بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کبھی سندھ پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی ''آپریشن سندور 2.0‘‘ کی۔ اس دوران سرکریک کے حوالے سے بھی اشتعال انگیز بیان سامنے آیا کہ ''پاکستان نے سرکریک کے قریب فوجی بنیادی ڈھانچے کی توسیع کی ہے اور اگر وہاں کسی قسم کی مہم جوئی ہوئی تو بھارت ایک ایسا ''فیصلہ کن‘‘ ردِعمل دے گا جس سے ''تاریخ اور جغرافیہ‘‘ بدل سکتے ہیں‘‘۔ یعنی اب بھارت سرکریک کو جواز بنا کر جارحیت کا ایک اور محاذ کھولنے کے عزائم رکھتا ہے۔ آخر حالیہ اشتعال انگیز بیانات کا باعث بننے والا ''سرکریک‘‘ کا تنازع کیا ہے؟ برطانیہ کے مفکر‘ دانشور‘ سیاسی مدبر اور پارلیمنٹیرین جون برائٹ کا انیسویں صدی میں برطانیہ کے پارلیمانی ایوانوں میں طوطی بولتا تھا۔ تنازعات کو پُرامن طور پر حل کرنے کے حوالے سے Force is not a remedyکا قول اسی سے منسوب ہے۔ 24 جون 1857ء کو لندن میں اس نے ایوانِ نمائندگان میں تاریخی خطاب کیا۔ اس نے کہا کہ ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک خطے کا نام ہے۔ اسے پانچ خودمختار حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو برطانوی حکومت کے جانے کے بعد یہ علاقہ تنازعات کی آماجگاہ بن جائے گا۔ 15اگست 1947ء کے بعد ایسا ہی ہوا۔ بھارت فسادات اور مسلم نسل کشی کا مرکز بن گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ جونا گڑھ اور سرکریک بھی اقوام متحدہ کی ناانصافی اور برطانوی و برہمنی سامراج کی عیاریوں کی داستانیں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان سے متعلق بہت کم لوگ تفصیلی معلومات رکھتے ہیں۔ سرکریک تاریخی طور پر ایک صدی پرانا مسئلہ ہے‘ جب صوبہ سندھ اور راجستھان کے درمیان برطانوی دور میں تصفیہ کی کوششیں کی گئی تھی۔ سر کریک پاکستان کا وہ علاقہ ہے جسے بھارت ہتھیانا چاہتا ہے۔ یہ علاقہ کسی زمانے میں جان گنگا کہلاتا تھا اور بعد میں برطانوی راج کے دوران ایک انگریز افسر کی وجہ سے اسے'سرکریک‘ کے نام سے پہچان ملی۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ ایک دلدلی علاقہ مانا جاتا ہے جو صوبہ سندھ کا حصہ ہے۔ اس آبی علاقے کو کھاڑی‘ خلیج اور شاخ کہا جا سکتا ہے۔ یہ علاقہ تقسیمِ ہند سے قبل آبی پرندوں کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ اس علاقے کی جغرافیائی اور سرحدی لحاظ سے اہمیت کے پیشِ نظر اور تنازع کے حل کیلئے پاک بھارت مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ آبی پٹی 96کلومیٹر طویل ہے جو بھارت میں رن آف کچھ کے علاقے میں بھارتی گجرات اور پاکستان میں صوبہ سندھ سے منسلک ہے۔ 60ء کے عشرے میں متنازع علاقے کے طور پر سامنے آیا اور اس مسئلے کے حل کی کوششیں شروع ہوئیں۔ دونوں ملک اس دلدلی ساحلی پٹی کے معاملے پر اس لیے بھی حساس ہیں کہ یہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ایک حصہ پاکستان کا ہے تو دوسرے پر بھارت قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور اس کی بحری تنصیبات ہیں۔ ساحلی پٹی کے تمام 17کے 17کریک پاکستان کے ہیں جبکہ بھارت سرکریک کے نصف حصے پر ملکیت کا دعویدار ہے۔ آئے دن بھارت اور پاکستان کے ماہی گیروں کو دونوں ملکوں کے سکیورٹی اہلکار حراست میں لیتے ہیں تو وہ سمندری حدود کی خلاف ورزی سرکریک کی حدود ہی میں بتائی جاتی ہے۔ یہاں موجود آبی حیات‘ معدنی ذخائر اور علاقائی دفاعی اہمیت بھی سرکریک کو جغرافیائی طور پر خصوصی پوزیشن دلوا دیتی ہے۔
بھارت جو ایک طرف کشمیر‘ جونا گڑھ‘ سیاچن‘ منادر‘ مانگرول ہتھیائے ہوئے ہے‘ سرکریک پر بھی اپنا حق جتلاتا ہے حالانکہ برطانوی عہد سے یہ علاقہ سندھ کا حصہ ہے جو اسے معاہدہ 1914ء کی رُو سے تفویض ہوا تھا۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ 1925ء میں پاکستانی سندھ سے بھارتی گجرات تک پھیلی سرکریک کا فیصلہ ہو چکا ہے جس میں سندھ کا حق تسلیم کیا گیا تھا اور اگر کوئی عالمی ثالثی کمیٹی بنتی ہے تو پاکستانی مؤقف تسلیم کیا جائے گا کیونکہ جس سرحد کو مہاراجہ کچھ نے تسلیم کیا تھا‘ اس کی رُو سے بھارت کو 250مربع میل رقبہ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ 1964ء کے بعد سے اب تک دو طرفہ مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن ہنوز ملکیت کے تنازعے کا تصفیہ نہیں ہو سکا حالانکہ 1914ء میں اس وقت کی برٹش حکومت نے بمبئی صوبہ کے زیرِانتظام کمشنر سندھ اور کَچھ کے مہاراجہ کے درمیان معاملہ طے کرا دیا تھا جسے 24مئی 1914ء کو بمبئی صوبہ کی قرار داد کے ذریعے تسلیم بھی کیا گیا تھا۔ نیز مہاراجہ کَچھ اور کمشنر سندھ کے مابین حدود کے تعین کے ساتھ ساتھ دستاویزات کے تبادلے میں نقشوں کے ذریعے باہم اطمینان پایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری قوانین نے تمام ممالک کو بحری تنازعات 2007ء تک حل کرنے کیلئے کہا تھا تاکہ 2009ء تک تمام دعوے نمٹائے جا سکیں۔ اس تنازعے کا تصفیہ اسی طرح ممکن ہے کہ بھارت اپنے مؤقف میں لچک لائے اور سرکریک کی آبنائے کے مرکز کو سرحد بنانے پر اصرار نہ کرے اور مشرقی ساحل والی پاکستانی تجویز کے قریب آئے‘ ورنہ جھگڑا بدستور موجود رہے گا۔ 1965ء کی لڑائی کے بعد یہ معاملہ ٹربیونل کے حوالے کیا گیا اور ٹربیونل نے 19فروری 1968ء کو یہ فیصلہ سنایا کہ پورے رن کے مشرقی حصے پر ہندوستان کا دعویٰ ہے‘ پاکستان کو صرف تھوڑا سا علاقہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ 2005ء میں دونوں جانب سے اس علاقے کا مشترکہ سروے شروع کیا گیا تھا۔ بی جے پی نے اس وقت کے وزیر خارجہ نٹوَر سنگھ کو لکھا تھا کہ کچھ کے راجواڑہ اور سندھ کے حکام نے جو 1914ء میں ممبئی پریسیڈنسی میں آ چکا تھا‘ اسی زمانے میں سروے مکمل کر لیا تھا۔ اس وقت کل 67ستون نصب کیے گئے تھے جن میں سے 56اب بھی موجود ہیں۔ واضح رہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت کئی علاقوں کا فیصلہ یا ان کی حد بندی نہیں کی جا سکی تھی اور سرکریک انہی میں سے ایک ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ برطانوی دور کے نقشے کے مطابق سرحد سرکریک کے مشرقی کنارے سے گزرتی ہے جبکہ بھارت کے مطابق یہ تھل ویگ لائن (Thalweg Line) کے اصول کے تحت پانی کے بیچ میں ہونی چاہیے۔ اس تنازع کا اثر صرف سرحدی لائن تک محدود نہیں بلکہ ماہی گیری‘ تیل و گیس کے وسائل اور اقتصادی زونز جیسے بڑے مفادات سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اگر کسی ایک ملک کو سرکریک پر مکمل کنٹرول مل جائے تو وہ اپنی اقتصادی حدود (Exclusive economic zone) میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے‘ جہاں سے اربوں روپے کے وسائل حاصل ہو سکتے ہیں۔ مودی حکومت نے پا کستان سے ملنے والی مغربی سرحدوں کے صحرائی علاقے اور گجرات کے سرکریک خطے سے لے کر بحیرۂ عرب میں 'ترشول‘ نامی مشقوں کا آغاز کیا تھا۔ جسے 'آپریشن سندور‘ کے بعد کی سب سے بڑی جنگی مشق قرار دیا گیا تھا۔ اس دوران پاک بحریہ نے بھی شمالی بحیرۂ عرب میں جنگی مشق کی اور دشمن کو بتا دیا کہ افواجِ پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ نریندر مودی اور وزرا کے غیر ذمہ دار بیانات بھارت کے اندرونی مسائل اور آپریشن سندور میں ملنے والے ذلت کے داغ کو مٹانے کی ایک ناکام کوشش ہیں۔ ان گیڈر بھبکیوں کا مقصد صرف اور صرف نریندر مودی کا اگلی بار مسندِ اقتدار کا حصول ہے۔ بہار اسمبلی الیکشن سے قبل دہلی میں بم دھماکے کروائے گئے اور اس کا الزام اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں‘ بالخصوص کشمیری ڈاکٹروں پر لگا کر ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ درحقیقت بھارت خطے کا چوہدری بننے کے خبط میں پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے مسلسل سرگرم عمل ہے۔