علامہ اقبالؒ جب سپین کے دورہ سے واپس آئے تو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے کہا تھا ''اے مسلمانو! ہندوستان سے اگر ہمارے دینی مدارس و مکاتب کا سلسلہ ختم ہو جائے گا تو سن لو کہ یہاں کی بھی وہی حالت ہو جائے گی جو میں سپین میں دیکھ کر آیا ہوں‘ کہ دینی مدارس نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات کے سوا اسلام اور اسلامی تہذیب کے آثارنہیں ملتے‘ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔ لہٰذا یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام کی عظمتِ رفتہ کی بازیافت میں ہمارے ان مدارس و مکاتب کا کس قدر بنیادی اور اہم کردار ہے ۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے‘ ہدایت کے سر چشمے‘ دین کی پناہ گاہیں اور اشاعتِ دین کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔
مدارس کی اصلاحات اور ان کے ایجوکیشن سسٹم میں میرا اور میرے والد محترم جنرل (ر) حمید گل کا اہم کردار رہا ہے۔ اس ضمن میں راقم الحروف نے علمائے کرام کی ملاقاتوں کا اہتمام بھی کیا اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے ساتھ آٹھ گھنٹے کی طویل ملاقات بھی کی‘ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ہماری بہت سی سفارشات پر عملدرآمد بھی ہوا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ مدارس کو ہی کیوں ہمیشہ شک کے دائرے میں لایا جاتا ہے‘ عام سکولوں یا دیگر تعلیمی اداروں کی بات کیوں نہیں ہوتی؟ مدارس نے تو ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ ہی لگایا ہے۔ دوسرے اعلیٰ تعلیمی ادارے بالخصوص لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں کھلے عام پاکستان کیخلاف بات ہوتی ہے۔ آخر یہ تضاد کیوں ہے؟ مدرسے کے طلبہ احتجاج کریں تو امن و امان میں خلل‘ دیگر تعلیمی اداروں کے طالبعلم باہر نکلیں تو اسے ان کا حق گردانا جاتا ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ مغرب کی خوشنودی کیلئے مدارس کو ہدف بنایا جا رہا ہے؟
مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کا فرض ہے لیکن جب مدرسوں کی بات آتی ہے تو انکے مسائل سے پہلو تہی کیوں کی جاتی ہے؟ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ فروغِ تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ سچ پوچھئے تو دینی مدارس اور علما ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ و معاون ہیں۔ مدارس کیلئے ایک بڑا چیلنج اسلامی تعلیم کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں اور تصورات ہیں کہ یہ نظام فرسودہ اور عصرِ حاضر کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔ راقم الحروف نے مذکورہ کالم میں پاکستان میں مدارس کے نظام تعلیم اور انہیں درپیش چیلنجز کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں موجود 43 ہزار سے زائد مدارس میں سے 78 فیصد نجی طور پر چلائے جاتے ہیں‘ 22 فیصد پبلک سیکٹر کے تحت آتے ہیں۔ ان اداروں میں پانچ سے 25 سال کے تقریباً 46 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مدارس کے زیادہ تر طلبہ کا تعلق دیہی علاقوں اور 60 فیصد سے زائد کا ایسے خاندانوں سے ہے جن کی ماہانہ آمدنی 30 ہزار روپے سے کم ہے۔ یہاں لاکھوں طلبہ و طالبا ت کو بلا معاوضہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ نصاب میں تبدیلی‘ امتحانات اور سرٹیفکیشن ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجیئس ایجوکیشن (DGRE) کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ مدارس کی رجسٹریشن میں مدد کرنے کیلئے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجیئس ایجوکیشن وزارتِ فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ (MoFE&PT) کے تحت کام کرتا ہے۔ 15 میں سے 10 بورڈز ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجیئس ایجوکیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی پانچ اتحادِ تنظیم مدارس پاکستان کے تحت اپنے الحاق شدہ مدارس کو سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت رجسٹر کرتے ہیں۔ یہ مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ رابطۃ المدارس الاسلامیہ لاہور جماعت اسلامی نے 1983ء میں قائم کیا تھا اور یہ تمام مکاتب فکر کے مدارس کو قبول کرتا ہے۔ تنظیم المدارس 1960ء میں لاہور میں قائم ہوا اور یہ سنی مسلک ہے‘ وفاق المدارس کا قیام 1959ء ملتان میں ہوا یہ دیوبندی مکتبِ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ وفاق المدارس شیعہ کا قیام 1959ء میں لاہور میں ہوا۔ وفاق المدارس سلفیہ فیصل آباد 1995ء میں اہلِ حدیث کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ یہ تمام پانچ بورڈز اتحاد تنظیماتِ مدارس کے ممبران ہیں۔ دینی مدارس کی گورننگ باڈی 2003ء میں قائم کی گئی تھی۔ پاکستان میں تقریباً 30 فیصد مدارس وفاق المدارس کے زیر اہتمام کام کر رہے ہیں۔ 21.4 فیصد تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان کے تحت جبکہ 7.4 فیصد رابطۃ المدارس کے تحت آتے ہیں‘ تاہم 28 فیصد کسی بھی وفاق یا بورڈ سے وابستہ نہیں ہیں۔
ملک میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ وفاق کا ایک جائزہ ذیل میں دیا گیا ہے: رجسٹرڈ وفاق میں اتحاد المدارس العربیہ (دیوبند)‘ اتحاد المدارس الاسلامیہ (اہلحدیث)‘ نظام المدارس (بریلوی)‘ وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ (بریلوی)‘ مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمت (اہل تشیع)‘ وفاق المدارس والجماعۃ الدینیا‘ مجمع العلوم الاسلامیہ‘ وحدت المدارس الاسلامیہ‘ بورڈ آف اسلامک ایجوکیشن‘ کنز المدارس۔ غیر رجسٹرڈ وفاق میں رابطۃ المدارس اسلامیہ (جمعیت علمائے اسلام)‘ رابطۃ المدارس اسلامیہ (اہلحدیث)‘ تنظیم المدارس اہلِ سنت (بریلوی)‘ وفاق المدارس الشیعہ (اہل تشیع)‘ وفاق المدارس العربیہ (دیوبندی) شامل ہیں۔ عصری تعلیمی نظام کی طرح مدارس کو مندرجہ ذیل تعلیمی سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ابتدائی تعلیم: قرآن پاک کی تلاوت اور حفظ۔ متوسطہ:فقہ‘ حدیث اور عربی گرامر۔ درجہ پرائمری‘ ثانویہ عامہ (میٹرک) اسلامی فقہ‘ دینیات اور حدیث میں اعلیٰ تعلیم۔ ثانویہ خاصہ: حدیث‘ تفسیر‘ عربی گرامر اور علوم کے اعلیٰ علوم: انٹر میڈیٹ۔ شھادۃ العالیہ‘ اسلامی قوانین‘ فقہ‘ فلسفہ اور عربی کا مزید مطالعہ: بیچلر ڈگری۔ شھادۃ العالمیہ: فقہ‘ دینیات اور فلسفہ اسلام میں تحقیق: ماسٹرز (علما)۔ سرکاری دستاویز کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 17 ہزار 738 ہے جس میں رجسٹرڈ طلبہ کی تعداد 22 لاکھ 49 ہزار 520 ہے۔ پنجاب میں 10 ہزار 12 رجسٹرڈ مدارس اور طلبہ کی تعداد 6 لاکھ 64 ہزار ہے۔ سندھ میں رجسٹرڈ مدارس 2416 ہیں اور طلبہ کی تعداد ایک لاکھ 88 ہزار 182 ہے۔ بلوچستان میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 575 اور طلبہ کی تعداد 71 ہزار815 ہے۔ کے پی میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 4005 اور طلبہ کی کل تعداد 12 لاکھ 83 ہزار 24ہے۔ آزاد کشمیر میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 445 اور طلبہ کی تعداد 26 ہزار787 ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 199 اور طلبہ کی تعداد 11 ہزار 301 ہے۔ گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 86 اور طلبہ کی تعداد 4346ہے۔ افسوس! تعلیمی نظام میں اپنے اہم کردار کے باوجود 86فیصد مدارس کے فارغ التحصیل طالب علموں کو مدارس‘ مساجد اور کم اجرت والے پیشوں میں ہی ملازمت کے اہل سمجھا جاتا ہے۔
حکومت نے مدارس کی اصلاحات کے پیش نظر متعدد کوششیں کی ہیں جن میں پاکستان مدرسہ تعلیمی بورڈ آرڈیننس 2001ء۔ نیشنل ایکشن پلان 2014ء۔ قومی داخلی سلامتی پالیسی 2018ء۔ مدرسہ اصلاحات معاہدہ 2019ء اہم ہیں۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک تقریباً ہر حکومت نے پاکستان میں مدارس اصلاحات لانے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام کاوشوں کا بنیادی عنصر مدارس کی تعلیم کو ملک کے رسمی تعلیمی نظام سے جوڑنا تھا تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل افراد کو قومی دھارے میں لایا جا سکے۔ تاہم‘ ابھی تک کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ مدارس کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد سنجیدہ اقدامات کرے۔ یاد رہے! عالمی سامراج جن خطرناک منصوبوں کے ساتھ مدارس کو ختم کرنے اور کمزور کرنے پر لگا ہوا ہے ان کا توڑ ہم سب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔