"MAHG" (space) message & send to 7575

پاکستان کا ہائپرسپیکٹرل سیٹلائٹ‘ اہم سنگِ میل!

پاکستان نے ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ HS-1کے ساتھ سپیس ٹیکنالوجی کے نئے دور میں قدم رکھ دیا ہے۔ بلاشبہ یہ ہمارے لیے فخر کا لمحہ اور ملکی ترقی‘ موسمیاتی تحفظ اور سائنسی خود کفالت کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ مشن پاک چین گہری و مضبوط خلائی شراکت داری کو اجاگر کرتا ہے‘ جسے 19اکتوبر 2025ء کو چینی جیوکوان (Jiuquan) سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا جو پاکستان کا پہلا جدید ترین زمینی مشاہداتی نظام ہے۔ اس لانچ نے پاکستان کو ہائپر سپیکٹرل امیجنگ تک رسائی کی حامل اقوام کے منتخب گروپ میں جگہ دے دی ہے‘ جس سے ڈیٹا پر مبنی جدت اور ماحولیاتی نگرانی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ HS-1 ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ کیا ہے؟ پاکستان کا پہلا ہائپر سپیکٹرل ارتھ آبزرویشن سیٹلائٹ ایک جدید قسم کا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جو زمین کا مشاہدہ کرنے کیلئے ہائپر سپیکٹرل امیجنگ کی تکنیک استعمال کرتا ہے۔ روایتی سیٹلائٹ جیسے ملٹی سپیکٹرل‘ روشنی کی چند مخصوص موجوں مثلاً سرخ‘ سبز‘ نیلی اور انفرا ریڈ میں تصاویر بناتے ہیں‘ اس کے برعکس ہائپرسپیکٹرل سیٹلائٹ روشنی کے برقی مقناطیسی طیف میں سینکڑوں یا ہزاروں بہت ہی باریک بینڈز میں ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے ہر پکسل کیلئے ایک مکمل سپیکٹرل فنگر پرنٹ یا کیمیکل شناختی کارڈ حاصل کر لیا جائے۔ یہ باریک بینڈز مادی ا شیا جیسے پودے‘ مٹی ‘پانی‘ معدنیات کے منفرد کیمیائی اور طبیعاتی خواص کو پہچاننے میں مدد دیتے ہیں جو روایتی سیٹلائٹس کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ یہ سینکڑوں تنگ سپیکٹرل بینڈز میں منظر کشی کرتا ہے‘ جس سے مٹی‘ پودوں‘ پانی اور شہری خصوصیات کا تفصیلی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں پہلے سے موجود ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس زراعت اور قدرتی آفات کی نگرانی کیلئے استعمال ہو رہے ہیں لیکن نیا ہائپرسپیکٹرل سیٹلائٹ ان صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھا دے گا۔
ہائپرسپیکٹرل امیجنگ کی شروعات ہوائی جہاز اور ڈرون سے ہوئی تھی۔ پہلے پہلے ہائپر سپیکٹرل سینسرز زمینی اور ہوائی پلیٹ فارمز پر نصب تھے۔ ناسا کا ایونیئن انجینئرنگ فیلڈ سپیکٹرومیٹر پہلا ہوائی ہائپر سپیکٹرل سینسر تھا۔ 2000ء میں پہلا ہائپر سپیکٹرل سینسر خلا میں بھیجا گیا تھا جس کا نامNASA's EO-1تھا اور اس پر Hyperion نامی آلہ نصب تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ ہائپر سپیکٹرل ٹیکنالوجی ہر قسم کے حالات میں کام کر سکتی ہے۔ بعد ازاں متعدد ممالک جیسے امریکہ یورپ‘ چین‘ جاپان‘ بھارت اور جرمنی نے ہائپر سپیکٹرل مشنز خلا میں بھیجے جو اس ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کو بہتر بنا رہے ہیں۔ ہائپر سپیکٹرل ٹیکنالوجی جدید اور مہنگی ہونے کی وجہ سے چند ہی ممالک کے پاس ہے جن میں امریکہ‘ یورپی یونین‘ چین‘ ہندوستان‘ جاپان‘ جرمنی اور اٹلی وغیرہ شامل ہیں۔ ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو زراعت‘ ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘ ماحولیاتی نگرانی‘ شہری منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں استعمال کیا جا سکتا ہے‘ جس سے متعدد شعبوں میں ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی کو قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ روایتی آپٹیکل یا ملٹی سپیکٹرل سیٹلائٹس کے برعکس ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹس سینکڑوں تنگ‘ ملحقہ سپیکٹرل بینڈوں میں تصویر کشی کرتے ہیں۔ یہ سطحی مواد اور ماحولیاتی حالات میں ٹھیک ٹھیک فرق کا پتہ لگانے کی اجازت دیتا ہے جسے روایتی نظام گرفت میں نہیں لے سکتے۔ پودوں کی صحت‘ آبی وسائل اور زمین کے استعمال کی بے مثال سپیکٹرل تفصیل کے ساتھ نگرانی‘ سپیکٹرل اینالیٹکس کے ذریعے فصل کی زندگی‘ مٹی کی نمی اور پیداوار کو بہتر بنانا‘ ماحولیاتی نگرانی‘ جنگلات کی کٹائی‘ پانی کے معیار‘ گلیشیر پگھلنے اور آلودگی کے نمونوں کا سراغ لگانا‘ زمینی احاطہ‘ شہری پھیلاؤ اور ارضیاتی خطرات کے بارے میں بہتر ڈیٹا فراہم کرنا۔
پاکستان کی جانب سے اس سال یہ خلا میں بھیجا جانے والا تیسرا سیٹلائٹ ہے‘ جو مدار میں تجربے کے مرحلے سے گزرے گا۔ اس ٹیسٹنگ پر دو ماہ لگ سکتے ہیں جس کے بعد سیٹلائٹ مکمل فعال ہو جائے گا۔ اس میں دو آرا نہیں کہ یہ لانچ پاکستان کے ماحولیاتی نظام میں بہتری کیلئے ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ پاکستان کی ریموٹ سینسنگ صلاحیتوں کو ملٹی سپیکٹرل سے ہائپر سپیکٹرل امیجنگ میں اَپ گریڈ کرتا ہے اور اس سے پاکستان آپریشنل ہائپر سپیکٹرل ارتھ آبزرویشن انفراسٹرکچر والے چند ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ سیٹلائٹ کی اصل قدر اس بات پر منحصر ہے کہ HS-1 ڈیٹا پاکستان کے نجی شعبے اور تعلیمی اداروں کیلئے کتنا سود مند ہو گا۔ اگرچہ چین پاکستان شراکت داری کلیدی حیثیت رکھتی ہے‘ لیکن خلائی ڈیٹا کے تجزیات کیلئے مقامی سطح پر ایک مضبوط نظام کی تعمیر سے خود انحصاری میں اضافہ ہو گا۔ ایچ ایس ون سیٹلائٹ فصلوں کی صحت‘ مٹی کی نمی اور آبپاشی کے بارے تفصیلی معلومات فراہم کرے گا جس سے پیداوار کے تخمینے میں 15سے 20فیصد تک اضافہ ہو گا اور یہ خوراک کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ سیلاب‘ لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر قدرتی آفات کی پیشگی وارننگ اور فوری ردعمل کیلئے بھی یہ ایک انتہائی اہم آلے کے طور پر کام کرے گا۔ خصوصاً قراقرم ہائی وے اور شمالی پاکستان کے علاقوں میں اس سیٹلائٹ کی جدید تصویری صلاحیتیں سیلاب کی پیشگوئی‘ لینڈ سلائیڈز کی نگرانی اور جیولوجیکل خطرات کے تجزیے میں مدد کریں گی۔ سپارکو کے مطابق جدید سیٹلائٹ سینکڑوں نوری بینڈز میں درست تصاویر حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ سے زرعی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی نگرانی میں انقلاب کی امید ہے‘ اور ایک بار فعال ہونے کے بعد HS-1کا ڈیٹا جدت طرازی اور سٹارٹ اَپ ایکو سسٹم میں نئی راہیں کھول دے گا۔ HS-1کا ڈیٹا جغرافیائی خطرات کی نشاندہی کرنے اور کمزور علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی رہنمائی میں بھی مدد کرے گا۔ یہ مصنوعی سیارہ پاکستان کو زراعت‘ پانی کے وسائل کے انتظام‘ ماحولیاتی نگرانی اور معدنیات کی تلاش کے شعبوں میں اہم ڈیٹا فراہم کرے گا۔ ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹس ریموٹ سینسنگ کی دنیا میں انقلابی پیشرفت ہیں۔ یہ نہ صرف زمین کی بہتر تصویر کشی کرتے ہیں بلکہ اس کے مادی اور کیمیائی ساخت کو سمجھنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ HS-1جیولوجیکل خطرات کی نشاندہی اور پائیدار انفراسٹرکچر کی ترقی کو فروغ دے کر ترقیاتی منصوبوں بالخصوص پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں بھی معاون ثابت ہو گا۔
ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ ملک کی خلائی تحقیق اور عملی استعمال کے میدان میں ایک اہم قدم ہے جو اسے اپنے وسائل کے بہتر بندوبست اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے درکار جدید ترین ڈیٹا سے لیس کرے گا۔ یہ کامیاب مشن پاکستان کے خلائی ادارے سپارکو کے اس عزم کی توثیق ہے کہ وہ قومی ترقی کیلئے خلائی ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرے گا۔ اس انقلابی منصوبے کو پاکستان کی قومی خلائی پالیسی اور وژن 2047ء کا اہم سنگِ میل قرار دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے نہ صرف پاکستان خلا سے متعلق جدید ٹیکنالوجی میں اپنا مقام مزید مستحکم کرے گا بلکہ خطے کے دیگر ممالک کیلئے ایک ماڈل بن کر ابھرے گا۔ میں اپنے کالم کے توسط سے پاکستانی سائنسدانوں اور ٹیکنیکل ٹیم کو یہ خلائی سنگ میل عبور کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ وطن عزیز خلائی ٹیکنالوجی میں مزید کامیابیاں حاصل کرے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں