گزشتہ کالم کا اختتام اس بات پر ہوا تھا کہ افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنا بھی دہشت گردی کے شدت اختیار کرتے ہوئے مسئلے کا حل ہو سکتا ہے کیونکہ اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی علاقوں اور شہروں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو ان افغان پناہ گزینوں میں سے کچھ کی جانب سے سہولت کاری ہو رہی ہو۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سال میں لگ بھگ بیس لاکھ افغانوں کو وطن واپس پہنچایا گیا ہے۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ 1979ء میں سوویت افواج کی جانب سے افغانستان میں مداخلت سے لے کر طالبان کے دور تک لگ بھگ 30لاکھ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان میں پناہ لی۔ ان پناہ گزینوں میں سے بیشتر نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سکونت اختیار کی لیکن روزی کی تلاش میں بعض نے پنجاب اور سندھ کے شہروں کا بھی رُخ کیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا‘ دونوں صوبے افغانستان کی سرحد سے ملحق ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہاں مقیم تارکین وطن کو کبھی دستاویزات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ کیوں نہیں ہوئی‘ یہ ایک الگ سوال ہے۔ فی الوقت حالات یہ ہیں کہ حکومت نے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے پلان تشکیل دے دیا ہے جس پر یکم اپریل سے عمل درآمد ہونے کا امکان ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ (ACC) رکھنے والوں کی تفصیلات اکٹھی کی جائیں گی۔ کرایہ دار‘ مزدور اور کاروباری افغان باشندوں کی سکریننگ کی جائے گی۔ 31مارچ کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد اے سی سی کارڈ ہولڈر افغانوں کو نکالا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی تعداد آٹھ لاکھ 80ہزار ہے جن کی ان کے وطن بحفاظت روانگی یقینی بنا کر حکومت پاکستان داخلی سطح پر معاملات پر اپنی گرفت مضبوط بنا سکتی ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو واپس ان کے ملک بھیجنے کے لیے ڈیڈ لائن دیے جانے کے بعد رواں سال چھ فروری کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (United Nations High Commissioner for Refugees) جسے مختصراً UNHCR بھی کہا جاتا ہے‘ اور عالمی ادارہ برائے نقل مکانی (International Organization for Migration) IOM نے مہاجرین کی واپسی کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومت سے اس منتقلی کے طریقہ کار اور ٹائم فریم کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی۔ ایک مشترکہ بیان میں 'یو این ایچ سی آر‘ اور 'آئی او ایم‘ نے کہا تھا کہ با وقار اقدام کے لیے منصوبہ بندی کا غیر یقینی وقت تناؤ کی صورتحال کو بڑھا رہا ہے‘ اس طرح کے اقدام کے ذریعے معاش اور بچوں کی تعلیم پر فوری اثرات کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ یو این ایچ سی آر کے نمائندے فلپ کینڈلر نے کہا تھا کہ افغانستان میں جبری واپسی سے کچھ لوگوں کے لیے خطرہ بڑھ سکتا ہے‘ ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ دستاویزی حیثیت سے قطع نظر خطرے سے دوچار افغانوں کو تحفظ کی فراہمی جاری رکھے۔ مہاجرین کے حوالے سے عالمی اداروں کی تشویش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں سے بھی آنکھیں نہیں پھیری جا سکتیں۔ روزانہ خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ خود کش حملہ کیا گیا‘ فلاں جگہ سکیورٹی فورسز اور ان کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا‘ فلاں جگہ تھانے یا چوکی یا چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا گیا یا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ پاک افغان سرحد پر ایسی وارداتوں کے بعد بارڈر بند کرنا پڑتا ہے جس سے دونوں ملکوں کی باہمی تجارت اور دوسری آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی طورخم بارڈر 26روز کی طویل بندش کے بعد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک دن بارڈر بند رہے تو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ خراب ہو رہی ہے‘ چنانچہ دہشت گردی کا سدِ باب بھی نہایت اہم ہے۔
پہلے بھی عرض کیا تھا کہ چونکہ موجودہ افغان انتظامیہ پاکستان کی جانب سے مسلسل احتجاج اور مطالبات کے باوجود افغان سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی کو کسی صورت کنٹرول کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس کے بعد پاکستان کے پاس یہی آپشن باقی رہ جاتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے افغان باشندوں کو زبردستی باہر نکالا جائے۔ جب افغان انتظامیہ کو آٹھ لاکھ سے زائد مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا تب اسے سمجھ آ جائے گی کہ پاکستان نے اس کا کتنا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور اسی پاکستان کے خلاف وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے دے رہا ہے۔
پاکستان نے دہشت گردوں کے تعاقب میں افغانستان میں کارروائیوں کے اشارے بھی دیے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دشمنوں کے پیچھے کسی بھی ملک جانا پڑے تو جائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پہلے سے موجود ہے‘ اسے صرف بحال کیا جا رہا ہے تاکہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے‘ حکومت سکیورٹی اداروں کو تمام درکار وسائل فراہم کرے گی تاکہ قوم کو دہشت گردوں سے بچایا جا سکے۔
وہ جو کہا جاتا ہے کہ لمحوں کے فیصلے قوموں کی صدیوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں تو میرا اندازہ ہے کہ یہ بات افغان مہاجرین کی واپسی کے ایشو پر بھی صادق آتی ہے۔ ہم نے افغان مہاجرین کو کچھ عرصے کیلئے انسانی ہمدردی کی بنا پر پناہ دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے افغان مہاجرین کو کسی ایک صوبے یا ایک علاقے تک محدود رکھنے کی پالیسی نہیں اپنائی۔ اس کے اثرات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ انہوں نے یہاں جائیدادیں بنا لیں اور کاروبار شروع کر لیے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں جائیدادوں کی قیمتیں بڑھیں اور مقامی لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے۔ ہم نے افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے وقت فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے نے پورے پاکستان کو دہشت گردی کا شکار بنا دیا۔ اب اگر افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے معاملے میں تساہل اور سستی سے کام لیا گیا تو ظاہر ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ناممکن ہو جائے گا‘ اس لیے جو فیصلہ کیا گیا ہے اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ ذرا سی کمزوری‘ ذرا سی لغزش‘ ایک لمحہ کا کوئی غلط فیصلہ ملک اور قوم کو بھاری پڑ سکتا ہے۔ (ختم )