جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کے بعد رونما ہونے والا دلخراش واقعہ جس میں مولانا حامد الحق سمیت کئی بے گناہ افراد شہید ہوئے ایک ناقابل ِفراموش صدمہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جمعہ کی ادائیگی کے بعد 80 فیصد نمازی مسجد سے جا چکے تھے‘ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حملہ آور کا اصل ہدف مولانا حامد الحق تھے۔ جمعہ کی نماز کے بعد جب مولانا حامد الحق اپنے معمول کے مطابق چند ساتھیوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے تب ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ مسجد کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ گئے اور ہر طرف دھواں اور گرد و غبار پھیل گیا۔ نمازیوں میں بھگدڑ مچ گئی اور ہر طرف چیخ و پکار کی آوازیں گونجنے لگیں۔ دھماکے کے نتیجے میں مولانا حامد الحق شدید زخمی ہوئے انہیں ہسپتال لے جایا گیا مگر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ موقع پر ہی شہید ہو چکے تھے۔ اس اندوہناک واقعے نے پورے علاقے کو سوگ میں ڈبو دیا۔ مولانا حامد الحق ایک عالم دین اور سیاسی و سماجی رہنما تھے جو اپنے مرحوم والد مولانا سمیع الحق کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر دہشت گردی کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔جامعہ حقانیہ کی مسجد میں خودکش حملے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دہشت گرد کسی مذہب یا عقیدے کے پیروکار نہیں ہوتے بلکہ صرف انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں اور ان کا مقصد صرف خوف اور تباہی پھیلانا ہے۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے تشدد کا استعمال کرتے ہیں‘ جس میں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور وہ خوف اور عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ جس سے معاشرے میں تقسیم اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔
جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک خیبرپختونخوا کی عظیم دینی درسگاہ ہے‘ جو اپنے فارغ التحصیل طلباکی وجہ سے عالمی سطح پر جانی جاتی ہے۔ حقانیہ سے افغان طالبان کے کئی اہم رہنماؤں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ جامعہ حقانیہ کاافغانستان میں بااثر عہدے سنبھالنے والے افراد کی تعلیم میں اہم کردار ادا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے متعدد اہم رہنما اسی درسگاہ کے پڑھے ہوئے ہیں‘ جن میں سراج الدین حقانی بھی شامل ہیں جو حقانی نیٹ ورک کے موجودہ رہنما اور طالبان کے نائب سربراہ ہیں۔ یہ گروپ جامعہ حقانیہ کی نسبت سے ہی حقانی کہلاتا ہے ۔چونکہ اس گروپ کی قیادت پاکستان سے پڑھی ہوئی ہے اس لیے یہ گروپ افغان طالبان کے دیگر دھڑوں کی نسبت پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ عبدالحکیم حقانی طالبان کی عبوری حکومت میں چیف جسٹس اور وزیر قانون کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے بھی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا شمار طالبان کے سخت نظریات رکھنے والے رہنماؤں میں ہوتا ہے اور انہیں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونز ادہ کا قریبی ساتھی مانا جاتا ہے۔ عبدالحکیم حقانی نے امریکہ کے ساتھ طالبان کے مذاکراتی عمل میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اُن کا شمار طالبان تحریک کے بانی ارکان میں ہوتاہے اور طالبان کے مرحوم رہنما مُلا عمر کے قریبی ساتھیوں میں بھی ان کا شمار ہوتا تھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں افغانستان کے چیف جسٹس اور وزیر قانون کے عہدے پر مقرر کیا گیا۔ عبدالحکیم حقانی امارتِ اسلامیہ کے دورِ حکومت میں تدریس کے علاوہ عدالت مرافعہ اور مرکزی دارالافتامیں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ خیر اللہ خیرخواہ طالبان کی موجودہ حکومت میں وزیر اطلاعات و ثقافت کے اہم عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی تعلیمی وابستگی بھی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ہے۔ طالبان کے سابقہ دورِ حکومت میں انہوں نے وزیر داخلہ اور کابل کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ ان کا شمار بھی طالبان کے ان اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکراتی عمل میں طالبان کی نمائندگی کی تھی۔ خیر اللہ خیرخواہ نہ صرف طالبان حکومت میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں بلکہ جامعہ حقانیہ کے فارغ التحصیل طلبامیں بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر افغان طالبان مولانا سمیع الحق مرحوم کو اپنا روحانی باپ کہتے ہیں۔
جامعہ حقانیہ محض ایک مدرسہ نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ کار خاصا وسیع ہے۔ درس و تدریس اور افغان جہاد کے علاوہ حقانیہ کا سیاسی کردار کئی حوالوں سے اہم رہا ہے۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا اپنے علاقے میں خاصا مضبوط ووٹ بینک بھی موجود ہے۔ اس بنیاد پر حقانیہ نے پاکستان کی سیاست میں ایک مضبوط آواز بلند کی ہے جس کا اثر و رسوخ مذہبی اور سیاسی حلقوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔ جامعہ حقانیہ کا سب سے نمایاں سیاسی کردار جمعیت علمائے اسلام (س) کے ذریعے سامنے آیا‘ جس کی قیادت مولانا سمیع الحق نے کی۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ طالبان کا کوئی دھڑا حقانیہ پر حملہ نہیں کر سکتا۔ نہ ہی ابھی تک کسی گروہ نے حقانیہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے پھر کون سے عناصر ہیں جنہوں نے حملہ کیا اور ان کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق پاکستان میں حملوں کے خلاف تھے۔ انہوں نے پاکستان میں امن و امان کی بحالی کیلئے کوششیں کیں‘ دہشت گردی کی مذمت کی اور اسے اسلام کے خلاف قرار دیا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس مؤقف کی وجہ سے نومبر 2018ء میں مولانا سمیع الحق کو ان قوتوں نے نشانہ بنایا جو کسی صورت پاکستان میں امن نہیں چاہتیں ۔ چونکہ مولانا حامد الحق بھی اسی مؤقف کے حامی تھے تو انہیں بھی نشانہ بنایا گیا۔
دہشت گردی کے حملوں کی تفتیش میں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ حملے سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے‘ اس بات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ تفتیش کار اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ حملے کے نتیجے میں کس کے مفادات حاصل ہو رہے ہیں‘ کس کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے‘ یا کس کے حریف کمزور ہو رہے ہیں۔ یہ تجزیہ اس بنیاد پر مبنی ہے کہ اکثر اوقات وہی شخص یا گروہ حملے کا ذمہ دار ہوتا ہے جسے اس سے براہِ راست یا بالواسطہ فائدہ پہنچتا ہے۔ اس طریقہ کار سے تفتیشی ٹیمیں مشکوک افراد کے دائرے کو محدود کرنے‘ حملے کے محرکات کو سمجھنے اور ممکنہ طور پر مجرم کو جوڑنے والے ثبوت اکٹھے کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ غالب گمان ہے کہ حقانیہ پر حملے میں بیرونی عوامل کار فرما ہیں۔ بیرونی عناصر پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے حملوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کے پاس شواہد موجود ہیں کہ بعض بیرونی عناصر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں‘ پاکستان کو کمزور کرنا کچھ بیرونی طاقتوں کی دیرینہ خواہش ہے۔ پاکستان کے مذہبی اداروں کو نشانہ بنانا پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں بدقسمتی سے دہشت گرد تنظیمیں مختلف وجوہات کی بنا پر مذہب کی آڑ لیتی رہی ہیں کیونکہ مذہب لوگوں کے جذبات سے گہرا تعلق رکھتا ہے‘ دہشت گرد تنظیمیں مذہبی جذبات کو بھڑکا کر لوگوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ دہشت گرد اپنے پیروکاروں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ خدا کیلئے لڑ رہے ہیں‘ جس سے وہ اپنے مذموم عزائم کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ یہ عناصر دینی نصوص کی غلط تشریح کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو باور کراتے ہیں کہ ان کے اعمال مذہبی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ رمضان المبارک سے قبل دہشت گردی کی لہر میں اضافہ تشویشناک ہے ۔ اس ماہِ مبارک کے دوران بڑی تعداد میں لوگ مساجد کا رُخ کرتے ہیں‘ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اور دہشت گردی کی تمام نئی شکلوں کا قلع قمع کرنا سکیورٹی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم روایتی مذمت سے بالا تر ہو کر دہشت گردی کے خلاف اقدامات اٹھائیں۔