میں اکثر سوچتا ہوں‘ اور سوچتا اس لیے ہوں کہ حساس بندہ ہوں سوچے بنا رہ نہیں سکتا۔ سوچتا ہوں کہ بندہ سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ اور ہی ہے۔ بندہ منصوبہ بندی کچھ کرتا ہے اور قسمت میں لکھا کچھ اور ہوتا ہے۔ بندہ توقعات کچھ باندھتا ہے اور نتیجہ اس سے الگ‘ اکثر برعکس نکلتا ہے۔ اور یہ سب ہوتا ہے تو کیوں ہوتا ہے؟
ہم سب نے سوچا تھا کہ فروری 2024ء کے عام انتخابات ہو جائیں گے تو اس کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی اور یوں ملک سے سیاسی بے یقینی اور معاشی عدم استحکام کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن آج جب انتخابات ہوئے 14ماہ سے پانچ دن اوپر ہو چکے ہیں لگتا یہ ہے کہ مندرجہ بالا تینوں توقعات ہی پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ سیاسی بے یقینی ویسے کی ویسی ہے اور معاشی استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے قرضے لے کر اور ان قرضوں کی شرائط کے طور پر عوام کی گردنوں اور جیبوں پر مزید بوجھ ڈال کر ڈیفالٹ سے بچنے کو اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضے کی ایک نئی قسط حاصل ہونے پر باقاعدہ ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین فاصلے‘ دوریاں اور تفاوت بہت زیادہ ہے۔ اور اپوزیشن میں بھی پی ٹی آئی اور حکومت مابین جتنے فاصلے ہیں ویسے پہلے کسی حکومت اور اپوزیشن کے مابین نہ دیکھے گئے ہوں گے۔ ان کے درمیان جتنے فاصلے اور جو اختلافات 2024ء کے انتخابات سے پہلے تھے‘ آج بھی اتنے ہی ہیں‘ بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ۔ مختلف النوع آوازوں‘ خواہشوں‘ بیانات‘ ارادوں مطالبات اور تمناؤں کا ایک ایسا شور برپا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ پتا ہی نہیں چل رہا کہ کون کیا کہہ رہا ہے اور کیا کہنا چاہتا ہے۔ وہ کہہ کیا رہا ہے اور عوام کی سمجھ میں کیا آ رہا ہے۔ سمجھ میں آ بھی رہا ہے یا سوچ کی حدوں کے اوپر اوپر گزرتا جا رہا ہے۔
وزیر خزانہ جناب محمد اورنگزیب کی جانب سے اگلے روز جب یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف فراہم کیا جائے گا تو میرا ذہن فوری طور پر ان بیانات کی طرف چلا گیا جو اس سے پہلے حکومتوں اور حکمرانوں کی جانب سے کوئی بجٹ آنے سے پہلے دیے جاتے رہے۔ ان کے بھی الفاظ تقریباً ایسے ہی ہوتے تھے‘ اور پھر میری توجہ انتخابات کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں اور عوامی جلسوں میں لگائے گئے نعروں کی طرف چلی گئی۔ وہ دعوے اور وعدے بھی موجودہ دعوؤں اور وعدوں سے کچھ مختلف نہ تھے۔ یہ کر دیں گے‘ وہ کر دیں گے‘ عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر ملے گا‘ چیزیں سستی ہو جائیں گی‘ اور معاشی خوشحالی کا ایک ایسا دور شروع ہو گا کہ اس سے پہلے کبھی کسی نے دیکھا ہو گا‘ سوچا نہ ہو گا‘ لیکن جب الیکشن ہو جاتے ہیں تو سننے میں یہ آتا ہے کہ فلاں مجبوری کی وجہ سے عوام پر فلاں ٹیکس لگا دیا گیا ہے اور فلاں ناگزیریت کے پیشِ نظر عوام کو دی گئی فلاں سہولت یا سبسڈی واپس لے لی گئی ہے۔ عوام کا رونا 77 سال پہلے‘ 50 سال پہلے‘ 30 سال پہلے‘ 10 سال پہلے اور آج بھی روز افزوں مہنگائی ہے‘ اور اس سارے عرصے میں حکمرانوں نے بھی ریلیف کے لیے ترستے عوام کو بس خالی خولی نعروں اور بیانات پر لگائے رکھا۔
آج جب یہ خبر سامنے آئی کہ انڈیا کی فلم 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کو 30 سال پورے ہو گئے ہیں‘ تو میری توجہ فوری طور پر اس طرف گئی کہ 30 سال پہلے پاکستان میں روٹی ایک روپے کی اور نان دو روپے کا ملتا تھا۔ ان 30 برسوں میں ہم نے ترقی یہ کی ہے کہ عوام کی آمدنی بڑھی ہے یا نہیں بڑھی‘ لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں ہوا‘ روٹی 15 روپے کی اور نان 25 روپے کا ضرور ہو چکا ہے۔ اور یہ ابھی صورتحال کو بے حد قابو کیا گیا ہے تو حالات ایسے ہیں اگر حکومت معاملات پر قابو نہ پاتی تو ہو سکتا ہے کہ نان 40 اور روٹی 25 کی ہو چکی ہوتی۔ حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ وہ کیا زمانہ ہو گا جب چار یا آٹھ آنے کی دال اور روٹی مفت ملتی تھی یعنی چار یا آٹھ آنے میں کوئی بھی بندہ پیٹ بھر کر روٹی کھا سکتا تھا۔ عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی ہی تو ہے‘ کپڑا اور مکان کی باری تو اس کے بعد آتی ہے۔ تب روٹی اتنی سستی اس لیے مل جاتی تھی کہ نفسا نفسی نہیں پھیلی تھی‘ جائز و نا جائز طریقے سے دولت اکٹھی کرنے کی ہوس نے ابھی معاشرے میں قدم نہیں جمائے تھے۔ اب تو ہر کوئی بس لوٹ مار میں لگا ہوا ہے۔ اپنی کرنسی کی اتنی بے قدری نہیں تھی کہ جیب میں ہزاروں ہوں تو بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب جس کی جیب میں ایک سو روپیہ ہوتا تھا وہ خود کو شہنشاہ محسوس کرتا تھا۔ آج سالانہ بجٹوں میں اگر تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف دیا بھی جاتا ہے تو اس عرصے میں مہنگائی اس سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہوتی ہے‘ سو عام آدمی کی حالت ویسی ہی رہتی ہے اور ویسی ہی ہے جیسی اس سے پہلے ہوتی تھی۔
میں اکثر یہ بھی سوچتا ہوں کہ وطنِ عزیز کو ان حالات تک کس نے پہنچایا؟ ایک وسیع متوسط طبقے کو سکیڑنے اور غریب اور بے انتہا امیر طبقے کا دائرہ وسیع کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ کرنسی کو مسلسل ڈی ویلیو کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟ ملک کو معاشی طور پر استحکام کی راہ پر نہ ڈالنے کا قصور وار کون ہے؟ اور سماج کو ایک منظم معاشرے اور ایک یک جاں قوم میں تبدیل نہ کرنے کا گنہگار کون ہے؟ ملک میں کرپشن کو کس نے فروغ دیا؟ آئی پی پیز کے ساتھ عوام کُش معاہدے کس نے کیے؟ دولت اور پیسے کی ہوس کس نے بڑھائی؟ اور اخلاقی اقدار کو پاتال میں کس نے اتارا؟
ماضی بعید کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے کے زمانوں کی باتیں ہیں لیکن جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے میں ایک ہی کہانی کو بار بار دہرائے جاتے دیکھ‘ سن اور محسوس کر رہا ہوں۔ جب ملک کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو میں اپنے لڑکپن کے دور میں تھا۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کون ہے اور یہ شعور بھی نہیں تھا کہ اسے کس نے اور کیوں پھانسی دے دی؟ اور یہ کہ اس پھانسی کا ملک اور قوم کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا؟ لیکن اتنا ضرور دیکھا اور سنا کہ عوام میں اس پر شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ اس وقت بھی غربت تھی اور عام آدمی کی آمدن بھی کم تھی لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت موجودہ دور سے بہتر گزارہ ہوتا تھا۔ اتنی پریشانی نہیں تھی۔ اتنی نفسا نفسی نہیں تھی۔راتوں رات امیر بننے کی دوڑ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اور جو جس طبقۂ سماج میں تھا اُس میں خوش تھا۔ آگے بڑھنے کی سب میں لگن اور جذبہ ضرور تھا‘ اپنے سپنے پورے کرنے کی ہوس نہیں تھی۔ (جاری )