کہا جاتا ہے کہ احسان فراموش سب سے پہلے اپنے محسن کو نشانہ بناتا ہے‘ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے اس مقولے کو سچ کر دکھایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب پوری دنیا نے ان سے منہ پھیر لیا تھا‘ تب بھی پاکستان نے افغانوں کو تنہا نہیں چھوڑا۔ 1979ء میں روسی فوج کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر طالبان کے دوسرے دور تک‘ 1951ء کے عالمی کنونشن اور 1967ء کے مہاجرین پروٹوکول پر دستخط کیے بغیر محض جذبہ انسانی ہمدردی‘ بھائی چارے اور ہمسائیگی کے پیشِ نظر 60لاکھ افغانوں کو اپنے ہاں پناہ د ی۔ جبکہ مہاجرین کی دوسری‘ تیسری نسل بھی یہاں آباد ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی جانب سے افغانستان میں صحتِ عامہ کی سہولتوں کیلئے تین بڑے ہسپتال بھی قائم کیے گئے۔ پاکستان نے بیشتر تعمیراتی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں۔ پلوں‘ شاہراہوں کی تعمیر کے علاوہ بجلی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں بھی بھرپور تعاون کیا۔ چار ہزار افغان طالب علموں کو سکالر شپس کی فراہمی‘ زراعت‘ بینکنگ‘ ریلوے‘ عسکری اور ڈپلومیسی کے شعبہ جات میں فنی و مالی معاونت فراہم کی۔ آٹھ سے دس ہزار مریض ہر روز افغانستان سے پاکستان میں علاج کیلئے آتے ہیں۔ روزانہ ایک ہزار افغان باشندوں کو ویزا جاری کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ پاکستان افغانستان کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ بدلے میں انہوں نے کیا دیا؟ دہشت گردی‘ پاکستانی چوکیوں پر حملے‘ بھارتی ایما پر افغان سرزمین پر پاکستان مخالف سازشیں‘ جارحیت‘ پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی اور دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں۔ میں افغانیوں کو یہ یاد کروانا چاہتا ہوں کہ افغانستان پاکستان کے لیے محض ایک ہمسایہ ملک نہیں بلکہ آپ کے ساتھ ہمارا تاریخی‘ تہذیبی‘ ثقافتی اور اسلامی نظریاتی رشتہ ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ وزیر خارجہ افغانستان امیر خان متقی‘ جو امارتِ اسلامیہ کے بھی نمائندہ ہیں‘ سے بھی سوال ہے کہ ان کے استاد محترم مُلا عمر نے افغانستان کے علاقہ بامیان میں بدھا کے مجسمے توڑے تھے‘ آج انہی بت شکنوں کی اولاد‘ ان کے شاگرد کافر و مشرک کی گود میں جا بیٹھے۔ ''افغان باقی کہسار باقی‘‘! کا نظریہ انہوں نے دفن کر دیا۔
افغان قوم سے بھی سوال ہے کہ احمد شاہ ابدالی پر مسلم اُمہ کو فخر ہے‘ جنہوں نے بھارت پر کئی حملے کیے۔ محمود غزنوی نے بھارت پر 11ویں صدی میں کئی حملے کیے اور 1026ء میں سومناتھ مندر کو فتح کر لیا۔ شہاب الدین غوری نے 1192ء میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دی۔ 1748ء سے 1767ء کے درمیان احمد شاہ ابدالی نے بھارت پر آٹھ حملے کیے اور 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دی۔ بالی وُڈ میں افغانی ہیروز کی کردار کشی کی گئی، 'پانی پت‘ فلم اس کی مثال ہے۔ 'کابل ایکسپریس‘ فلم بھی سامنے آئی حالانکہ اس وقت کی افغانستان حکومت کے بھارت کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے لیکن اس حکومت کو بھی مجبوراً اس فلم پر پابندی لگانا پڑ گئی تھی۔ 'تورباز‘ فلم افغان مہاجر کیمپ میں رہنے والے ان بچوں پر مبنی تھی جو خودکش حملہ آور بن جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ بت شکنوں کے جانشین بت پرستوں سے گلے مل رہے ہیں اور لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم پاکستان پر اس ہندو بنیے کی ایما پر یلغار کر رہے ہیں۔ افغانستان میں مسلط حکومت کا 2021ء میں چہرہ اور تھا‘ اب 2025ء میں اس کا پاکستان دشمن چہرہ عیاں ہو گیا ہے جس کے نزدیک مشرک کی یاری میں کیا مسلمانوں پر حملہ کرنا جائز ہے؟ ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ لگانے والی فوج کے ساتھ لڑنا جائز ہے؟ دنیا جان لے پاک فوج نے اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51 پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے ملک کی حفاظت کی ہے۔ ہماری جنگ افغان قوم کے خلاف نہیں ہے‘ دہشت گردوں کے خلاف ہے یہ دہشت گرد نہ افغانی ہیں‘ نہ پاکستانی ہیں‘ نہ ہی ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے‘ یہ دہشت گرد ہیں‘ ان کے سہولت کار بھی اس سے بڑے دہشت گرد ہیں ۔ افغان قوم نے اب یہ سوچنا ہے کہ ان کو یہ ناجائز دہشت گردوں کی سہولت کار‘ ان کی سرپرستی کرنے والی حکومت چاہیے؟ان سے سوال ہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو بھارت کہاں تھا ؟ بھارت تو سوویت یونین کے ساتھ تھا ۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تب ہندو حکومت نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس لیے افغانیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا کون دوست ہے اور کون دشمن۔
پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی افسران اور جوانوں سمیت 80 ہزارسے زائد شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ 2021 ء سے لے کر اب تک پاکستان میں دہشت گردی کے 10ہزار 347 واقعات ہوئے۔ پاکستان نے امن عمل کیلئے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر طالبان حکومت کے ترجمان نے یہ باور کرایا کہ ان کا پاکستان سے نہیں امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دوحہ امن معاہدے میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کی اس مثبت امن کاوش کو سراہا گیا ۔ پاکستان نے امن قائم کرنے اور افغانستان سے دراندازی روکنے کے لیے متعدد کوششیں کیں۔ وزیرخارجہ نے کابل کے چار دورے کیے‘ وزیرِ دفاع اور آئی ایس آئی کے دو دورے ہوئے۔ نمائندہ خصوصی اور سیکرٹری نے کابل کے پانچ‘ پانچ دورے کیے۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایک مرتبہ کابل گئے۔ جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے آٹھ اجلاس ہوئے‘ 225بارڈر فلیگ میٹنگز اور 836 احتجاجی مراسلے اور 13ڈیمارش کیے گئے۔ ہماری کوششوں اور قربانیوں کے باوجود کابل سے مثبت ردِعمل نہیں آیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کی جانب سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کم ہی دیکھنے میں آیا۔ بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہانے والوں کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ درحقیقت واشنگٹن نے 2021 ء میں افغانستان سے انخلا ضرور کیا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خطے میں اس کی مداخلت کم ہوئی ہے۔ اس کا اصل ہدف بگرام ائیر بیس پر قبضہ ہے جہاں سے وہ بیک وقت چین اور روس پر دباؤ ڈال سکے۔ امریکہ کے افغانستان میں جیو پو لیٹکل کھیل نے علاقے کو نئے سنگین مسائل سے دوچار کر دیا ہے ۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورۂ بھارت کے دوران پاکستان مخالف بیانات کو مشترکہ اعلامیہ کی شکل دیتے ہوئے 11اور 12اکتوبر کے درمیانی شب پاکستان پر حملہ کرنا محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گھنائونی سازش کی طرف اشارہ ہے جس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ افغان قیادت بھارت کے سازشی حربوں کا شکار ہے۔ بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل کر افغان فورسز نے پاک افغان سرحد انگور اڈا ‘باجوڑ‘ کرم ‘دیر‘ چترال اور بارام چاہ کے مقامات اور بلوچستان میں چاغی میں فائرنگ کر کے امن عمل پر ایک مرتبہ پھر کاری ضرب لگائی۔ پاک فوج کی بھرپور جوابی کارروائی وقت کا تقاضا تھا جس نے یہ واضح کر دیا کہ اگر افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو وہ اپنے طرزِ عمل پر فوری نظر ثانی کرے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اقتصادی راہداری منصوبے پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ اسی لیے بھارت نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں اپنا گہرا جال پھیلا رکھا ہے۔ پاکستان مخالف افغان بیورو کریسی اور انٹیلی جنس آپریٹرز کے ذریعے خطے کے امن کو برباد کیا جا رہا ہے۔ افغان سرزمین کو کالعدم تنظیمیں مسلسل استعمال کر رہی ہیں جس کے متعدد بار ثبوت بھی فراہم کیے گئے۔ اگر کابل حکومت ان گروہوں کے خلاف فوری کارروائی نہیں کرے گی تو یہ رجحان پورے خطے کو ایک نئے تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔