دسمبر پاکستان میں محض سال کا اختتامی مہینہ نہیں بلکہ یہ فیصلوں‘ حساب کتاب اور اعداد و شمار کی وہ لکیر ہے جہاں ریاست خود اپنی کارکردگی کا احتساب کرتی ہے یا کم از کم کاغذوں میں کرتی نظر آتی ہے۔ سرکاری نظام میں دو کلوزنگز طے شدہ ہیں‘ ایک 31دسمبر‘ دوسری 30جون۔ مگر دسمبر کی کلوزنگ کو ہمیشہ غیرمعمولی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ ریونیو دکھا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ریاستی مشینری متحرک ہے‘ کسٹمز سے رقوم ایف بی آر کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوتی ہیں اور سال کے اختتام سے پہلے معیشت کی بہتر تصویر پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اسی دسمبر میں‘ اسی حساب کتاب کے بیچ کراچی کی بندرگاہوں پر اربوں روپے کا سولر کا سامان گل سڑ رہا ہے۔نہ اس سے ریونیو بن رہا ہے‘ نہ اس کی نیلامی ہو رہی ہے‘ نہ کوئی اور فیصلہ سامنے آ رہا ہے۔ یہ صرف بدانتظامی نہیں بلکہ بے حسی ہے۔ 2023ء میں سولر کے ایک کنٹینر کی اوسط قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے کے لگ بھگ تھی۔ اگر سولر کے کنٹینرز اسی وقت کلیئر ہو جاتے یا آکشن میں چلے جاتے تو اب تک قومی خزانے میں اربوں روپے آ چکے ہوتے مگر اچانک سولر درآمد کنندگان پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگ گئے۔ مختلف افراد پر مقدمات بنے‘ نوٹسز جاری ہوئے‘ اور نتیجہ یہ نکلا کہ کنٹینرز بندرگاہوں پر ہی پڑے رہ گئے۔ وقت گزرتا گیا‘ ٹیکنالوجی بدلتی گئی‘ مارکیٹ میں نئی قسم کے پینلز آ گئے‘ اور آج ان کنٹینرز کی مالیت گھٹتے گھٹتے پچاس لاکھ روپے تک آ پہنچی ہے۔ حکومتی نااہلی کی یہ قیمت براہِ راست قومی خزانے سے ادا ہو رہی ہے۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سولر پینل کوئی عام شے نہیں جسے برسوں پڑا رہنے دیا جائے۔ یہ تیز ی سے بدلتی ٹیکنالوجی ہے۔ جو پینلز آج قابلِ استعمال ہیں چند برس بعد پرانے شمار ہوں گے۔ 2023-24ء میں منگوایا گیا مال آج بھی بندرگاہوں پرپڑا ہے‘ جس کی مارکیٹ ویلیو روز بروز گر رہی ہے۔ اگر فوری نیلامی نہ ہوئی تو یہ سکریپ کی قیمت پر آ جائے گا۔ قومی اثاثہ ریونیو بننے کے بجائے ردی بننے کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قومی اثاثے کا اس حال تک پہنچانا محض اتفاق ہے یا دانستہ پالیسی؟ اور اگر پالیسی ہے تو کس کے مفاد میں؟ یہ معاملہ صرف سولر پینلز تک محدود نہیں بلکہ کنٹینرز جتنا زیادہ وقت بندرگاہ پر کھڑے رہتے ہیں اتنا ہی ڈیمرج اور ڈیٹینشن چارجز بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بھاری رقم یا تو امپورٹر کو پڑتی ہے یا پھر آکشن کی صورت میں قومی خزانے کی متوقع آمدن کو کھا جاتی ہے۔ یعنی ایک طرف حکومت نیلامی نہ کر کے ریونیو سے محروم ہو رہی ہے‘ دوسری طرف بندرگاہ کے چارجز کی وجہ سے اس مال کی ویلیو مزید کم ہو رہی ہے۔ یہ دہرا نقصان عوام کے حصے میں ہی آتا ہے کیونکہ ٹیکسوں کی چھڑی بہر صورت عوام پر برستی ہے۔ گلگت بلتستان میں سو میگاواٹ کے سولر پاور منصوبے کی مثال اس نااہلی کو بے نقاب کرتی ہے۔ ابتدا میں کہا گیا کہ بندرگاہوں پر پڑے سولر کنٹینرز سے اس منصوبے کی ضرورت پوری کی جائے گی‘ اور یوں نہ صرف منصوبہ تیزی سے مکمل ہو گا بلکہ بند پڑے سامان سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکے گا۔ مگر جب جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ آؤٹ ڈیٹڈ مال ہے‘ اس کی افادیت مشکوک ہے۔ اگست میں وزیراعظم کی جانب سے واضح حکم آیا کہ ایک ماہ کے اندر اندر سولر کنٹینرز کی نیلامی کر دی جائے۔ حکم تحریری تھا اور واضح بھی مگر چار مہینے بعد بھی یہ حکم فائلوں میں کہیں دفن ہے اور بندرگاہوں پر سولر پینلز سے بھرے کنٹینرز بدستور کھڑے رہے۔ یہ حکم کی خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟یہاں اصل کہانی کسٹمز اور پی سی اے(Post Clearance Audit) آرگنائزیشن کے درمیان ہونے والی ادارہ جاتی کشمکش ہے جس میں دونوں محکمے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسٹمز کا مؤقف ہے کہ منی لانڈرنگ سے متعلق کیسز چونکہ پی سی اے دیکھتی ہے‘ اس لیے اس کی منظوری کے بغیر آکشن نہیں ہو سکتی۔ پی سی اے کا مؤقف ہے کہ آکشن کسٹمز کا معاملہ ہے‘ وہ کیوں اجازت دے۔ اس چپقلش کا نتیجہ یہ ہے کہ اربوں روپے کا سامان بندرگاہوں پر پڑا سڑ رہا ہے اور کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اندازہ ہے کہ کراچی کی بندرگاہوں پر کھڑے تقریباً ایک ہزار سے زائد سولر کنٹینرزکی مالیت آج تقریباً پچاس ارب روپے ہے۔ اگر یہ کنٹینرز وقت پر آکشن ہو جاتے تو کم از کم سو ارب روپے قومی خزانے میں آ سکتے تھے‘ اور اگر یہ فیصلہ 2023ء میں ہو جاتا تو یہ رقم ڈیڑھ سے دو سو ارب روپے تک جا سکتی تھی۔ یہ وہ پیسہ ہے جو اگر خزانے میں آتا تو کم از کم بجلی کے بلوں میں ریلیف‘ یا صحت و تعلیم کے بجٹ میں اضافہ یا قرضوں کے سود میں کمی کی صورت میں عوام کی زندگی پر اثر ڈال سکتا تھا۔ مگر یہاں الٹا ہو رہا ہے‘ قومی خزانے کو ممکنہ آمدن سے محروم کر کے عوام کو مزید نچوڑا جا رہا ہے۔
قواعد کے مطابق آکشن کا نظام واضح ہے۔ اگر کسی کنٹینر کی آکشن ہوتی ہے اور جس کے پاس اوریجنل بل آف لینڈنگ موجود ہو‘ آکشن کی رقم کا 30 فیصد اس کو واپس ملتا ہے جبکہ 70 فیصد حکومت کے پاس جاتا ہے‘ یعنی حکومت ہر صورت میں بڑا حصہ وصول کرتی ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ آکشن سے اتنا خوف کیوں؟ اگر منی لانڈرنگ کے کیسز زیر سماعت ہیں تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے مگر اس بنیاد پر پورے سسٹم کو مفلوج کر دینا کس کے مفاد میں ہے؟ کیا یہ تاخیر کوئی قانونی مجبوری ہے یا طاقتوروں کی سہولت؟ کیونکہ جس ملک میں چھوٹے تاجر کی غلطی پر فوری ایکشن ہوتا ہے‘ وہاں اربوں کا سامان بندرگاہ پر پڑا رہے اور کوئی جواب دہ نہ ہو تو پھر یہ قانون کی بالادستی ہے یا قانون کا مذاق؟
ایک الزام یہ ہے کہ جب چند بااثر شخصیات سولر بزنس میں داخل ہوئیں تو دیگر درآمد کنندگان پر دباؤ بڑھایا گیا۔ انہیں کوئی ایسا پیغام دیا گیا کہ یا تو مخصوص گروپ کے ساتھ چلیں یا پھر منی لانڈرنگ کے کیسز کا سامنا کریں! یہ آزاد منڈی کا رویہ نہیں‘ یہ اجارہ داری قائم کرنے کا طریقہ ہے۔ حکومت ایک طرف آئی پی پیز کے معاہدوں پر بات کرتی ہے‘ دعویٰ کرتی ہے کہ بجلی سستی کی جا رہی ہے‘ عوام کو ریلیف ملے گا۔ دوسری طرف سولر کے شعبے کو عملی طور پر مفلوج کر دیا گیا ہے۔ سولر کے فروغ سے عوام کو سستی بجلی حاصل ہوتی‘ قومی گرڈ پر دباؤ کم ہوتا اور آئی پی پیز کے مہنگے معاہدوں کی گرفت ڈھیلی پڑتی مگر یہاں الٹ ہو رہا۔ سولر آؤٹ ڈیٹڈ‘ امپورٹرز پھنسے ہوئے‘ کنٹینرز سڑ رہے ہیں اور نتیجہ یہ کہ وہی پرانا مہنگا نظام مضبوط ہو رہا۔ یعنی ایک طرف قوم مہنگی بجلی کے شکنجے میں‘ دوسری طرف متبادل توانائی کے راستے پر بھی تالا۔ یہ ایک ایسے نظام کی جھلک ہے جہاں نقصان ہمیشہ قومی خزانے اور عوام کا ہوتا ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم اور ملکی معاشی تصویر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت کسی بھی معاملے میں سنجیدہ نہیں‘ صرف دعوؤں‘ اعلانات اور بیانات تک محدود ہے اور جہاں تک ہو سکتا ہے طاقتوروں کو نوازا جا رہا ہے۔
گزشتہ دو برسوں میں معاشی گروتھ کا پیمانہ ہی ٹوٹ چکا۔ کہیں معاشی گروتھ نظر نہیں آ رہی‘ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری نے پاکستان کی معیشت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کاروباری شخصیات پریشان ہیں‘ سوالات اٹھا رہی ہیں اور حکومت خود بھی پریشان دکھائی دیتی ہے۔ سرمایہ کار کا ریاست پر اعتماد ایسے ہی نہیں ٹوٹتا‘ یہ تب ٹوٹتا ہے جب بندرگاہوں پر اربوں کا مال سڑتا رہے اور کوئی جوابدہ نہ ہو۔ کاروباری شخصیات بار بار وزیراعظم اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرکے آگاہ کرتی ہیں مگر حکمران شاید یہ سمجھتے ہیں کہ معیشت تقریروں سے چلتی ہے۔ اور جب اقتدار ہی مقصد بن جائے تو فیصلے فائلوں میں دفن ہو جاتے ہیں‘ بندرگاہوں پر کنٹینرز پڑے سڑ جاتے ہیں‘ قومی خزانہ خالی ہو جاتا ہے اور قوم کو آئی ایم ایف کے دروازے پر لا کھڑا کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال صرف سولر تک محدود نہیں‘ یہ اس نظام کی تصویر ہے جو بروقت فیصلوں سے ڈرتا ہے اور نقصان برداشت کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔