ہمارا برادر اسلامی ملک قطر عرب کی چھوٹی سی ریاست مگر سفارتکاری کی دنیا کا بڑا نام اور منفرد اثرو رسوخ کا حامل ملک ہے۔ تازہ ترین تخمینوں کے مطابق قطر کی آبادی 30لاکھ سے زائد ہے‘ اس آبادی کا ایک بڑا حصہ غیرملکیوں اور تارکین وطن پر مشتمل ہے۔ اس کا رقبہ 11581مربع کلو میٹر ہے۔ اس کی سرحد مشرق میں بحرین اور امارات جبکہ مغرب اور جنوب میں سعودی عرب سے ملتی ہے۔ اس کا دارالحکومت دوحہ ہے۔ قطر نے مشرقِ وسطی میں امن کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قطر اپنے معاشی استحکام کی بدولت بڑے عربوں ممالک کے مقابلے میں علاقائی و عالمی رہنما کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ اس کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی ملک کے محبوب رہنما ہیں‘ جن کی قیادت میں قطر نے وقار‘ دانائی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سے افغان معاہدہ 2021ء‘ فلسطین اسرائیل تنازع اور حالیہ پاک افغان کشیدگی میں کامیاب ثالث کا کردار نبھایا۔ قطر نے ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود دوحہ میں حماس کے دفتر کے قیام کی اجازت دی۔ اس کے علاوہ قطر 2007ء میں یمن‘ 2008ء میں لبنان اور اس کے ساتھ ساتھ روس یوکرین جنگ میں بھی ثالث رہا ہے۔ قبل ازیں قطر نے شام‘ سوڈان‘ چاڈ اور اریٹیریا میں بھی ثالثی کا کردار ادا کیا۔ نوبل امن انعام کے اصل حقدار قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی ہیں۔ قطر کی ان امن کوششوں کے باوجود اسرائیل نے دوحہ کو نشانہ بنایا‘ حالانکہ قطر میں امریکہ کا خطے کا سب سے بڑے فوجی اڈہ الحدید ایئر بیس بھی موجود ہے۔ بے شک قطر کی خوبی اس کی ثالثی کی کامیاب پالیسی ہے۔ قطر عرب لیگ اور اقوام متحدہ سمیت اسلامی تعاون تنظیم کا ایک فعال‘ متحرک اور سرگرم رکن ہے۔ قطری معیشت مضبوط ہے اور ہر طرح کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قطر کی سالانہ فی کس آمدن ایک لاکھ 22ہزار ڈالر سے زائد ہے‘ جو دیگر خلیجی ممالک سمیت امریکہ اور سنگاپور میں کی فی کس آمدنی سے زیادہ ہے۔
قارئین کرام! قطر آج ہمیں جس حالت میں نظر آتا ہے ماضی میں ایسا نہیں تھا بلکہ اگر چند سال پہلے کے حالات کو دیکھیں تو قطر صرف ایک صحرا تھا۔ سوال یہ ہے کہ قطر‘ جو چند دہائیوں قبل تک ایک غریب ملک تھا‘ وہ خطے کا ایک امیر ترین ملک کیسے بن گیا۔ قطر میں 1940ء میں تیل دریافت ہوا اور 1960ء میں تیل نکالنے کا کام عروج پر تھا۔ اس تیل کی دریافت کے بعد ہی قطر کے حالات آہستہ آہستہ بدلنا شروع ہوئے۔ 1970ء میں شیل آئل کمپنی نے اس ملک کے قدرتی گیس کے سب سے بڑے خزانے نارتھ فیلڈ کو دریافت کیا۔ جب 1995ء میں حماد بن خلیفہ الثانی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے اپنی ساری توجہ قدرتی گیس کی طرف لگا دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قدرتی گیس قطر کے حالات کو بدل سکتی ہے‘ جس کے نتیجے میں آج قطر گیس سپلائی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو دنیا کے بڑے بڑے ممالک کو گیس سپلائی کر کے اربوں ڈالرز سالانہ کما رہا ہے۔
روس یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کی جانب سے یورپ کو گیس سپلائی میں کمی کی وجہ سے قطر کی گیس کی مانگ میں 10فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یورپی ممالک بھی اب گیس کی درآمد کے لیے قطر کی طرف دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے قطری معیشت مزید مضبوط ہوئی ہے۔ گلف نیوز کے مطابق قطر کے 2025ء کے بجٹ میں آمدنی کا تخمینہ 197ارب قطری ریال لگایا گیا ہے جس میں 154ارب ریال آمدنی صرف تیل اور گیس سے ہے۔ قطر کی سب سے بڑی طاقت اس کا مستحکم معاشی نظام ہے۔ ایک قطری اخبار کے مطابق قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کے اثاثے 500ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہیں جو اسے خطے میں اہم مقام دلاتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قطر نے اپنی توانائی کی سرمایہ کاری کے ذریعے عالمی مارکیٹوں میں اثر و رسوخ حاصل کیا‘ جو اس شعبے سے آمدنی میں بہتری اور مسلسل ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید برآں نظم و ضبط بہتر درجہ بندی کا اہم ستون ہے‘ اس کے ساتھ قطری حکومت کی طرف سے انسانی وسائل کی کارکردگی بڑھانے‘ مالیاتی ذخائر کو مضبوط بنانے‘ اخراجات کے کنٹرول کے لیے کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ سستی توانائی کی قیمتوں اور متحرک معیشت کے ساتھ قطر توانائی اور رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے زبردست مواقع فراہم کرتا ہے۔
قطر میں اس وقت قدرتی گیس کی توسیع معیشت کا بہت بڑا محرک ہے۔ اپنے گیس ذخائر کے ذریعے قطر دنیا کو گرین معیشت کی طرف منتقل کرنے میں مدد دینے کیلئے اچھی پوزیشن میں ہے۔ اس نے کھیلوں میں بہترین سرمایہ کاری کر رکھی ہے جیسا کہ فرانس کے سب سے بڑے فٹبال کلب میں قطر کی بڑی سرمایہ کاری ہے جس میں 'میسی‘ اور 'نیمار‘ جیسے دنیا کے نامور فٹ بال کھلاڑی کھیلتے ہیں۔ قطر 22ویں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔ نومبر 2022 ء میں منعقد ہونے والے اس کپ کی میزبانی کر کے قطر نے مسلم امہ کا سر فخر سے بلند کیا اور یورپ کو بتا دیا کہ قطر بطور مسلم ریاست اسلامی اقدار‘ تہذیب و ثقافت کا محافظ ہے۔ کھیلوں کے اس سب سے بڑے میلے کیلئے قطر نے دنیا کی جدید ٹیکنالوجی‘ ہر طرح کی سہولیات سے لیس جدید ترین فٹبال میدان بھی تیار کروائے۔ علاوہ ازیں قطر ایشین گیمز 2006ء سمیت کھیلوں کے بہت سے عالمی ایونٹس کی میزبانی کا اعزازبھی اپنے نام کر چکا۔ قطر نے دنیا کا سب سے بڑا عرب میڈیا نیٹ ورک شروع کیا جسے ہم 'الجزیرہ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ قطر علم و تحقیق کے میدان میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔ قومی وژن 2030ء کے تحت قطر خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھانے اور بااختیار بنانے کے متعدد پروگرام چلا رہا ہے۔ محترمہ شیخہ موزہ بنت ناصر کا ذکر کیے بغیر قطری خواتین کے بارے میں بات کرنا یقینا ناممکن ہے‘ جنہوں نے قطری خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے اور ان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ معروف کوہ پیما شیخہ اسماء الثانی دنیا کی نویں بڑی چوٹی ناگا پربت سر کر چکی ہیں جو قطر میں ترقیٔ نسواں کی اعلیٰ مثال ہیں۔ وژن 2030ء کے تحت ایک سرکردہ عالمی سیاحتی مقام کے طور پر بھی قطر نے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ قطر کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سیاحت کے شعبے نے ملک کی جی ڈی پی میں 55ارب ریال کا حصہ ڈالا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 14فیصد زیادہ ہے اور کل اقتصادی پیداوار کا آٹھ فیصد بنتا ہے۔ 2025ء میں قطر میں ہوٹلوں کی تعداد میں 71فیصد تک اضافہ ہوا ہے‘ اور اس انڈسٹری نے دو لاکھ 86ہزار سے زائد ملازمتیں فراہم کی ہیں۔
قطر کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ‘ پائیدار اور کثیر الجہتی تعلقات قائم ہیں۔ رواں برس اگست میں قطر کی جانب سے پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ راقم الحروف قطر کے قومی دن کے موقع پر‘ جو ہر سال 18دسمبر کو منایا جاتا ہے‘ امیر قطر کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔ امید ہے کہ قطر امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی قیادت میں امت مسلمہ کی بہتری‘ علاقے کے امن کیلئے روشن کردار ادا کرتا رہے گا ۔ پاکستان میں قطر کے سفیر علی مبارک علی عیسیٰ الخطر نے کہا ہے کہ قومی دن کی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف کی شرکت پر خوشی ہے۔ قطر اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون جاری ہے‘ قومی دن کی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف کی شرکت بھی دوطرفہ تعاون اور قریبی تعلقات کی عکاس ہے۔