"MAHG" (space) message & send to 7575

پاک بنگلہ دیش قربتیں ’اکھنڈ بھارت‘ پر کاری ضرب

جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا کے حالیہ دورۂ بنگلہ دیش سے دشمن کی صفوں میں ہلچل بپا ہے۔ اس دورے کی سب سے خاص بات بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس کی جانب سے جنرل ساحر شمشاد مرزا کو ''گریٹر بنگلہ دیش‘‘ کا نقشہ پیش کرنا ہے جس پربھارتی گوڈی میڈیا نے زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ یہ نقشہ ان گروہوں کے نظریے سے میل کھاتا ہے جو گریٹر بنگلہ دیش کے خواب کو حقیقت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد یونس کی طر ف سے پیش کیے گئے نقشے میں بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں بشمول آسام کو بنگلہ دیش کا حصہ دکھانے پر مودی حکومت کا میڈیایہ واویلا مچا رہا ہے کہ بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان بننے کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے۔ در حقیقت پاک بنگلہ دیش بڑھتی قربتیں 'اکھنڈ بھارت‘ پر کاری ضرب ہے ۔ بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس بھارت کے اعصاب پر سوار ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹرمحمد یونس کے برسراقتدار آنے کے بعد بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ بھارتی ایجنٹ شیخ حسینہ کے فرار کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت نے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی قربت بڑھائی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت روایتی ہٹ دھرمی پر اُتر آیا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نے دفاعی اور سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے جس سے دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان سٹریٹجک روابط کے ایک نئے دور کی شروعات ہوتی ہے۔ پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹرمحمد یونس‘ آرمی چیف جنرل وقار الزمان ‘نیول چیف ایڈمرل محمد نظم الحسن‘ ایئر چیف مارشل حسن محمود خان اور پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن سے ملاقات کی۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سلہٹ میں سکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹکس کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات کی۔ بنگلہ دیش کی سول اور عسکری قیادت نے پاکستان کی مسلح افواج کے اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار اور دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا۔ ڈھاکہ میں شیکھا انیربن (ابدی شعلہ) کی یادگار پر پھول چڑھانا ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر بھائی چارے اور دوستی کی روشن منزلوں کی جانب نیا سفر ہے اور اسی میں مفاہمتی تعلقات کا استحکام پوشیدہ ہے ۔ اس میں دو آرا نہیں کہ دونوں طرف سے دفاعی اور سلامتی کے شعبوں میں بڑھتا تعاون خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں یقینا بڑی پیش رفت ہے۔ دونوں فریقوں نے تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی ماحول میں اجتماعی سلامتی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے دفاعی پیداوار‘ انٹیلی جنس شیئرنگ اور انسدادِ دہشت گردی میں تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا ۔ رواں برس کے شروع میں لیفٹیننٹ جنرل قمر الحسن بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں ۔
پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ایک مدت کے بعد ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ عالمی سامراجی سازشوں کے باوجودقربتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دشمن جان لیں کہ بھائی چارہ کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ اب بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی معتدل اور منظم حکومت قائم ہے اور اس وقت نہ صرف دونوں حکومتیں ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کے جذبات سے سرشار ہیں بلکہ دونوں طرف کے عوام کے دل بھی ایک دوسرے کیلئے دھڑکتے ہیں۔ اس بار بنگلہ دیش میں قائداعظم کا یومِ پیدایش بڑے کروفر سے منایا گیا‘ پھر شیخ مجیب کا مجسمہ بھی توڑ دیا گیا اور تاریخ کی کتابوں سے اُس کا نام بھی ہٹا دیا گیا‘ سب سے اہم بات '' پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ بنگلہ دیش کی فضائوں میں گونجا۔ 13سال کے وقفے کے بعد پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد نے وزیر خارجہ کی قیادت میں 23اگست 2025ء کوبنگلہ دیش کا دورہ کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو 1971ء میں مشرقی پاکستان سے علیحدگی کا دکھ سہنا پڑا اور اس کا ایک بازو اس سے جدا ہوگیا (اس میں اپنے بیگانے ‘ سب کے غیر سنجیدہ رویے ذمہ دار تھے) لیکن پھر بھی پاکستان نے بنگلہ دیش کے ساتھ ہر سطح پر برادرانہ تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی اور اسے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی سمجھا اور بڑے بھائی کی طرح شفقت و پیار دیا۔ مشرقی پاکستان کے رہنمائوں اور قائدین کی خدمات ہماری قومی سیاسی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد نواب سلیم اللہ خاں کے گھر پر رکھی گئی۔ قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے قائد کا تعلق بھی بنگال سے تھا۔ مولوی فضل الحق کو شیرِ بنگال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بنگال کے دوسرے قائدین میں خواجہ ناظم الدین کا نام بہت اہم ہے‘ وہ قائداعظم کے بعد گورنرجنرل بنائے گئے۔ قائد اعظم کے بعد انہوں نے نہایت وقار اور متانت کے ساتھ ملک کی قیادت کی۔ حسین شہید سہروردی بھی تحریک پاکستان کے مجاہدین میں شامل تھے۔ بھارت شروع ہی سے پاکستان کو توڑنے کی سازش میں سرگرم رہا۔ بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کا قیام ہی اسی مذموم مقصد کی تکمیل کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے سابق ڈپٹی سپیکر شوکت علی نے 2011ء میں اعتراف کیا تھا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کا 100فیصد کریڈٹ بھارت اور را کو دوں گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سینہ ٹھونک کر بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے بنگلہ دیش بنانے کا اعتراف کیا تھا۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں بھی اس کا ذکر ہے۔سابق بھارتی ایجنٹ حسینہ واجد حکومت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی۔ ہندو بنیے کے ساتھ مل کر ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشیں کیں اور بھارتی اثر و رسوخ کے تحت عالمی محاذ پر بھی پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بھارتی ایما پر ہی پاک فوج کے خلاف Genocide dayمنایا گیا۔
درحقیقت بنگلہ دیش میں دو قومی نظریے سے وابستگی اور بھارت کی مخالفت کو ناقابلِ معافی جرم بنا دیا گیا۔ اقتدار حاصل کرنے کیلئے حسینہ واجد نے پاکستان دشمنی کو ہوا دی ۔ مکتی باہنی کو بھارت نے مسلح کیا جس نے مشرقی پاکستان میں خون کا کھیل کھیلا اور سارا الزام پاک فوج پر ڈال دیا۔ اسی کی باقیات حسینہ واجد پاکستان سے دشمنی میں بھارت سے شاباشی وصول کر تی رہی۔ وہ بھاگ کر بھی اگرتلہ ‘بھارت ہی گئیں۔ بنگلہ دیش میں عام انتخابات فروری 2026 ء میں متوقع ہیں جبکہ سابق وزیراعظم اور عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے مئی 2025 ء میں عوامی لیگ کی رجسٹریشن معطل کر دی تھی‘ جماعت کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے باعث پارٹی کی سرگرمیوں پر بھی مکمل پابندی عائد ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بائیکاٹ کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ دراصل شیخ حسینہ پر 2024 ء میں طلبا کی قیادت میں ہونے والی مظاہروں پر سخت کریک ڈاؤن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مخالفین کے خلاف قید و تشدد کے جرائم پر بین الاقوامی کرائمز ٹریبونل نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور 13نومبر کو ان کے خلاف فیصلے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جولائی تا اگست 2024 ء کے دوران طلبہ کے مظاہروں میں تقریباً 1400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ ماضی میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) ملک کی دو بڑی جماعتیں رہی ہیں اور آئندہ انتخابات میں بی این پی کے جیتنے کے امکانات نمایاں ہیں۔ بھارت نے جو کچھ مشرقی پاکستان میں کیا وہی کھیل بلوچستان اور افغانستان میں کھیل رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اور بنگلہ دیش تاریخی اختلافات سے بالاتر ہو کر مشترکہ بہتر و محفوظ مستقبل کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ دونوںمسلم اتحاد اور تزویراتی تعاون کے رول ماڈل کے طور پر ابھریں گے ۔ ان شاء اللہ!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں