یہ میرے لڑکپن کی بات ہے اور اُس قصبے کی جس میں مَیں بڑا ہوا۔ جب بھی اقبال ڈے آتا تو تقریب میں اہم ترین مقرر اسسٹنٹ کمشنر ہوتا (شاید تب اسے ایس ڈی ایم کہتے تھے)۔ اسے اقبال کا بہترین شارح اور بہترین اتھارٹی سمجھا جاتا! اس لیے نہیں کہ وہ اقبال شناس تھا بلکہ اس لیے کہ وہ علاقے کا حاکمِ اعلیٰ تھا۔ جس کا جہاں اختیار ہوتا ہے وہ اسے اختیارِ کُلی سمجھتا ہے اور ہر شے پر اتھارٹی بن جاتا ہے۔
یہ ''اقبال شناسی‘‘ یوں یاد آئی کہ ایک یونیورسٹی میں ناصر کاظمی پر سیمینار منعقد کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کے سوا اردو ادب کے حوالے سے کوئی نامور نقاد یا سکالر اس میں نہیں بلایا گیا۔ ہاں‘ ہمارے دوست ڈاکٹر ساجد علی موجود تھے۔ ان کی جولان گاہ فلسفہ ہے۔ انہیں شاید اس لیے زحمت دی گئی کہ وہ ناصر کاظمی کے فرزند باصر سلطان کاظمی صاحب کے دیرینہ دوست ہیں۔ لگتا ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو بھی غلطی سے بلا لیا گیا کیونکہ مقررین کی فہرست سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیمینار نہیں‘ یونیورسٹی کا کلاس روم ہے۔ چونکہ اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر اقبال اور قائداعظم پر اتھارٹی ہوتے ہیں اس لیے یونیورسٹی میں بھی جو ڈین ہو گا یا شعبے کا ڈائریکٹر ہو گا وہ ناصر کاظمی پر بھی اتھارٹی ہو گا‘ بلکہ جس شاعر یا ادیب کے حوالے سے بھی تقریب ہو گی وہ اسی پر اتھارٹی ہو گا!! اختصاص‘ فرض کیجیے اقبال پر ہے تو ناصر کاظمی اور مجید امجد کا ماہر ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی! بھلا یہ کس نے پوچھنا ہے کہ نقد و نظر میں آپ کا کیا مقام اور نام ہے! یونیورسٹی میں آپ تعینات ہیں‘ ویڑھا آپ کا اپنا ہے۔ بقول ظفر اقبال: خاک اُڑا اور بہت!
یونیورسٹیوں کا یہ شرمیلا اور تنہائی پسند (Introvert) رویہ کافی عرصے سے چلا آرہا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ایک یونیورسٹی میں حالی پر سیمینار ہوا تو یہی انداز اپنایا گیا۔ شعبۂ تعلیم سے وابستگی ہو اور آپ پی ایچ ڈی ہوں تو بس آپ امرت دھارا ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ معین نظامی‘ انوار احمد‘ مرزا حامد بیگ‘ ارشد ناشاد اور کئی دوسرے نامور سکالر یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے ہیں مگر مجموعی طور پر شعبۂ تعلیم میں ایسے افراد کم آئے جن کا اولین انتخاب معلمی تھا! اپنے شوق اور Passion سے آنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ اکثریت ان ''اساتذہ‘‘ کی ہے جو کہیں اور نہ کھپ سکے۔ ظفر علی خان نے کہا تھا:
جسے آتا نہیں روٹی کمانا
وہ کر لیتا ہے مسجد کی امامت
عساکر‘ سول سروس‘ صحافت‘ بنکاری میں جگہ نہ ملے تو سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں تو ہیں! یونیورسٹیوں میں جو پارٹی بازیاں‘ دھڑے بندیاں‘ چھوٹے درجے کی سیاست اور سازشی ماحول ہے اس کی کہانیاں بھی زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ منکر نکیر جسے چاہیں اس کا مقالہ منظور کر لیں اور جسے نہ چاہیں وہ جوتیاں چٹخاتا پھرے! اس ضمن میں بہت سے ناگفتہ بہ اور عبرتناک حقائق ہیں جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں! کوئی طالبہ منکر نکیر کی منظورِ نظر ہو جائے تو اس طالبہ کے دوست کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا جاتا ہے۔ شاگرد خواتین کے ساتھ معاملات شادیوں پر بھی منتج ہوتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں! اس حوالے سے کچھ معروف نام بھی ذہن میں آتے ہیں۔ پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی پر جس طرح طلبہ تنظیموں کا کنٹرول رہا ہے‘ اور ہے‘ اور جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یونیورسٹی کا ماحول سنجیدہ علمی کام کے لیے ہر گز مناسب نہیں ہے۔ وائس چانسلروں کے گھروں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ اساتذہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ طلبہ تنظیمیں خالص انتظامی اور تدریسی معاملات میں دخیل ہوتی ہیں! پھر جب سے پی ایچ ڈی کا معاملہ الاؤنس کے ساتھ جڑا ہے‘ پی ایچ ڈیز کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ ''شخصیت اور فن‘‘ کامیاب ترین نسخہ ہے۔ خال خال ہی ایسے مقالات ملیں گے جو واقعی تحقیق کا نتیجہ ہیں اور علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک تحقیقی مقالہ اس موضوع پر بھی لکھے جانے کی ضرورت ہے کہ پی ایچ ڈی کے جینوئن طلبہ و طالبات کے ساتھ کیا گزرتی ہے اور نگران اُن کے ساتھ کیسی کیسی مہربانیاں کرتے ہیں۔ جس نے خود اپنا مقالہ ٹھیکے پر لکھوایا ہو گا یا ''کمپنی‘‘ نے جسے مدد کر کے پار اتارا ہو گا وہ کسی دوسرے کی رہنمائی کیا کرے گا!
چلئے مان لیا‘ جو حضرات پی ایچ ڈی ہیں اور پروفیسری کرتے ہیں وہی تحقیق اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست ہیں! وہی کریم ہیں! اصل سوال یہ ہے کہ جو لوگ پروفیسر نہیں اور خاص طور پر پی ایچ ڈی نہیں‘ کیا وہ تنقیدی‘ تحقیقی اور ادبی موضوعات پر کنٹری بیوٹ نہیں کر سکتے؟ شمس الرحمان فاروقی یہاں ہوتے تو یہ کہہ کر انہیں نظر انداز کر دیا جاتا کہ وہ یونیورسٹی میں نہیں پڑھاتے! مظفر علی سید‘ مشفق خواجہ‘ رفیق خاور اور شیخ اکرام میں سے کوئی بھی پیشے کے حوالے سے استاد نہ تھا! شان الحق حقی جیسے مایہ ناز ماہر لسانیات کہاں کے پروفیسر تھے؟ ڈاکٹر آفتاب احمد سول سروس سے تھے۔ کلاسک مثال اس سلسلے میں اکرام چغتائی صاحب کی ہے۔صرف ایک یا ڈیڑھ سال کا عرصہ یونیورسٹی میں رہے‘ ( وہ بھی ریسرچ کے کام میں ڈاکٹر محمد صادق کے ساتھ !) مگر تحقیق کے حوالے سے درجۂ کمال تک پہنچے!! محمد اسد اور محمد حسین آزاد پر وہ اتھارٹی تھے۔ شاہانِ اودھ کے کتب خانوں پر کام کیا۔ واجد علی شاہ کے خطوط ترتیب دیے اور حواشی لکھے۔ افغانستان‘ جرمنی اور گوئٹے کے حوالے سے اقبال پر کام کیا۔ البیرونی‘ حلاج‘ سرسید احمد خاں‘ شاہ ولی اللہ‘ حسن نظامی اور سید علی ہجویری پر وقیع کام کیا۔ پروفیسر این میری شمل کی تصانیف کی ببلیوگرافی مرتب کی۔ جمال الدین افغانی پر انگریزی میں کام کیا۔ محمد اسد پر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں کام کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے محسن Dr. Leitner کی حیات و خدمات پر کام کیا۔ یہ تو ہم صرف تحقیق اور تنقید کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ شاعری اور فکشن کے ضمن میں بھی موازنہ کر کے دیکھ لیجیے۔ پروفیسروں میں سے کتنے ظفر اقبال‘ جوش ملیح آبادی‘ جون ایلیا‘ منیر نیازی‘ مجید امجد‘ ناصر کاظمی‘ احمد ندیم قاسمی‘ محبوب خزاں‘ ن م راشد‘ میرا جی‘ عبداللہ حسین‘ مستنصر حسین تارڑ‘ قرۃ العین حیدر‘ منٹو‘ کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدی نکلے؟
یونیورسٹیاں کسی بھی قوم کا دل ہوتی ہیں۔ ایک یونیورسٹی صرف کلاس رومز اور ٹیکسٹ بُک اپروچ کا نام نہیں! یونیورسٹیوں پر لازم ہے کہ تحقیق‘ تنقید اور تخلیق جہاں جہاں بھی نظر آئے اسے یونیورسٹی سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ نہیں معلوم ہماری یونیورسٹیاں ایسے کتنے ماہرینِ علوم و فنون کو طلبہ و طالبات سے ملوانے کے لیے بلاتی ہیں جو دوسرے پیشوں سے وابستہ ہیں۔ علم کسی ایک یا کسی خاص پیشے کی جاگیر نہیں۔ علم صرف کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھانے والوں کی زنبیلوں میں نہیں ہوتا‘ اس کے اور بھی ٹھکانے ہیں! ہر گوشہ گمان مبر کہ خالیست!! جب معروف ادبی اور علمی شخصیات کے حوالوں سے سیمینار منعقد کیے جائیں تو صرف اپنے ہی اساتذہ پر انحصار کا مطلب یہ ہو گا کہ طلبہ و طالبات کلاس روم سے باہر ہی نہ نکلیں! ایسے مواقع تو صلائے عام ہونے چاہئیں! جن افراد کی پوری پوری زندگیاں ادب پر کام کرتے گزری ہوں مگر وہ برائے روزگار یونیورسٹیوں سے وابستہ نہ رہے ہوں‘ ان سے بھی طلبہ وطالبات کو استفادہ کرنے کا موقع دینا چاہیے! اس سے یونیورسٹیوں والوں کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی!ان کی ایمپائر پر کس نے ہاتھ ڈالنا ہے۔ اس لیے ازراہِ کرم اس خول سے باہر نکلئے۔ کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!!