"MAHG" (space) message & send to 7575

قومی سلامتی کی ترقی کا سٹریٹجک منصوبہ

قومی سلامتی کی ترقی کا سٹریٹجک پلان National Security Advancement of Pakistan (NSAOP) وضع کرنے کا مقصد فیصلہ سازوں کو پاکستان کے حال اور مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی قومی سکیورٹی‘ سماجی‘ معاشی و تکنیکی ترقی سمیت فکری ارتقا کے حوالے سے ایک نئی حکمتِ عملی اور وژن فراہم کرنا ہے۔ یہ تزویراتی منصوبہ بندی پاکستان کی تیز رفتار ترقی‘ استحکام‘ امن اور قومی خوشحالی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے ایک مؤثر ماحول پیدا کرے گی۔ NSAOP سٹریٹجک پلان کا بنیادی اور اہم مقصد قومی سلامتی کی نئی پالیسی اور سوچ کیلئے ایسے اصول متعارف کرانا ہے جو پاکستان کی جغرافیائی اور جیو سٹریٹجک حیثیت کو مضبوط کریں اور اسے عالمی سطح پر ایک نئے اعتماد اور خود مختاری کے ساتھ ابھاریں۔ پاکستان کی قوت کا انحصار ٹھوس اور غیرمحسوس سٹریٹجک عناصر پر مبنی ہے۔ ان میں قلیل اور اوسط المدتی ٹھوس عناصر میں قدرتی وسائل‘ زمین اور انسانی وسائل شامل ہیں جبکہ طویل المدتی غیرمحسوس عناصر میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت پسند طرزِ حکمرانی اہم ہیں۔ تاہم ان تمام عناصر کا مربوط امتزاج پاکستان کو عالمی منظرنامے پر ایک ابھرتی ہوئی جغرافیائی سیاست میں نہ صرف طاقت کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرے گا بلکہ اس سے پاکستان کو علاقائی و عالمی سطح پر نمایاں حیثیت حاصل ہو گی۔ یہ حکمتِ عملی نئے جغرافیائی نظریات جیسا کہ Quantum geopolitics, Geoomniapolitics, Enlightened activism پر مبنی ہو گی تاکہ پاکستان طویل المدتی تناظر میں اپنی سلامتی کے حوالے سے عالمی جیو پولیٹکل کھلاڑیوں کے مقابلے میں برتری حاصل کر سکے۔
عملی منصوبہ بندی کے اہم اقدامات:
پہلا برس: (مارچ 2025ء تا مارچ 2026ء) گراؤنڈ کی تیاری۔ اس دوران ایک ابتدائی سٹریٹجک پلان تیار کیا جانا ہے جس کے تحت NSAOP کیلئے قلیل‘ اوسط اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے خدوخال متعین کیے جائیں گے۔ چونکہ قومی سلامتی میں کئی ایسے حصے ہیں جن کو Zones Blind کہا جاتا ہے‘ جن پر پہلے پوری توجہ نہیں دی گئی‘ قومی سکیورٹی میں ان کی بدولت ابھرنے والے خلا کو فوری پُر کرنے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ اسی مقصد کیلئے اس ابتدائی پلان کی طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہر علاقے‘ ہر چیلنج کا الگ الگ‘ قریب سے جائزہ لے کر ازسر نو اس کا تجزیہ کیا جائے۔ بالخصوص عالمی سطح پر جیوپولیٹکل سمیت عسکری اور ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کے پیش نظر غیرمتوقع حالات کے باعث جن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسرا سال: (2026ء تا2027ء)‘ داخلی و خارجی سطح پر اس سٹریٹجک پلان پر عملدرآمد اور عالمی سطح پر پاکستان کی نئی شناخت کی تشکیل: دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور آنے والے دو برسوں میں موجودہ عالمی سیاسی نظام بھی توڑ پھوڑ کا شکار ہو سکتا ہے‘ جبکہ آئندہ دو برسوں میں‘ یعنی 2027ء تک پاکستان کو داخلی‘ علاقائی اور عالمی سطح پر بیک وقت تزویراتی چیلنجز کا سامنا ہو گا‘ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اپنے نیشنل سکیورٹی سسٹم کو نئی عالمی حقیقتوں کے مطابق تیزی سے ڈھالے‘ اس سے پہلے کہ تباہ کن رجحانات اس کے استحکام کو نقصان پہنچائیں اور اس کی ترقی‘ پائیداری اور خوشحالی کو خطرے میں ڈال دیں۔ سٹریٹجک پلان کے دوسرے برس کا مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان کے داخلی و خارجی طور پر وہ تمام منصوبوں کو عملی شکل دی جائے جو پہلے سال کے ابتدائی سٹریٹجک پلان میں طے کیے گئے۔ اس دوران پاکستان کی عالمی سطح پر نئی بہتر شناخت بنانے پر زور دیا جائے۔ NSAOPسٹریٹجک منصوبے کا مقصد پاکستان کی سیاسی اور عسکری لیڈر شپ کی ایک نئی اور مضبوط نسل تیار کرنا ہے جو عالمی تبدیلیوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو‘ جس سے پاکستان کی حفاظت‘ ترقی اور مستقبل کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ پورے خطے کی خوشحالی اور سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اگر پاکستان نے اپنے قومی سلامتی کے نظام کو وقت پر تبدیل نہ کیا تو یہ تبدیلیاں ملکی استحکام‘ ترقی اور مستقبل کیلئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی چیلنجز کی وجہ سے اپنے تزویراتی محل وقوع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ اسے اپنی سرحدوں کی دونوں جانب کشیدگی اور سکیورٹی چیلنجز کا مسلسل سامنا ہے۔ جدید دنیا میں دہشت گردی اور پراکسی وار نے سکیورٹی کے تصور کو متنوع بنا دیا ہے۔ اب سکیورٹی کے جامع نظریات میں خود مختاری‘ علاقائی سالمیت‘ مخصوص سیاسی احکامات‘ ریاستی ادارے‘ سماجی و معاشی آزادی‘ انصاف اور برابری جیسے شعبے بھی شامل ہیں۔ ریاستوں نے نہ صرف روایتی عسکری خطرات پر توجہ بڑھا دی ہے بلکہ غربت‘ تجارت‘ معیشت‘ انسانی حقوق اور ماحولیات جیسے غیرروایتی خطرات کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ پاکستان کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ روایتی سکیورٹی کا مطلب کسی معاشرے میں اس احساس کا جاگزیں ہونا ہے کہ ان کی ریاست انفرادی و اجتماعی حقوق کی حفاظت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ تاہم نئے چیلنجوں کو قبول کرنے اور مستقبل کی ترقی کیلئے سازگار حالات پیدا کرنے میں غیرروایتی سکیورٹی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ روایتی اور غیرروایتی سکیورٹی کے تصورات کا جائزہ لیتے وقت ضروری ہے کہ دونوں کے فرق‘ خصوصیات اور موجودہ دور میں ان کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ سکیورٹی کا تصور اب عالمی سطح پر تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ آج کے دور میں سکیورٹی کے نئے چیلنجز جیسا کہ دہشت گردی‘ سائبر حملے‘ ماحولیاتی خطرات اور معاشی عدم استحکام سے ریاستوں کے وجود کو زیادہ خطرات لاحق ہیں اس لیے روایتی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ غیر روایتی سکیورٹی کا تصور بھی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ غیر روایتی سکیورٹی ان چیلنجز کا احاطہ کرتی ہے جو براہِ راست ریاستوں کے مابین جنگ سے وابستہ نہیں ہوتے لیکن ریاست اور معاشرے کو ان سے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عالمی مسائل‘ ماحولیاتی تبدیلیاں‘ عالمی وبائیں‘ انسانی سمگلنگ‘ منشیات کی تجارت اور سائبر حملوں کے اس دور میں غیر روایتی سکیورٹی کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے تاہم غیر روایتی سکیورٹی اور روایتی سکیورٹی باہم مربوط ہیں۔ اجتماعی طور پر دونوں ہی جامع سکیورٹی تخلیق کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت روایتی اور غیر روایتی دونوں طرح کے سکیورٹی خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا روایتی سکیورٹی خطرہ بھارت سے ہے۔ بھارت محدود جنگ اور کولڈ سٹارٹ نظریے جیسے متعدد دھمکی آمیز تصورات متعارف کرا کر پاکستان کے خلاف ہر وقت فعال رہتا ہے۔ غیر روایتی سلامتی کے خطرات میں کمزور معیشت‘ آبادی میں بے تحاشا اضافہ‘ تعلیم کی کمی‘ صاف پانی کی عدم دستیابی‘ غذائی وسائل کی کمی اور ماحولیاتی خرابی وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیتے وقت ہمیں روایتی اور غیر روایتی‘ دونوں پہلوؤں کو دیکھنا ہو گا۔ پاک چین تعلقات اور خطے میں امریکہ اور بھارت کا بڑھتا اثر و رسوخ‘ دوسری جانب دہشت گردی میں دوبارہ اضافہ‘ سیلاب اور معیشت کی خراب صورتحال وغیرہ روایتی خطرات کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کی خودمختاری‘ سالمیت اور بقا کو چیلنج کیا ہے۔ پاکستان 2001ء سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے نتیجے میں 80ہزار سے زائد پاکستانی جان سے گئے جبکہ 150ارب ڈالر سے زائد کا اقتصادی نقصان بھی اٹھانا پڑا‘ لہٰذا ابھرتے ہوئے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سائبر وار فیئر سمیت روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی کے دائرہ کار کو محفوظ بنانے کیلئے ایک قومی حکمت عملی کا خاکہ تیار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ بلاشبہ افواجِ پاکستان نے وقت کے ساتھ ساتھ علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا کامیابی سے دفاع کیا ہے اور مستقبل میں بھی عساکر پاک کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا مصمم اور غیر متزلزل ارادہ رکھتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں