صنفِ نازک کے خلاف جرائم کا سیلاب

افسوس‘ ہر برس کی طرح کل 8مارچ خواتین کا عالمی دن بھی تحفظِ حقوقِ نسواں کے نام پر بڑی بڑی تقریبات‘ ریلیاں‘ کانفرنسز منعقد کرکے گزر گیا مگر حوا کی بیٹی پر ظلم و ستم میں کمی نہ آ سکی۔ المیہ یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کی اکثریت صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ صنفی تشدد ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں وہاں کے معاشرے اور کلچر کے لحاظ سے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں خواتین کی جبری شادی‘ ریپ‘ آنر کلنگ‘ گھریلو تشدد‘ اغوا اور جرم کی ایک گھناؤنی شکل Female genital mutilationہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر تین میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں صنف نازک کل آبادی کا 52فیصد ہے اور بدقسمتی سے یہاں خواتین کا اغوا‘ جنسی تشدد‘ خریدوفروخت‘ سمگلنگ‘ غیرت کے نام پر قتل‘ زندہ جلائے جانے‘ تیزاب پھینکنے‘ گھریلو تشدد سے ہلاکت اور کام کی جگہ پر امتیازی سلوک جیسے جرائم اس معاشرے کا مکروہ چہرہ بن گئے ہیں۔ پاکستان ڈیمو گرافک اور ہیلتھ سروے 2017ء اور 2018ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 15سے 49برس کی 28فیصد خواتین جسمانی تشدد اور چھ فیصد جنسی تشدد سہتی ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022ء کے مطابق جنسی تشدد میں 146ملکوں میں پاکستان کا 145واں نمبر ہے۔ ہم صرف افغانستان سے ایک درجہ اوپر ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں صنفی عدم مساوات عام ہے‘ جس کو بدنامی کا ڈر‘ پدرانہ معاشرہ‘ انصاف میں تاخیر اور قانون کا عدم نفاذ مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ یہ تلخ سچائی ہے کہ پاکستان میں مقدمات کے اندراج سے لے کر سزا تک کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے لہٰذا راقم الحروف نے اپنے کالم کے ذریعے خاص طور پر پاکستان میں صنفی بنیادوں پر جرائم کے حوالے سے تجزیاتی جائزہ پیش کیا ہے تاکہ مقدمات کے اندارج‘ تفتیش کا دائرہ کار اور عدالتی نظام میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی ہو سکے۔ 2024ء میں پاکستان میں ہر روز اوسطاً 67اغوا‘ 19عصمت دری‘ گھریلو تشدد کے چھ اور غیرت کے نام پر قتل کے دو واقعات سامنے آئے۔ پنجاب میں عصمت دری کے 4641کیسز میں سے صرف 20کو سزا سنائی گئی۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں عصمت دری کی سزاؤں کا تناسب صفر ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ برس پاکستان میں خواتین سے زیادتی کے 53ہزار 339کیسز رجسٹر ڈ ہوئے جن میں سزا کا تناسب 0.5فیصد رہا۔ غیرت کے نام پر قتل کے 547 کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں سزا کا تناسب 0.5فیصد رہا‘ اغوا کے 24ہزار 493کیس رپورٹ ہوئے جن میں سزا کاتناسب 0.1 رہا۔ گھریلو تشدد کے 2238کیس درج ہوئے جن میں سزا کا تناسب 1.3فیصد رہا۔ پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کے 225‘ ریپ کے 4641‘ اغوا و زیادتی کے 20ہزار 720اور گھریلو تشدد کے 1167واقعات ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں آنر کلنگ کے 134‘ ریپ کے258‘ اغواکے 943اور گھریلو تشدد کے 446واقعات ہوئے۔ سندھ میں غیرت کے نام پر قتل کے 134‘ ریپ کے 243‘ اغوا کے2645‘ گھریلو تشدد کے 375واقعات ہوئے۔ بلوچستان میں آنر کلنگ کے 32‘ ریپ کے21‘ اغوا کے 185اور گھریلو تشدد کے 160واقعات ہوئے۔ اسلام آباد میں غیرت کے نام پر 22قتل ہوئے‘ ریپ کے 176واقعات ہوئے جبکہ اغوا اور گھریلو تشدد کے 90کیسز درج ہوئے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی فیکٹ شیٹ کے مطابق کوویڈ 19میں 2020ء کے لاک ڈاؤن کے دوران 90فیصد پاکستانی خواتین گھریلو ستم کا شکار ہوئیں۔
پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات دوسرے صوبوں سے زیادہ ہیں۔ یہاں ایسے225کیسز ہوئے جن میں 200چالان پیش کیے گئے۔ 90کیسز زیر سماعت ہیں‘ 19زیر تفتیش‘ 25کیسوں میں ملزمان بری ہو گئے اور صرف دو کیسوں میں سزا ہوئی۔ کے پی‘ سندھ اور اسلام آباد میں تناسب صفر رہا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 129واقعات ہوئے جن میں سے 28زیر سماعت ہیں۔ سندھ میں 134رجسٹرڈ‘ 96زیر تفتیش اور 210کیسز زیر سماعت ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل پر پنجاب میں سزا کا تناسب 0.43 فیصد‘ بلوچستان‘ سندھ میں کسی کیس میں سزا نہیں ہوئی‘ کے پی میں 0.39فیصد‘ اسلام آباد میں 3.98فیصد ہے۔ پنجاب میں 677‘ اسلام آباد میں 338‘ کے پی میں چارکیسوں کے ملزم بری ہو گئے۔ پنجاب میں 42مقدمات واپس لے لیے گئے۔ پنجاب میں اغوا کی شرح بھی دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔ یہاں 20ہزار 720 کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 5865 کے چالان پیش ہوئے۔ 2696 زیر تفتیش‘ 2398 انڈر ٹرائل اور 416 کیسوں میں ملزم بری ہو چکے ہیں۔ 786 کیس واپس لے لیے گئے ہیں۔ بہت سے کیسوں کو یونہی غیر حل شدہ چھوڑ دیا گیا۔ کے پی میں 943کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 920کا چالان پیش ہوا اور صرف ایک کیس میں سزا ہوئی۔ آٹھ کیسوں میں بریت مل گئی۔ 10کیس واپس لے لیے گئے۔ سندھ میں 2655 کیسز رجسٹرڈ ہوئے‘ 256کے چالان پیش ہوئے‘ 1948زیر تفتیش ہیں اور 218زیر سماعت ہیں۔ سزا اور بریت کا تناسب صفر ہے۔ بلوچستان میں 185 کیسز درج ہوئے 143کے چالان پیش ہوئے‘ 136زیر سماعت اور سزا کا تناسب صفر ہے۔ 17کیسز میں رہائی مل گئی‘ ایک واپس لے لیا گیا۔ پنجاب میں 20ہزار 720کیسز ہوئے اور 16 میں سزا ہوئی۔ سزا کا تناسب 0.07 فیصد رہا۔ کے پی میں کوئی سزا نہ دی گی۔
مذکورہ اعداد و شمار عدالتی عمل‘ قانونی طریقہ کار اور اس میں موجود پیچیدگیوں کو واضح کرتے ہیں جبکہ ان جرائم میں سزا کا تناسب تشویشناک حد تک کم ہے۔ اس جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں صنفی بنیاد پر تشدد کے سدباب اور خواتین کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے پہلے خواتین پولیس افسران کو ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کیا جائے (جن کی پولیس فورس میں دو فیصد سے بھی کم تعداد ہے) فوری FIR درج کو یقینی بنایا جائے۔ صنفی بنیاد پر تشدد کے مقدمات کی سماعت کے لیے عدالتی تاخیر پر قابو پانے کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ متاثرین کو جلد انصاف فراہم کیا جا سکے۔ ہر ضلع میں خصوصی پولیس یونٹس قائم کیے جائیں جو تربیت یافتہ افسران پر مشتمل ہوں‘ جو عدالتوں کو درست ثبوت دیں تاکہ درست اور بروقت فیصلے ہوں۔ متاثرین کی مدد کیلئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور محفوظ ہاٹ لائنز قائم کی جائیں۔ فوری انصاف کیلئے متاثرین کو قانونی امداد اور نفسیاتی مشاورت مفت فراہم کی جائے۔ جنسی اور گھریلو تشدد کے معاملات میں عدالت سے باہر تصفیے کو غیرقانونی قرار دیا جانا چاہیے۔ قارئین کرام! آپ کو پپو کیس کا وہ تاریخی وقوعہ یاد ہو گا جو جنرل ضیا الحق کے دور میں پیش آیا تھا جس میں بچے سے زیادتی کے مجرم کو چوبرجی چوک میں سرِعام پھانسی دی گئی تھی اور اس کی لاش کئی روز تک کھمبے سے لٹکی رہی تھی۔ اس عبرت ناک منظر کے بعد سالہا سال تک ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ لاہور موٹروے پر خاتون کے ساتھ بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کے بعد ملک میں ریپ کیلئے سزا کے تعین پر بحث جاری رہی مگر بے سود! بد قسمتی سے 78سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی یہاں اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو سکا۔ ضرورت ہے کہ عورتوں کے خلاف گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں