پچھلے دنوں قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی امریکہ یاترا کا خوب چرچا رہا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت پر نوازشات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جوہری توانائی کی فراہمی سمیت اربوں ڈالرز کے فوجی معاہدے کیے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی‘ جو خود کو ہندوستان کا 'وشوا گرو‘ کہلواتے ہیں‘ نے خطے کا چودھری بننے کے زعم میں ٹرمپ کے ساتھ مہنگے دفاعی معاہدوں کے ساتھ ساتھ F35کا پھندا بھی اپنے گلے میں ڈال لیا۔ ادھر متعصب انڈین میڈیا نے طیاروں کی فراہمی کی بات چیت پر ہی خوب شورو غوغا مچایا‘ پاکستان کو دھمکیاں دی گئیں کہ F35 جیٹ کے ملنے سے گویا چین اور پاکستان پر بھارت کو برتری حاصل ہو گئی ہے۔ دوسری جانب بھارتی اپوزیشن سمیت متعدد تجزیہ کار اور اخبارات اس مہنگی ڈیل پر چیخ اُٹھے کہ یہ بھارت کیلئے ایک غیر منافع بخش سودا ہے۔ انڈین اخبار ''دی ہندو‘‘ کے مطابق امریکہ نے دفاعی معاہدوں کیلئے نریندر مودی پر دباؤ ڈال کر F35فائٹر جیٹ کی پیشکش کی۔ بھارتی فضائیہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ پر بوجھ اور بھارتی دفاعی ضروریات کے مطابق نہیں۔ دراصل امریکی F35سٹیلتھ لڑاکا جیٹ بھارت کو دیے نہیں تھوپے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ یہ طیارہ مودی کو 80ملین ڈالر سے زائد پر بیچ کر اس سفید ہاتھی سے چھٹکارہ چاہتا ہے جبکہ DOGE کے کرتا دھرتا ایلون مسک نے ماضی میں F35بنانے والوں کو 'ایڈیٹ‘ کہا تھا۔ اگر بنانے والے 'ایڈیٹ‘ ہیں تو پھر اس کو خریدنے والے کو کیا کہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ یہ بلین آف ڈالرز کی بربادی ہے‘ اس سے فوج کو بچانا ہو گا۔ امریکی ڈیفنس ڈپارٹمنٹ بھی مذکورہ جنگی طیارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔21نومبر 2024ء کی پینٹاگون رپورٹ کے مطابق لاک ہیڈ مارٹن کے F35سٹیلتھ لڑاکا طیارے جنگی تجربات میں نا قابلِ اعتماد اور خرابیوں کا مجموعہ ہیں۔ قبل ازیں ترکی کو بھی ان طیاروں کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اس نے روس سے S400 دفاعی نظام خرید لیا۔ امریکہ کی جانب سے ایسے طیارے نیٹو اتحادیوں یا دوست ممالک کو دیے جاتے ہیں۔ ابھی تک ساؤتھ کوریا اور اسرائیل نان نیٹو ممالک ہیں جن کو امریکی ساختہ جیٹ فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کو خریدنے سے بھارت پر امریکی اثر و رسوخ بڑھ جائے گا کیونکہ اس کے فاضل پرزہ جات کیلئے اسے امریکہ پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ بھارت کو F35طیارے حاصل کرنے کیلئے کئی معاہدوں پر دستخط کرنا ہوں گے اور معاہدے کے تحت امریکہ کے پاس مکمل معلومات ہوں گی کہ وہ جہاز کب اور کہاں اُڑ رہا ہے۔ حالانکہ بھارتی ائیر فورس کے روسی ساختہ تربیتی نظام‘ کمیونیکشن‘ ریڈار سسٹم کے ساتھ امریکی نظام کا ضم ہونا ناممکن ہے۔ IAF میں F35کی شمولیت کا مطلب تقریباً 80فیصد سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کو تبدیل کرنا ہو گا۔ F35جوائنٹ سٹرائیک فائٹر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ففتھ جنریشن کا سٹیلتھ لڑاکا جیٹ ہے۔ زیادہ فاصلے سے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت اسے میدانِ جنگ میں جدید طیاروں میں سرفہرست بناتی ہے۔ یہ طیارہ 25ایم ایم کی توپ‘ فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور 907کلو گرام گائیڈڈ بم لے جا سکتا ہے۔ اس لڑاکا جیٹ میں ایکٹو الیکٹرانک سکینڈ ایرے ریڈار‘ الیکٹرو آپٹیکل ٹارگٹنگ سسٹم اور ہیلمٹ ماؤنٹڈ ڈسپلے سسٹم جیسی خصوصیات ہیں۔ اس کی سٹیلتھ ٹیکنالوجی یعنی خصوصی ریڈار کوٹنگ کی وجہ سے دشمن کے ریڈار اس کا پتہ نہیں چلا سکتے۔ اس لڑاکا طیارے کے تین ماڈلز ہیں جن میں F35A‘ F35B اور F35C طیارے شامل ہیں۔ یہ طیارے اس وقت دنیا میں سب سے مہنگے لڑاکا طیارے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے آپریٹ کرنے کے ایک گھنٹے کا خرچ بھارتی 31لاکھ روپے بنتا ہے۔ F35 کے سپیشل سٹیلتھ میٹریل اور سینسرز انتہائی پیچیدہ ہیں اور ان کے لیے مخصوص دیکھ بھال اور مرمت درکار ہوتی ہے جو لاگت میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ دوسری جانب اس کے تکنیکی مسائل بھی زیادہ ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق اس کی مشن کامیابی کی شرح کم رہی ہے۔ اسے جدید ترین دفاعی سسٹمز خاص طور پر روس اور چین کے جدید فضائی دفاعی نظاموں کے خلاف کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ہر گھنٹے غلط الرٹ بھیجتا ہے جبکہ ائیر فورس کے مطابق معیار ایک غلطی فی 50گھنٹے مقرر ہے۔ یہ ٹارگٹ کو ہٹ نہیں کر پاتا۔ بعض اوقات ٹیک آف کے فوراً بعد ہی فیل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ F35کے برعکس کم لاگت والے طیارے جیسے ایف15 ایکس‘ ایف16 ویپر‘ ایف22 ریپٹر زیادہ مؤثر ہو سکتے ہیں۔ سٹیلتھ ٹیکنالوجی مکمل طور پر ریڈار پر نظرنہ آنے کی ٹیکنالوجی نہیں۔ عام جہاز اگر 150 کلومیٹر کی دوری پر نظر آجاتا ہے تو F35طیارہ 100 یا 70کلومیٹر کے فاصلے پر نظر آتا ہے لہٰذا ایسے میں پاکستان اور چین کو ان طیاروں کی وجہ سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ یہ طیارہ Ellison ائیر بیس پر گیارہ مرتبہ کریش ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس روسی سخوئی کا ابھی تک صرف ایک حادثہ ہوا ہے۔ اسے بھارت کے فلیٹ میں مکمل طور پر شامل ہونے میں سات سے آٹھ برس درکار ہوں گے۔ چین نے تو 6thجنریشن کے دو نئے لڑاکا پروٹو ٹائپ کا تجربہ بھی کر لیا ہے اور بہت جلد چین کے J20ففتھ جنریشن ملٹی رول لڑاکا طیارے پاک فضائیہ کا حصہ ہوں گے۔ اس سے نہ صرف ہمارا دفاع مضبوط ہو گا بلکہ ہماری بھارت پر فضائی برتری بھی مزید مستحکم ہو گی۔
واضح رہے کہ بھارت کے پاس کوئی ففتھ جنریشن طیارہ نہیں اور یہ امریکہ کو معلوم ہے اور بچے کچھےMig 21 ( Coffin Flying ‘Widow makers ) اس برس ریٹائر ہو جائیں گے۔ فرانس کے رافیل بھی انڈین ایئر فورس کی استعدادِ کار میں اضافہ نہیں کر سکے۔ بھارت نے میڈ اِن انڈیا ففتھ جنریشن لڑاکا طیاروں کیلئے 15ہزار کروڑ کی خطیر رقم بھی مختص کر رکھی ہے۔ اس منصوبے کو دس سال لگیں گے یعنی بیس سال لگا لیں۔ تیجس کی پہلی پروٹو فلائٹ 2001ء میں ہوئی اور جس کو 2015ء میں متعارف کروایا گیا۔ 2024ء میں اس کی ترسیل بھارتی فضائیہ کو ہونا تھی جو ممکن نہ ہو سکی۔ بھارتی فضائیہ کی پتلی حالت پر فرسٹریشن کا شکار ائیر چیف نے بھی عوام کے سامنے اس کا پول کھول دیا ہے۔ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک بھی طیارہ مقررہ وقت پر تیار نہیں ہو سکا جبکہ HAL کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنی General Electricنے انجن سپلائی نہیں کیے۔ بھارت کو 45 فائٹر جیٹ سکواڈرن کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس 31 سکواڈرن ہیں یعنی 550 فائٹر جیٹ۔ یہ ڈیٹا بھارتی فضائیہ کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے۔ ٹرمپ مذکورہ معاہدے کے ذریعے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ روس سے سستا تیل اور اسلحہ خریدنا بند کر دے۔ دیکھیے اب بھارت کون سا آپشن منتخب کرتا ہے‘ زیادہ پیسے دے کر اپنی سٹریٹجک آزادی کھوتا ہے یا اپنے پارٹنر روس کی جانب SU57کیلئے جاتا ہے۔ بھارتی تناظر میں یہ ڈیل مستقبل میں اس کیلئے معاشی نقصان کے ساتھ سفارتی بربادی کا باعث بھی ہو گی۔ یقینا مودی پر ٹرمپ کی یاری بہت بھاری پڑنے والی ہے۔ یہ ہم سے بہتر کون جانتا ہے‘ جو امریکی دوستی کا خمیازہ کئی دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔ جلد بھارت بھی جان لے گا! بقول سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر ''امریکہ کی دشمنی خطرناک ہو سکتی ہے لیکن امریکہ کی دوستی تو ہلاکت خیز ہے‘‘۔