"KMK" (space) message & send to 7575

انقلاب تو دراصل کاشتکار نے روک رکھا ہے

یہ سارا خطہ اگر آج تک کسی خونیں انقلاب سے بچا ہوا ہے تو میری سمجھ میں صرف ایک ہی بات آتی ہے اور وہ یہ کہ یہ سارا خطہ اناج کے حوالے سے کبھی اتنا تہی دست نہیں ہوا کہ کوئی لمبا قحط پڑ جائے اور لوگ بھوک کے مارے اُٹھ کھڑے ہوں۔ پیٹ میں روٹی ہو تو انقلاب محض خواب ہے۔ اس زرعی خود کفالت یا مناسب گزارے نے کسی بھی خونیں انقلاب کے امکانات کو ہمیشہ مدھم کیے رکھا ہے۔ صدیوں سے زرعی حوالے سے شہرت رکھنے والے اس خطے کی زرخیز زمینوں اور وافر پانی نے ارد گرد کے بنجر‘ کوہستانی اور برفانی ملکوں کے سخت کوش جنگجوؤں کو ہمیشہ حملوں کی تحریک دی۔ برصغیر صدیوں سے بیرونی حملوں کی آماجگاہ رہا ہے اور اس کی واحد وجہ اس علاقے کی زرخیزی اور اناج کی فراوانی تھی‘ وگرنہ اس زمانے میں نہ کوئی صنعت ایسی تھی جسے حملہ آور لوٹ لیتے یا ساتھ اٹھا کر لے جاتے۔ دستکاری وغیرہ کوئی ایسی وجہ نہ تھی جس کی خاطر حملہ آور دور دراز کا سفر کرکے آتے۔ دستکاری تو ہر علاقے کی تہذیب‘ ضرورت اور رسم ورواج کے مطابق فروغ پاتی ہے‘ تاہم خوراک خواہ وہ انسانی ضرورت کو پورا کرے یا حیوانی ضروریات کی کفالت کرے‘ زندگی گزارنے کیلئے درکار ضروریات میں سب سے اہم چیز تھی۔ یہ خطہ ان چیزوں سے مالا مال بھی تھا اور حملہ آوروں کیلئے جنت ارضی کی مانند تھا۔
کپاس‘ گندم‘ چاول‘ دالیں‘ مکئی‘ باجرہ اور چارہ اس علاقے میں صدیوں سے کاشت ہو رہا ہے اور یہ خطہ ایک دو واقعات کے علاوہ کبھی قحط کا شکار نہیں ہوا۔ تاریخ میں جو گنتی کے قحط کے واقعات ملتے ہیں ان کے پیچھے بھی انتظامی معاملات کا زیادہ عمل دخل ہے‘ اور یہ قحط بھی وقتی تھے نہ کہ طویل المدتی۔ گندم اس خطے کے بیشتر علاقوں کی بنیادی غذا رہی ہے اور پاکستان کی تو بنیادی خوراک اور سب سے بڑی فصل ہی گندم ہے۔
گزشتہ سال پیداوار کے حساب سے شاید سب سے بڑی فصل کا سال تھا اور میرے علم کے مطابق شاید یہ پہلا سال تھا جب پاکستان میں گندم کی پیداوار لگ بھگ تینتیس ملین ٹن ہوئی اور اس پیداوار کے طفیل ایک عرصے کے بعد ہمیں گندم درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑی اور اس سال گندم کی نئی فصل کے مارکیٹ میں آنے تک ملک میں گندم کی کوئی کمی دکھائی نہ دی۔ وگرنہ ہر سال گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی ہر طرف ہاہاکار مچ جاتی تھی۔ سرکار اپنی آٹھ ملین ٹن کے لگ بھگ والی سرکاری خریداری کیلئے میدان میں آ جاتی تھی اور فصل کم ہونے کی صورت میں کاشتکار سے ڈنڈے کے زور پر گندم خرید لیتی تھی‘ بلکہ فصل اٹھا کر ادائیگی کر دیتی تھی۔ ان دونوں باتوں میں فرق یہ ہے کہ خرید تو فروخت کرنے والے کی مرضی اور منشا سے برضا ورغبت انجام پانے والا معاہدہ ہے تاہم حکومت گندم کی پیداوار کم ہونے کی صورت میں بذریعہ پٹواری اور تحصیلدار کاشتکار سے گندم زبردستی اُٹھا لیتی تھی۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ کاشتکار کے اپنے گھر کیلئے سال بھر کیلئے رکھی ذاتی گندم بھی محکمہ فوڈ نے حکومتی طاقت کے استعمال کے ذریعے اُٹھا لی۔ بیج بنانے والی کمپنیوں کے گندم کے بیج کو ضبط کر کے پسائی والی گندم میں ملا لیا اور خریدار کی مرضی کے خلاف اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کی غرض سے دھونس دھاندلی کی۔ تاہم ان خرابیوں کے باوجود وفاقی ادارہ پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک کی جانب سے آٹھ ملین ٹن کے لگ بھگ خریداری کی وجہ سے مارکیٹ میں مسابقت کا ماحول تھا اور سرکاری ریٹ پر عملدرآمد کی وجہ سے مارکیٹ میں گندم کے نرخ کسی حد تک متوازن رہتے تھے مگر گزشتہ سال سے حالات خرابی کی طرف چلے گئے ہیں۔
پنجاب میں گندم کی فصل کی سرکاری خریداری میں پاسکو کا حصہ صوبائی محکمہ خوراک کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ گندم کی فصل کی سرکاری خریداری میں بنیادی کردار پنجاب کے محکمہ خوراک کا تھا اور گزشتہ سال پنجاب حکومت نے اس خریداری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس سے یہ ہوا کہ مارکیٹ میں جو مقابلے اور مسابقت کی فضا قائم ہوتی تھی وہ اس یکطرفہ دستبرداری سے ختم ہو گئی۔ گندم کی خریداری ساری کی ساری پرائیویٹ ہاتھوں میں چلی گئی۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ خریداری پرائیویٹ طور پر ہی کی جاتی ہے مگر وہاں بہرحال زرعی اناج کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور کاشتکار کو اس کی فصل کے ریٹ کے سلسلے میں تحفظ دینے کا میکانزم موجود ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور معاشی حوالوں سے مضبوط ممالک میں بھی زرعی شعبے اور اس سے وابستہ لوگوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے زرعی پیداوار کے نرخوں کو اس حد تک کنٹرول میں رکھا جاتا ہے کہ کاشتکار کا مالی استحصال نہ ہو سکے۔
امریکہ تک میں شعبۂ زراعت کو بغیر سبسڈی کے منافع بخش انداز میں چلانا ناممکن ہے۔ غذائی تحفظ یعنی فوڈ سکیورٹی ایسا نازک معاملہ ہے جسے حکومتیں ہر حال میں مقدم رکھتی ہیں اور ملکی ضرورت کی کم از کم غذائی پیداوار کو ہر طرح سے تحفظ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک عدد وفاقی ادارہ برائے غذائی تحفظ موجود ہے تاہم وہ اپنی ذمہ داریاں کماحقہُ طور پر انجام دینے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ گزشتہ سال حکومت کی جانب سے خریداری سے ہاتھ کھینچ لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیوپاری‘ آڑھتی‘ ذخیرہ اندوز اور مل مالکان نے مل کر گندم کے کاشتکار کی جیب کاٹ لی اور اسے گندم کی فصل میں نقصان ہو گیا۔ گزشتہ سال پنجاب حکومت نے گندم کا نرخ 3900 روپے فی من مقرر کیا جبکہ سندھ نے اس سے بھی زیادہ ریٹ مقرر کر دیا۔ کاشتکار نے اچھے ریٹ کی امید میں خوب محنت کی اور محنت کے علاوہ خواہ ادھار پکڑ کر ہی سہی‘ مگر اس نے زرعی مداخل از قسم مہنگی ڈی اے پی‘ جڑی بوٹی مار سپرے‘ یوریا اور زنک وغیرہ پر خوب توجہ دی تاکہ وہ اپنی پیداوار بڑھا کر اس ریٹ پر گندم فروخت کرکے اپنی دیگر فصلات کا نقصان پورا کر سکے مگر سب کچھ خاک میں مل گیا اور اسے اپنی گندم کی بمپر کراپ اونے پونے بیچنی پڑ گئی۔
ابھی تو خدا کا شکر ہوا کہ اس کی محنت کے باعث ہونے والی زیادہ پیداوار نے اس کے نقصان کو کسی حد تک کم کر دیا مگر اس سال گندم کی فی ایکڑ پیداوار گزشتہ سال کی نسبت کم ہے اور ریٹ اس سے بھی کم ہے۔ اب میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اندازاً پانچ من فی ایکڑ تک پیداوار کم ہے اور یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ موسم نے گندم کی فصل کو بہت سہارا دیا وگرنہ اس سال کاشتکار کا ہاتھ زرعی مداخل کے سلسلے میں گزشتہ سال کی نسبت بہت تنگ تھا اور اس نے کئی چیزوں پر سمجھوتا کرتے ہوئے ہاتھ کھینچ کر رکھا مگر قدرت نے اس کی مدد کرتے ہوئے موسم کو اس کیلئے نعمت بنا دیا۔ تاہم اس کے باوجود صورتحال میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ گندم کی فصل کا فی ایکڑ خرچہ 75 ہزار 500 روپے ہے اور آمدنی بغیر ٹھیکہ و مزدوری‘ 82 ہزار 250 روپے فی ایکڑ بنتی ہے۔ اس سے تو اس کی وہ مزدوری بھی ادا نہیں ہوتی جو اس نے خود کی ہے۔
گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں تقریباً پانچ من کمی اور کاشتہ رقبہ میں کمی کے باعث اس سال کی پیداوار اندازاً ستائیس‘ اٹھائیس ملین ٹن ہو گی اور ملک کو تقریباً پانچ چھ ملین ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ اس درآمد میں پھر کھانچے لگیں گے۔ ملک کا زرِ مبادلہ خرچ ہو گا۔ درآمد شدہ گندم کا ریٹ بھی ملکی ریٹ سے زیادہ ہوگا۔ سرکار جو ٹکے ٹکے کیلئے آئی ایم ایف کے ترلے لے رہی ہے‘ اپنے کاشتکار کی گندم خرید کر اسے معاشی تحفظ دے کر ملکی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی جانب قدم اٹھا سکتی تھی مگر اب وہ درآمد کیلئے ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر خرچ کرے گی۔ اس متوقع درآمد سے جن لوگوں نے فائدہ اٹھانا اور مزے کرنے ہیں ان کو اس قصۂ درد سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے حکمران اگر کاشتکار کو اس کی محنت کا صحیح معاوضہ دلواتے ہیں تو وہ ان پر کوئی احسان نہیں ہوتا بلکہ ہمارے کاشتکار ان حکمرانوں کے محسن ہیں جنہوں نے صدیوں سے اس خطے میں اناج پیدا کر کے خونیں انقلاب کا راستہ روک رکھا ہے وگرنہ اس قسم کے حکمران کبھی کے خس و خاشاک کے مانند بہہ گئے ہوتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں