اپنے کالموں میں پہلے بھی کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ وہ دور ایسا تھا جس میں متوسط طبقے کے لوگ آدھا کلو گوشت خرید کر دو وقت کی پورے گھرانے کی روٹی پوری کر لیتے تھے۔ لوٹ کھسوٹ اور رشوت کم تھی اور لوگ کم آمدنیوں کے ساتھ بھی گزارہ کر لیتے تھے۔ سڑکوں پر گاڑیاں کم تھیں اور موٹر سائیکلیں اور سائیکلیں‘ جو درمیانے طبقے کی سواریاں ہوتی تھیں‘ زیادہ تھیں۔ اس کے باوجود لوگ مہنگائی کا رونا رویا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ایک مناسب حکومت تھی لیکن اس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن کا رشتہ اور تعلق ایسا ہی تھا جیسا آج ہے۔ کوئی کسی کو معاف کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اب بھی نہیں ہے۔ وہ جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا بعد میں ان کی اپنی بھی کوئی خاص حیثیت اور اہمیت باقی نہ رہی کیونکہ بعد ازاں ضیا الحق نے ملک میں انتخابات کرانے کا اعلان تو کیا لیکن انہیں غیرسیاسی بنیادوں پر کرانے کا حکم دیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ملک کو ایک بڑے لیڈر سے محروم کرنے والوں کو کیا ملا؟
25فروری 1985ء کو غیرسیاسی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں 1300امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ اس الیکشن میں حصہ لینے کے لیے شرط رکھی گئی تھی کہ ہر امیدوار کے پیپرز پر کم از کم پچاس ووٹروں کے دستخط ہوں۔ یہ تو خیر کوئی اتنی بڑی شرط نہیں تھی لیکن مخالفین کو انتخابات سے دور رکھنے اور کنزرویٹو لیڈر شپ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جنرل ضیا الحق نے 1962ء کے پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کرائی۔ اس ساری صورت حال کے نتیجے میں دو نئے عوامل اُبھر کر سامنے آئے۔ ایک تو موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (Movement for the Restoration of Democracy) شروع ہوئی جس کا مطالبہ تھا کہ فوجی حکومت ختم کی جائے۔ اس تحریک نے نان پارٹی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس بائیکاٹ کے باوجود وہ انتخابات ہو گئے اور ان انتخابات کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت بھی تشکیل پائی جس کی سربراہی محمد خان جونیجو کر رہے تھے۔ اس دوران ایم آر ڈی کی تحریک چلتی رہی اور ساتھ ہی افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال پر صدر ضیا الحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے جو 30مئی 1988ء کو غیر سیاسی اور غیر جماعتی بنیادوں پر منعقدہ انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی اسمبلی کی آئین کے آرٹیکل 58(2)(B) کے تحت تحلیل کا باعث بن گئے۔ اس طرح پانچ جولائی 1977ء کو لگنے والے مارشل لا کے نتیجے میں جو غیریقینی صورت حال پیدا ہوئی وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مزید گہری ہو گئی‘ 1985ء کے انتخابات کے بعد بھی قائم رہی اور 1988ء میں بیک جنبش قلم اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد بھی قائم رہی۔
16نومبر 1988ء کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں دو دسمبر 1988ء کو بے نظیر بھٹو نے اتحادی حکومت تشکیل دی اور خود مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم بنیں‘ لیکن وہ سیاسی بے یقینی جس کا رونا ہم اب تک رو رہے ہیں‘ تب بھی قائم رہی۔ نواز شریف اس اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف تھے۔ انہوں نے وزیراعظم کی لیگ پُلنگ جاری رکھی۔ نتیجہ یہ کہ چھ اگست 1990ء کو ان کی حکومت کو اسی 58(2)(B) کے تحت چلتا کر دیا گیا۔ سیاسی طور پر حالات کو یقینی بنانے کے لیے 24 اکتوبر 1990ء کو ایک اور عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اس بار نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے اور بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر بنیں؛ لیکن سیاسی استحکام نہ مل سکا۔ وزیراعظم نواز شریف کے صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات پیدا ہو گئے اور انہوں نے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کر دیا۔ نتیجہ صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے ایک بار پھر58(2)(B) کے استعمال کی صورت میں نکلا۔ 18اپریل 1993ء کو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن سیاسی استحکام کے حصول کی خاطر وہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ مئی میں سے ان کی حکومت کی بحالی کا آرڈر آیا‘ لیکن سیاسی استحکام پھر بھی ملک اور قوم کو نصیب نہ ہو سکا۔ وزیراعظم اور صدر کے مابین پیدا ہونے والی خلیج پاٹی نہ جا سکی۔ بالآخر 18جولائی 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف دونوں کو مستعفی ہونا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں کو گھر بھیجنے میں عسکری حکام نے کردار ادا کیا تھا۔
گمان تھا کہ ان استعفوں کے نتیجے میں کچھ سیاسی استحکام میسر آئے گا‘ لیکن یہ گمان محض گمان ہی ثابت ہوا۔ حالات میں کوئی تبدیلی مشاہدے میں نہ آئی۔ چھ اکتوبر 1993ء کو پاکستان میں ایک بار پھر عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ 18جولائی سے چھ اکتوبر کے درمیانی عرصے میں بھی سیاسی جوڑ توڑ اور کھینچا تانی کا سلسلہ جاری رہا۔ چھ اکتوبر کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی زیادہ سیٹیں لے کر آگے رہی۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔ انہوں نے ایک اتحادی لیکن مستحکم حکومت قائم کی۔ فاروق احمد خان لغاری کی صورت میں وہ اپنا صدر لانے میں بھی کامیاب ہو گئیں۔ اس اقدام کے بعد یہ خیال کیا گیا کہ اس بار نہ صرف حکومت اپنی میعاد پوری کرے گی بلکہ ملک میں ایک حقیقی سیاسی استحکام آئے گا جس سے بے یقینی کی کیفیت کا از خود خاتمہ ہو جائے گا‘ لیکن یہ خیال حقیقت نہ بن سکا۔ سیاسی ریشہ دوانیاں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں بھی جاری رہیں‘ حتیٰ کہ وزیراعظم کا حقیقی بھائی ایک پولیس اِن کاؤنٹر میں قتل کر دیا گیا۔ اور پھر عوام کی نظروں کے ساتھ ساتھ چشم فلک نے بھی دیکھا کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو ان کے اپنے منتخب کردہ صدر نے کرپشن کے الزامات کے تحت ختم کر دیا۔ عوامی بے چینی‘ سیاسی ہیجان اور بے یقینی کی کیفیت سب ماضی کی طرح قائم دائم رہے۔ پانچ نومبر 1996ء وہ دن تھا جب یہ سانحہ رونما ہوا۔
تین فروری1997ء کو ملک میں دس سال سے بھی کم عرصے میں چوتھے عام انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت حاصل کر کے برسر اقتدار آ گئی اور نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے آتے ہی آئین کی اس ترمیم کو ختم کر دیا جو چار منتخب حکومتیں کھا گئی تھی۔ اپنی حکومت کی بھاری اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کے اسمبلیاں توڑنے اور حکومتیں برخاست کرنے کے اختیار کو ختم کر دیا۔ اس ترمیم میں حکومت کو اس وقت کی اپوزیشن کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ آرٹیکل 58(2)(B) جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں آئین کا حصہ بنایا تھا جس کا مقصد صدر کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا۔ اس ترمیم کے بعد آئین پاکستان سے آرٹیکل 58(2)(B) میں ترمیم ہوئی جس کی رو سے صدر پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی اجازت تھی۔ اگر وہ اپنی رائے میں یہ سمجھتے ہوں کہ ملک یا ریاست میں ایسی صورت حال جنم لے چکی ہے کہ حکومت یا ریاست کا انتظام چلانا آئین پاکستان کی رو سے ممکن نہیں رہا اور اس تناظر میں نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو جائے۔ غلط یا درست‘ اس ترمیم کے ذریعے حاصل اختیارات کا چار بار استعمال کیا گیا۔ (جاری)