"SUC" (space) message & send to 7575

اُفق پہ گہری سیاہی بتا رہی ہے مجھے

بات 60 اور 70 کی دہائیوں کی ہے۔ دنیا اس وقت یک قطبی یعنی Unipolar نہیں ہوئی تھی اور سب سے بڑی دو طاقتوں کے بیچ چکرائی پھرتی تھی۔ امریکہ اور روس‘ دونوں ہی دنیا بھر کے ملکوں کو اپنے زیر اثر لانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کر رہے تھے۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقادوں میں سے ایک محمد حسن عسکری تھے جنہوں نے اردو تنقید پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اُس زمانے میں وہ کہا کرتے تھے کہ ایک بدمعاش آپ کے ہمسائے میں رہتا ہے اور دوسرا دور دراز علاقے میں۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اگر کسی طاقتور کے گروپ میں شامل ہونا ہی مجبوری ہے تو ہمسائے کے گروپ میں ہونا چاہیے۔ یہ دانشمندی نہیں ہے کہ ہمسائے کو ناراض کر کے دور کے طاقتور کے گروپ میں شامل ہوا جائے۔ عسکری صاحب کی بات اُس وقت بہت لوگوں نے نہیں مانی۔ ممکن ہے اسے ایک اشتراکی کوچہ گرد کی سوچ جیسے کھاتے میں ڈال کر نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد جب اس وقت کے وزیراعظم کو روس اور امریکہ دونوں کی طرف سے دورے کی دعوت ملی تو امریکہ کو ترجیح دی گئی۔ بعد ازاں پاکستان امریکی دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں بھی شامل ہوا لیکن روس کے ساتھ معاملات اس وقت بگڑے جب 1960ء میں بڈھ بیر‘ پشاور کے اڈے سے اڑنے والا امریکی جاسوس طیارہ روس میں گرایا گیا۔ یہ ایوب خان کے دورِ آمریت میں ہوا۔ یہ ڈکٹیٹر کی سنگین غلطی تھی۔ سرد جنگ میں ہمیں امریکی جھولی میں نہیں گرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ غلطی بعد کے ادوار میں بھی کئی بار دہرائی گئی حالانکہ بار بار یہ ثابت ہو چکا تھا کہ مفادات نکل جانے کے بعد امریکی کسی کے دوست نہیں بنتے۔ بعد کے ادوار میں کئی بار محمد حسن عسکری کی بات سچ ثابت ہوئی کہ دور کے بدمعاش سے تعلقات بنانے بہتر نہیں‘ ہمسائے چودھری کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بات اس لیے یاد آئی کہ دنیا ایک بار پھر دو قطبی طاقتوں کے بیچ گردش کرتی نظر آ رہی ہے۔ روس قدرے پس منظر میں جا چکا یا بہت سے معاملات میں چین کے حلیف کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ کے خلاف دونوں یکجا ہو چکے ہیں۔ چین اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا حریف ہے۔ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ امریکہ چین کی اُبھرتی طاقت سے خائف ہے لیکن چین اپنے محتاط طرزِ عمل کے باوجود خوفزدہ دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چین کسی جنگ میں کودنے سے بچتا رہا اور پوری توجہ معاشی طاقت بننے پر صرف کی‘ جبکہ امریکہ دنیا کے مختلف خطوں کی لڑائیوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ الجھا رہا اور خطیر رقم ان معرکہ آرائیوں پر خرچ ہوئی۔ اس مدت میں چین نے خاموشی سے بہت سی کامیابیاں حاصل کر لیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے چینی اقدام نے چین کو دس پندرہ سال میں بہت فائدہ پہنچایا‘ حالانکہ منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ چین کے ہمسایہ ممالک سمیت بہت سے ممالک کا اعتماد چین نے حاصل کر لیا اور جو ترقی پذیر یا پسماندہ ملک ہر معاملے میں امریکہ کے دست نگر تھے اور اسی کی طرف دیکھتے تھے‘ چین کے قریب ہونے لگے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس نئے دور میں امریکی کوشش ہے کہ روس کو حلیف بنا کر چین کو ٹارگٹ کیا جا سکے۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ دنیا کی ایک نئی ترتیب اور صف بندی ہونے کو ہے۔ سرد جنگ کی صف بندی اور موجودہ صورتحال میں بڑا فرق یہ ہے کہ اُس وقت بیشتر یورپی اور ایشیائی ممالک امریکہ کی جھولی میں تھے۔ نظریاتی طور پر کمیونزم سے خائف اور اس کے مخالف ملکوں کیلئے امریکہ قدرتی حلیف بن گیا تھا۔ اس وقت روس کی صف میں کم ممالک شامل تھے۔ لیکن آج کی صورتحال نظریاتی سے زیادہ عملی ہے۔ چین نے اپنا نظریاتی نظام دنیا کے ممالک پر لاگو نہیں کیا‘ اس لیے اس طرح کے خطرات سوشلزم اور کمیونزم کے مخالف ملکوں کو نہیں ہیں۔ اس وقت کیپٹل ازم اور سوشل ازم کی لڑائی نہیں‘ تجارتی لڑائی ہے۔ اس وقت امریکہ بہت سے ممالک کو خود سے دور کر چکا ہے۔ یورپ‘ کینیڈا اور جنوبی امریکی خطے سمیت بہت سے ممالک امریکہ کے زخم خوردہ ہیں۔ اس لیے امریکہ کے حامی ممالک اس بار کم ہوں گے۔
اسی کے ساتھ ساتھ نئی امریکی تجارتی پابندیاں جن میں نئے ٹیرف کا نفاذ شامل ہے‘ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کریں گی۔ پاکستان انہی ممالک میں شامل ہے۔ یہ تجارتی جنگ جس کا ابھی آغاز ہوا ہے‘ وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس صورت کے علاوہ جس میں امریکہ کو اپنا ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا نظر آئے‘ یہ پالیسی اور آگے بڑھے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقرر کردہ اہم عہدیدار بھی ویسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔ چین کو کمزور کرنے کیلئے ان کی پالیسی یہ ہو گی کہ پاکستان کے تعلقات چین سے کمزور ہوں اور سی پیک کے منصوبوں کو ختم یا معطل کیا جائے اور بھارت کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے۔ پاکستان چین مخالف ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ چین سے اس کے تعلقات ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں اور چین جیسی بڑی طاقت کو ناراض کرنا پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ 60 یا 70 کی دہائی نہیں ہے جب پاکستان امریکہ کو اپنا مخلص دوست سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے خلاف ہر جنگی اقدام میں اس کی طرف دیکھتا تھا۔ بے شمار تجربوں اور زخموں سے گزر کر پاکستان یہ جان چکا کہ امریکہ اپنے مفادات کی دوستی کرنے کا عادی ہے اور پاکستان کو بھی اسی بنیاد پر اس سے تعلقات رکھنے چاہئیں کہ پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا۔ اس صف بندی میں پاکستان کیلئے ایک نیا آزمائشی دور شروع ہو رہا ہے جس میں طے ہو گا کہ پاکستان کس صف میں اور کس کی طرف کھڑا ہے۔ اس نئے دور کی سنگینی اس لیے زیادہ ہے کہ پاکستان چین کا دیرینہ حلیف ہے اور سی پیک سمیت بیشمار تجارتی اور دفاعی منصوبوں میں اس کا ساتھی بھی۔ ان منصوبوں میں بہت سے وہ ہیں جنہیں ابھی تکمیل کیلئے کافی وقت درکار ہے۔ علاقے کی دفاعی صورتحال مثلاً چین بھارت کشمکش بھی پاکستان کو چین کا ساتھی بناتی ہے۔ اب اگر چین کے خلاف امریکی تجارتی جنگ میں‘ جو کسی بھی وقت عملی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے‘ ایک بار پھر دنیا اسی مرحلے پر پہنچتی ہے جو نائن الیون کے بعد کا تھا اور جس میں امریکہ دو ٹوک کہتا تھا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو پھر ہمارے مخالف ہیں۔ آپ کا غیر جانبدارانہ رویہ امریکی مخالفت ہی سمجھا جائے گا۔ اب پاکستان کے پاس کون سا راستہ بچتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جو اصولوں پر مبنی ہو اور جو اس کے مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔ نائن الیون کے زمانے کے برعکس اس وقت امریکہ اقوام عالم میں تنہا ہو رہا ہے اور پاکستان کو دنیا کے ان ممالک کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جو اپنے مفادات اور اصولوں کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ اپنے ہمسائے چین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جس نے ہر گرم و سرد میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
پاکستان میں سی پیک کا آغاز ہوتے ہی اسے دشمن قوتوں نے تشویش کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ کوئی دن نہیں جاتا جب سی پیک کے بارے میں طرح طرح کی منفی خبریں اور تجزیے سامنے نہ آتے ہوں۔ اسی طرح پاکستان میں مسلسل دہشت گردی بھی دراصل اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں سی پیک چین کے لیے بہت سے فوائد کا حامل ہے وہیں پاکستان کیلئے بھی خو دکو مضبوط بنا لینے کا ایک اہم موقع ہے۔ کوئی شک نہیں کہ جہاں بیشمار غلطیاں بھی ہوئی ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ متعدد مواقع پر پاکستان نے امریکی دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ یہ وقت ایک بار پھر آ رہا ہے۔ اُفق پر بادل اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ایک طوفان کے آثار ہیں اور اس طوفان کا سامنا کرنے کیلئے ابھی سے تیار ہو جانا چاہیے۔
اُفق پہ گہری سیاہی بتا رہی ہے مجھے؍ ہواؤں کی یہ خموشی بدلنے والی ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں