بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے سانحے کے بعد مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلائی گئی‘ اس کی جگہ منگل کے روز پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں ملک و قوم کو درپیش دہشت گردی کے مسئلے پر مختلف جہتوں سے تفصیلی روشنی ڈالی گئی‘ گہرا تبادلۂ خیالات کیا گیا اور بیش قدر آرا پیش کی گئیں‘ جن کے نتیجے میں یہ واضح ہوا کہ قومی‘ سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کم و بیش چھ گھنٹے جاری رہنے والے اس اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹرٹیجک اور ایک متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا جبکہ کمیٹی نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے‘ لاجسٹک سپورٹ کے انسداد اور دہشت گردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا۔ کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے‘ اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات پر زور دیا۔ کمیٹی نے دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر بھی زور دیا۔
قومی سلامتی کمیٹی نے جو بھی فیصلے کیے ہیں ان کے صائب‘ دو ٹوک اور بروقت ہونے کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ دہشت گردی کے زور پکڑتے ہوئے عفریت کو قابو کرنے کے لیے بلا شبہ ایسی ہی متحدہ اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے لیکن ضروری ہے کہ ٹھوس اور جامع کوششیں ہوتی ہوئی بھی نظر آئیں۔ یہ لکھنے یا کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ پہلا نیشنل ایکشن پلان دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے اور ڈیڑھ سو کے قریب قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد اسی طرح مشترکہ سوچ بچار کے بعد وضع کیا گیا تھا‘ اور یہ اتنا پرفیکٹ پلان تھا کہ سبھی اس وقت یہی سوچ رہے تھے کہ اس پر پوری طرح سے عمل درآمد یقینی بنا لیا گیا تو ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔ لیکن آج بھی اگر ہم بحیثیتِ قوم اسی دوراہے پر کھڑے یہ سوچ رہے ہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے تو اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ 2014ء کے نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا گیا؛ چنانچہ آگے بڑھنے سے پہلے رک کر یہ سوچنا پڑے گا کہ وہ کون سے عوامل‘ اور وہ کون سی رکاوٹیں تھیں جن کی وجہ سے قومی بقا کے لیے اس اہم ترین منصوبے پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہو سکا۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ ہم سب ایک بار پھر اس ایکشن پلان پر بھرپور عملدرآمد کا عزم کر رہے ہیں تو اس پر کامیابی سے اسی صورت میں عمل کر سکیں گے جب ان مسائل کو حل کر لیں گے جو پچھلے دس برسوں میں اس کی تکمیل کی راہ میں آڑے آتے رہے۔
اس پلان میں طے کیا گیا تھا کہ نفرت انگیز مواد‘ انتہا پسندی‘ فرقہ واریت اور تشدد کا پرچار کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے مالیاتی ذرائع بند کیے جائیں گے۔ کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس‘ ذہنی طور پر مضبوط افسروں اور سپاہیوں پر مشتمل اینٹی ٹیررازم فورس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے گا اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے گی۔ مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور ان کو ریگولیٹ کیا جائے گا۔ میڈیا میں دہشت گردوں کو گلوریفائی کرنے اور انہیں ہیرو بنا کر پیش کرنے کے رجحان کو روکا جائے گا۔ قبائلی اضلاع میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی۔ دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور منظم مہم چلائی جائے گی۔ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ترویج کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں چھوڑا جائے گا۔ کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ بلوچستان حکومت کو مکمل بااختیار بنایا جائے گا۔ فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔ افغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پالیسی تشکیل دی جائے گی۔
اب اس ایکشن پلان پر عملدرآمد کے ذمہ داران خود ہی دیکھ اور سوچ لیں کہ ان میں سے کتنے نکات پر عمل کیا گیا اور کن نکات پر عملدرآمد یقینی نہ بنایا جا سکا۔ ظاہر ہے انہی نکات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہو گی جن پر گزشتہ برسوں میں عملدرآمد نہ کرایا جا سکا۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ اگر دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں تو وہ شہروں اور اہم تنصیبات تک اس وقت تک پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک انہیں اندرونِ ملک سے سپورٹ حاصل نہ ہو؛ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دہشت گردوںکا پاکستان میں داخلہ تو روکا جانا چاہیے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا بھی اتنا ہی ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ یہ سہولت کار کون ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے سے سب سے پہلی توجہ ان افغان مہاجرین کی طرف جاتی ہے جن کو افغانستان میں جنگ چھڑ نے کے بعد پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنی سرزمین پر آنے اور عارضی قیام کرنے کی اجازت دی تھی۔ سوویت افغان جنگ تو 1988ء میں ختم ہو گئی لیکن افغان مہاجرین‘ جو اَب بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں‘ واپس اپنے وطن نہ جا سکے۔ عالمی برادری نے سوویت افغان جنگ شروع ہونے کے بعد ابتدائی برسوں میں تو افغان مہاجرین کے معاملات پر خصوصی دلچسپی دکھائی حتیٰ کہ افغان مہاجرین کے لیے فنڈز بھی مہیا کیے لیکن جب افغانستان میں جنگ کے ختم ہونے کے بعد جنگ کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم رہنے والے افغان دھڑے حصولِ اقتدار کے لیے آپس میں الجھ پڑے اور افغانستان میں پائیدار امن قائم نہ ہو سکا تو پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی واپسی کا معاملہ لٹک گیا۔ رفتہ رفتہ عالمی برادری کی توجہ افغان مہاجرین سے ہٹ گئی اور یہ کلی طور پر پاکستان کی ذمہ داری بن گئے۔ افغان مہاجرین نے یہاں کاروبار شروع کر دیے اور آپس میں شادیاں کر کے اپنے خاندان بھی بڑھا لیے۔ اب ان افغان مہاجرین کی تیسری نسل یہاں موجود ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے لیے واپس جانا مشکل ہے‘ لیکن ان کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں بے روزگاری میں اضافہ کا ایک سبب افغان مہاجرین بھی ہیں۔ پاکستان افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجنے کی پالیسی پر گامزن ہے‘ لیکن مختلف عوامل کی وجہ سے اس پالیسی پر پوری طرح عمل نہیں کر پا رہا ہے۔ (جاری)