا عمل شروع ہو جائے گا۔ پروف آف رجسٹریشن کارڈ اور افغان سٹیزن کارڈ کے ساتھ پاکستان میں مقیم افغانوں کی تعداد کا تخمینہ بالترتیب 13لاکھ اور سات لاکھ لگایا گیا ہے۔ ان بیس لاکھ افراد کی واپسی سے افغان حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو گا ۔ عالمی سطح پر بھی افغانستان کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری دیکھی جا رہی تھی اور ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد محسوس کیا جا رہا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں مگر داعش کمانڈر شریف اللہ کی گرفتاری کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔ شریف اللہ پر اگست 2021ء میں کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی کا الزام ہے جس میں 13امریکی فوجی اور تقریباً 170افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اُسے پاک افغان سرحد سے گرفتار کیا گیا اور امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ شریف اللہ نے امریکی عدالت میں پیشی پر کابل ایئر پورٹ‘ کینیڈین سفارتخانے اور ماسکو حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی محکمہ خارجہ نے شریف اللہ کی گرفتاری پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ گرفتاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم کامیابی ہے جس میں پاکستان کا کردار تسلیم کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلا کے طریقہ کار کو ناقص قرار دیتے ہوئے جو بائیڈن انتظامیہ کو اربوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان افغانستان میں چھوڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو بگرام ائیر بیس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے تھا۔ ٹرمپ کو اعتراض ہے کہ بگرام ایئر بیس چین استعمال کر رہا ہے حالانکہ یہ ایئر بیس چین پر نظر رکھنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ ٹرمپ چین کو امریکہ کیلئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ اور بگرام ائیر بیس واپس لیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان دوبارہ عالمی قوتوں کی توجہ کا مرکز بننے جا رہا ہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اہم یہ ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں دوبارہ اثر و رسوخ قائم کر پائے گا؟ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد پاکستان کی قیادت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ ہمیں افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید اب ہم امریکی مفادات کے بجائے اپنے مفادات کو مقدم رکھیں گے ‘مگر امریکی اظہارِ تشکر پر پاکستان کی گرمجوشی سے واضح ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ امریکی منصوبے کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اگر اسے درست تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کس قیمت پر دوبارہ امریکی مفادات کا حصہ بنے گا؟ اگر پاکستان اور امریکہ کے مابین دہشت گردی کے معاملے پر تعاون جاری رہتا ہے تو کیا طالبان اور افغانستان میں موجود دیگر شدت پسند گروہوں کو پاکستان کے خلاف اقدامات کا جواز میسر نہ آ جائے گا؟
بلوچستان میں چین کے اقتصادی مفادات خاص طور پر سی پیک منصوبے پہلے ہی دہشت گردی کے واقعات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ داعش کمانڈر شریف اللہ کی گرفتاری کے بعد مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ داعش جیسے گروہ اس گرفتاری میں پاکستانی معاونت پر پاکستان میں دہشت گردی کی کوشش کر سکتے ہیں‘ جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر امریکہ افغانستان میں چین کے مفادات کے خلاف قدم اٹھاتا ہے تو پاکستان کو یہ واضح کرنا پڑے گا کہ خطے میں اسے چین کا تعاون چاہیے یا امریکہ کا؟ صدر ٹرمپ چین کے ساتھ سازگار تعلقات کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے پائیدار تعلقات کیلئے ابھی ماحول سازگار نہیں کیونکہ امریکہ چین پر اضافی ٹیرف لگا چکا ہے‘ جواباً چین نے بھی ٹیرف لگا دیا ہے اور اقتصادی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کیلئے چین اور امریکہ کے مابین تعلقات میں توازن پیدا کرنا ایسی آزمائش ہے جو نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی بلکہ اس کے مستقبل کے اقتصادی اور سیاسی استحکام کو بھی متعین کرے گی ۔ چین پاکستان کا دیرینہ اور قابلِ اعتماد دوست ہے اور اس کی اقتصادی اور دفاعی ترقی میں ایک اہم شراکت دار رہا ہے؛چنانچہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنا پاکستان کیلئے سٹریٹجک اہمیت کا معاملہ ہے۔مگر پاکستان کیلئے کسی ایک ملک کے ساتھ مکمل طور پر منسلک ہونا آسان نہ ہو گا۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کیلئے ہمیں سفارتی مہارت کا استعمال کرنا ہو گا اور اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھنا ہو گا تاکہ ماضی کی طرح ہمیں پچھتانا نہ پڑے کہ ہم نے اس جنگ کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ دور اندیشی اور حکمت پر مبنی پالیسی ہی ہمارے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔