سوشل میڈیا آنے کے بعد ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ جس کے بھی سوشل میڈیا پر چند سو فالوورز بن جائیں اسے انقلاب آتا ہے اور روز آتا ہے۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر ٹویٹر یا فیس بک پر ایک سٹیٹس اَپ ڈیٹ دیتا ہے کہ اس ملک میں انقلاب لانا کتنا ضروری ہے‘ اور پھر وہ ہر اُس صحافی‘ اینکر یا بندے کو ٹیگ کرتا ہے جو اس کے خیال میں اس کے خود ساختہ انقلاب میں مدد دے سکتا ہے۔ چند دن تک وہ انہیں قائل کرتا رہے گا اور چاہے گا کہ وہ اس کے انقلاب کیلئے آواز اٹھائیں۔ وہ صرف معاشرے کی برائیاں گنوائے گا جنہیں پڑھ کر آپ کو لگے گا کہ ابھی تک ہم زندہ کیوں ہیں۔ اسے اپنے اردگرد کچھ اچھا نہیں لگتا۔ ہر وقت وہ جلتا کڑھتا رہے گا۔ کچھ دن کے بعد اسے احساس ہو گا کہ جو لوگ اس کے انقلاب کا حصہ نہیں بن رہے وہ یا تو بک گئے ہیں یا ٹاؤٹ ہیں‘ یا پھر ملک دشمن ہیں۔ پھر وہ گالی گلوچ پر اتر آئے گا۔ لوگوں کو بزدلی کے طعنے دے گا۔ میں آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس ملک اور معاشرے میں تبدیلی آنی چاہیے تو وہ کوشش کرتا رہے۔ تبدیلی کی حد تک تو بات ٹھیک ہے کہ کوئی چیز مستقل نہیں رہتی۔ انسان تبدیلی کیلئے کوشش نہ بھی کرے تو بھی قدرت خود ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ یہ بھی ایک پرانی بحث ہے کہ انسان خود حالات تبدیل کرتے ہیں یا پھر قدرت کوئی بندہ تیار کر کے آگے کر دیتی ہے اور وہ ایک طرح تاریخ کا ایجنٹ کہلاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میں کسی کے انقلاب کی تعریف کو کیوں مان لوں اور اپنی ساری توانائی اس انقلاب کو لانے کیلئے کیوں خرچ کروں؟ مجھے اگر انقلاب کا بخار چڑھ گیا ہے تو دیگر سب میرا ساتھ کیوں دیں؟ جو تبدیلی میرے ذہن میں ہے وہ اگر دوسروں کے ذہن میں نہیں ہے تو سب لوگ میرے نزدیک قابلِ گردن زدنی کیوں ہوگئے ہیں‘ صرف اس لیے کہ وہ میرے نظریات کیلئے قربانی نہیں دے رہے۔ اگر کسی نے میرے نظریات کیلئے قربانی دینی ہے تو وہ میں ہوں‘ نہ کہ میرے پڑھنے والے اپنی گردن پیش کریں اور اگر نہ کریں تو میں ان پر تبرا کرنا شروع کر دوں۔
سوشل میڈیا کی دنیا نے بہت سے لوگوں کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ ٹویٹر‘ فیس بک یا انسٹاگرام جیسی ایپس پر لوگوں کو فالو کرنے کا آپشن دیا گیا ہے اور کسی فرد کو سوشل میڈیا پر اگر چند سو لوگ بھی فالو کر لیں تو اسے لگتا ہے کہ میں بہت بڑی توپ چیز بن گیا ہوں۔ مجھے اب سنا جاتا ہے‘ دیکھا جاتا ہے‘ میری باتوں پر واہ واہ‘ بلے بلے کہا جاتا ہے۔ میں ہی اب اس قوم کا مسیحا ہوں جس نے پوری قوم کا بیڑا پار لگانا ہے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو جاتی ہے جب مارکیٹ میں آتے جاتے یا ایئرپورٹس پر چند لوگ اس سے سیلفی کی فرمائش کرتے ہیں اور تعریفوں سے اسے بانس پر چڑھا دیتے ہیں۔ وہ بندہ خود کو کوئی خلائی مخلوق سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ اب تو اپُن ہی بھگوان ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں کوئی توپ بن گیا ہوں جس کا کام حکومتیں بنانا اور بگاڑنا ہے۔ اب آخری بادشاہ میں ہی ہوں۔ پھر وہ ٹی وی؍یوٹیوب پر بدتمیزی کرتا ہے تاکہ یہ لگے کہ بندہ بڑا زبردست اور دلیر ہے۔ اسے لگتا ہے کہ دنیا اب اس کی ہاں اور ناں سے چلے گی۔ اب وہی بتائے گا کہ اس ملک کیلئے کیااچھا اور کیا برا ہے۔ سونے پر سہاگا تو اس وقت ہوتا ہے جب ملک کا وزیراعظم چند اینکرز یا یوٹیوبرز کو بلا کر ان سے حکومت چلانے کیلئے مشورے کرتا ہے۔ وہاں بیٹھ کر لوگ ایسی ایسی بونگیاں مارتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ وزیراعظم اور ان کے درباری بھی ان کی گفتگو سن کر ایسے ایکٹ کرتے ہیں جیسے انہیں بس انہی مشوروں کی ضرورت تھی اور اب دیکھیں وہ کیسے ملک کو ترقی کی معراج پر پہنچا کر دم لیں گے۔ پھر وزیر دن رات میسج کرتے ہیں تاکہ ان کا اچھا امیج بنا کر پیش کیا جائے‘ وزیروں کی فون کالز سے وہ راتوں کو خوشی سے سو نہیں پاتا۔ اور یہیں سے دماغ کی وہ خرابی شروع ہوتی ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ آپ کا کام صحافی ہونے کے ناتے ایک رپورٹر کا ہوتا ہے۔ آپ نے خبر دینی ہے یا تجزیہ کار کا کردار ادا کرنا ہے یا پھر پروگرام ہوسٹ کرنا ہے جس میں مختلف سیاسی نظریات کے لوگوں کی باتیں پبلک تک پہنچانا ہے۔ لیکن آپ خود کو ان لیڈروں سے بھی اوپر کی چیز سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ نے ایسا انقلاب لانا ہے جو سب کچھ الٹ پلٹ کر دے۔ مزے کی بات ہے کہ جس کلاس کے خلاف یہ عام لوگوں کو بھڑکا رہے ہوتے ہیں‘ خود بھی اسی کلاس کا حصہ ہوتے ہیں۔ اگر انقلاب آتا ہے تو سب سے پہلے وِکٹم یہ خود ہوں گے لیکن عام لوگوں کو ایسے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے ان کا ان سے بڑا ہمدرد کوئی نہیں۔
آپ کو یاد ہو تو پرویز مشرف اس لیے دبئی سے پاکستان لوٹ آئے تھے کہ ان کے فیس بک پیج پر دس لاکھ فالوورز ہوگئے تھے۔ انہیں لگا کہ پاکستان دن رات انہیں یاد کررہا ہے۔ انہوں نے واپسی کا اعلان کر دیا۔ اُس وقت کی عسکری قیادت نے انہیں پیغام بھی بھیجا کہ حالات سازگار نہیں‘ آپ واپس نہ آئیں لیکن وہ نہ مانے کہ میرے دس لاکھ فالوورز ہیں۔ پھر سب نے دیکھا کہ ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کیلئے چند درجن لوگ بھی موجود نہ تھے اور پرویز مشرف مرتے دم تک اس بات کو نہ مان سکے کہ سوشل میڈیا فالوورز نے انہیں دھوکا دیا۔ سوشل میڈیا پر فالو کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ لوگ گھر بار چھوڑ کر آپ کیلئے اپنی جان نثار کرنے پر تل جائیں گے۔ کسی کو لائک کرنا ایک بات ہے لیکن اس کیلئے اپنی جان دائو پر لگانا دوسری بات۔
سوشل میڈیا سے نہ صرف صحافیوں کا دماغ خراب ہوا بلکہ کچھ سیاستدانوں کو بھی یہی لگا۔ اوپر سے یوٹیوبرز کی ایک ایسی کلاس پیدا ہو گئی جنہیں لگا کہ انقلاب کی باتوں سے ان کی مالی حالت بدل جائے گی۔ اگر کچھ دن مشکل دیکھنا بھی پڑی تو خیر ہے کہ اب یہ دکان کھل گئی ہے اور چلے گی۔ یوں صحافت سے ہٹ کر جو لہجہ اور زبان اختیار کی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاستی اداروں نے ایف آئی اے کے ذریعے گرفتاریاں شروع کر دیں۔ پہلی دفعہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں ایف آئی اے سائبر وِنگ کا قانون ان کے داماد ایم این اے کیپٹن (ر) صفدر کی قیادت میں اسمبلی کی کمیٹی نے منظور کیا جسے پارلیمنٹ نے قانون کی شکل دی۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو انہیں لگا اس قانون کے دانت بہت کچے ہیں لہٰذا انہوں نے اس قانون کو مزید سخت کر دیا۔ پھر شہباز شریف کو لگا کہ ابھی کسر باقی ہے تو انہوں نے باقاعدہ ایک اتھارٹی بنا دی جس کا اکلوتا کام سائبر کرائم کو دیکھنا اور فکس کرنا ہے۔ اب سوشل میڈیا پر لاکھوں کی فالوونگ والے انقلاب چاہتے ہیں۔ ضرور انقلاب لائیں لیکن اگر کوئی آپ کے انقلاب سے متاثر نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بزدل اور آپ بہت بہادر ہیں۔ آپ نے انقلاب لانا ہے تو اس کیلئے قربانی بھی آپ خود دیں کیونکہ اس انقلاب کے بینی فشری بھی آپ ہوں گے۔ انقلاب کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کیلئے سر دینا بھی پڑتا ہے اور لینا بھی پڑتا ہے۔ یہ انسانی سروں کی تجارت کا کام آپ خود کریں کیونکہ یہ آپ کا انقلاب ہے۔ اپنے اپنے انقلاب کیلئے قربانی آپ خود دیں کیونکہ اس انقلاب سے بڑا ذاتی‘ مالی اور سیاسی فائدہ آپ کو نظر آتا ہے۔ اس میں پاور اور پیسہ نظر آتا ہے۔ آپ اتنے سمجھدار ہیں کہ اس سے پہلے عام لوگ آپ کے خلاف انقلاب لائیں‘ آپ نے انقلاب انقلاب کا نعرہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ وہی بات کہ چور بھی کہے چور چور۔