اُس روز رات گئے ریڈیو اسلام آباد سے واپسی پر آبپارہ سے راولپنڈی جانے والی سنسان اور تاریک ذیلی سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے ایک آسیب نما عورت کو دیکھ کر عرفان بھائی کو سردیوں کی یخ بستہ رات میں پسینہ آگیا۔ اس عورت کا قد سڑک کے کنارے درختوں کے برابر تھا اور اس کے ہونٹوں پر سرخ لپ سٹک تھی۔ اس کے آدھے چہرے کو اس کے سیاہ لمبے بالوں نے چھپا رکھا تھا اور وہ رات کے اس پہر سنسان سڑک پر ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگ رہی تھی۔ خوف کی لہر نے عرفان بھائی کے ہاتھوں کی گرفت سٹیئرنگ پر مضبوط کر دی اور انہوں نے ایکسیلریٹر پر دبائو بڑھا دیا۔ ذرا آگے جا کر انہوں نے بیک مرر سے پیچھے دیکھا۔ وہ عورت اسی جگہ پر کھڑی تھی اور اس کے ہونٹوں پر پُراسرار ہنسی تھی۔ گھر پہنچنے تک وہ بار بار بیک مرر میں دیکھتے رہے کہ کوئی ان کا پیچھا تو نہیں کر رہا۔ پھر انہوں نے سوچا کہ یہ سب کچھ شاید ان کے خیال کی کرشمہ سازی تھی۔ اگلے روز ایک بار پھر معمول کے مطابق وہ رات گئے اسلام آباد ریڈیو سے واپس آ رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح عرفان بھائی نے اسی سنسان ذیلی سڑک کا انتخاب کیا کیونکہ یہ سڑک اسلام آباد سے راولپنڈی آنے کا شارٹ کٹ راستہ تھی۔ آبپارہ سے راولپنڈی جانے والی یہ سڑک رات کے آخری پہر سنسان تھی۔ ہر طرف تاریکی کا راج تھا۔ ایک روز پہلے ہی اس سڑک پر ایک پُراسرار واقعہ پیش آیا تھا جسے عرفان بھائی نے اپنے خیال کی کرشمہ سازی سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا تھا۔ ان کی کار اپنی مدہم ہیڈ لائٹس کے ساتھ اس ویران سڑک پر رواں دواں تھی۔ تب اچانک ان کی نگاہ سڑک کے بائیں طرف گئی‘ جہاں عین اسی مقام پر وہ پُراسرار عورت دوبارہ کھڑی نظر آئی۔ اس کا قد درختوں کو چھو رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر سرخ لپ سٹک تھی۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگ رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر عرفان بھائی کا پورا بدن جیسے سُن ہو گیا لیکن وہ رکے نہیں اور ایکسیلریٹر پر دبائو بڑھاتے گئے۔ انہوں نے بیک مرر میں دیکھا تو انہیں اس عورت کا ہنستا ہوا چہرہ نظر آیا۔ وہ اس سڑک پر عرفان بھائی کا آخری سفر تھا۔ اس کے بعد بھی ایک عرصے تک عرفان بھائی نے ریڈیو پر لیٹ نائٹ پروگرام کیا لیکن کبھی دوبارہ اس سڑک پر سفر نہ کیا۔ یہ واقعہ ہم نے کئی بار ان کی زبانی سنا۔
ریڈیو کیلئے عرفان بھائی نے بلا تکان لکھا۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''تدریس کے دوران میری دوسری بڑی دلچسپی ریڈیو تھا‘ جس کیلئے میں لکھ لکھ کر ہلکان ہو گیا‘‘۔ اب عرفان بھائی کی زندگی میں دن رات کی تمیز مٹ چکی تھی۔ قلم کا تیشہ تھا اور ذمہ داریوں کا پہاڑ۔ میں نے قلم کے اس دیوانہ وار معرکے کو بہت قریب سے دیکھا۔ بہت بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں نوجوان میزبان نے جب عرفان بھائی سے ان کے عہدِ جوانی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں برجستہ جواب دیا ''بیٹا! کون سا عہدِ جوانی‘ ہم جیسے لوگوں کا ایک بچپن ہوتا ہے جو غیر محسوس طریقے سے ادھیڑ پن میں ضم ہو جاتا ہے۔ ہم بچے ہوتے ہیں یا ادھیڑ عمر لوگ۔ ہم جیسوں پہ جوانی کی رُت آتی ہی نہیں کرتی۔ زندگی کے بکھیڑوں اور جھمیلوں سے کتراتی ہوئی کہیں دور نکل جاتی ہے‘‘۔
قلم کی مشقت اپنی جگہ لیکن سچ پوچھیں تو ریڈیو سے ان کا رومانس تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سے ماہ و سال ریڈیو کی اقلیم میں گزارے اور اس کے ایک ایک لمحے کو انجوائے کیا۔ اب ریڈیو کے چمن کی بہت سیر ہو چکی تھی۔ انہیں کسی نئے دلربا آسمان کی تلاش تھی۔ کہتے ہیں ایک تخلیقی شخص کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جلد یکسانیت سے اکتا جاتا اور اسے ہر کچھ عرصے بعد ایک نئے منظر کی تلاش بے چین کر دیتی ہے۔ عرفان بھائی بھی تدریس اور ریڈیو کے بعد کسی اور تازہ آسمان کی تلاش میں تھے‘ جہاں ان کا قلم اپنا جداگانہ نگار خانہ تعمیر کر سکے۔ یہ نیا آسمان صحافت کا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس آسمان پر پہلے ہی کتنے عقاب محوِ پرواز تھے۔ پھر بھی عرفان بھائی نے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی خود اعتمادی ان کی سب سے بڑی قوت تھی۔ وہ جس بات کا ارادہ کرتے‘ پورے یقین کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوتے اور پھر کامیابی ان کے قدم چومتی۔ صحافت کے چمنستان کی طرف پہلا دریچہ تب کھلا جب معرو ف صحافی‘ ہفت روزہ زندگی اور ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے مدیر مجیب الرحمن شامی نے انہیں لکھنے کی دعوت دی۔ یوں عرفان بھائی نے صحافت کی وادی میں پہلا قدم رکھا۔ یہ عرفان بھائی کے تخلیقی سفر کا ایک نیا موڑ تھا۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ''میرا صحافتی زندگی کا باضابطہ آغاز جناب مجیب الرحمن شامی کی قیادت میں ہوا۔ ہفت روزہ زندگی اور قومی ڈائجسٹ کیلئے میں نے شامی صاحب کی راہنمائی میں لکھنا شروع کیا اور اپنے عہد کے اس جری قلم کار اور کہنہ مشق صحافی سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ شامی صاحب نے مجھے حرف وبیاں کا سلیقہ دیا‘‘۔ یاد رہے کہ زندگی ایک خالصتاً سیاسی پرچہ تھا۔ عرفان بھائی نے یہاں سیاسی تجزیے اور اہم لوگوں کے انٹرویوز کیے۔ یہیں سے انہیں سیاست اور سیاستدانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
1990ء پاکستان میں الیکشن کا سال تھا۔ دراصل اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اگست 1990ء میں بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات کے تحت بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے 24 اکتوبر 1990ء کو قومی اسمبلی کے ارکان کے انتخاب کیلئے عام انتخابات کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ انتخاب بنیادی طور پر پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس (PDA) اور اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کے مابین مقابلہ تھا۔ پی ڈی اے کی قیادت سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کر رہی تھیں۔ دوسری جانب اسلامی جمہوری اتحاد تھا‘ جس کی سربراہی نواز شریف کے پاس تھی۔ راولپنڈی کے حلقے NA-55 سے قومی اسمبلی کے امیدوار اعجاز الحق تھے۔ اسی حلقے میں عرفان بھائی کا گھر بھی تھا۔ اس انتخابی مہم کے دوران دونوں کے درمیان تعلقِ خاطر گہری دوستی میں بدل گیا اور یہ ذاتی دوستی آخر دم تک رہی۔ بات ہو رہی تھی اکتوبر 1990ء کے الیکشن کی۔ اس الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد کو کامیابی حاصل ہوئی اور اعجاز الحق بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ اعجاز الحق کو نواز شریف کابینہ میں سمندر پار اور افرادی قوت کا وزیر بنایا گیا۔ الیکشن کی ہماہمی کے بعد عرفان بھائی پھر سے لکھنے کے محاذ پر سرگرم ہو گئے۔ تب ایک دن سمندر پار اور افرادی قوت کی وزارت کی جانب سے انہیں او پی ایف میں ڈائریکٹر ایجوکیشن کی پیشکش کی گئی۔ یاد رہے کہ عرفان بھائی نے 27 برس تک تدریس کی دنیا کی سیاحی کی تھی‘ جس میں اٹھاررہ برس سرسیّد کالج مال روڈ راولپنڈی میں پڑھایا تھا۔ یکم دسمبر 1991ء کو عرفان بھائی نے ڈائریکٹر ایجوکیشن او پی ایف کا عہدہ سنبھال لیا۔ او پی ایف کے تعلیمی ادارے پاکستان اور ملک سے باہر کئی ممالک میں تھے۔ عرفان بھائی نے اپنے دو سالہ دور میں او پی ایف کے تعلیمی اداروں میں بہت سی اصلاحات کیں اور اساتذہ کی بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی برطرف کر دیا اور کابینہ معزول ہو گئی۔ عرفان بھائی نے 3 مارچ 1993ء کو ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا۔ وزارت کے اُس وقت کے سیکرٹری نے عرفان بھائی کو مشورہ دیا کہ آپ استعفیٰ نہ دیں اور اپنا کام جاری رکھیں لیکن عرفان بھائی اپنے فیصلے پر قائم رہے اور اپنا دفتر خالی کر دیا۔ اب زندگی کی رزم گاہ ایک بار پھر بانہیں پھیلائے انہیں اپنی طرف بُلا رہی تھی۔ (جاری)