یہ اسلامی جمہوریہ کا کمال ہی سمجھنا ہو گا کہ آسمانوں کے فضل سے یہاں کوئی اتنی چیزیں تیار ہی نہیں ہوتیں جن پر ٹیرف لگے اور ہمیں محسوس ہو۔ ہنر دیکھئے ہمارا کہ لے دے کے ایک ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے‘ کچھ چمڑے کے کارخانے اور کچھ کھیلوں کا سامان جو سیالکوٹ میں تیار ہوتا ہے۔ ان چیزوں پر اب کیا ٹیرف لگے گا اور کیا اثر یہاں ہو گا۔ ٹیکسٹائل پہ ٹیرف لگے تو فیصل آباد کی فیکٹریوں پر کچھ اثر پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ دو چار فیکٹریاں بند ہو جائیں گی‘ کچھ اور مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔ بے روزگاری سے تو ہم اچھی طرح آشنا ہیں‘ اُس میں کچھ اضافہ ہو جائے تو ہماری صحت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑنے کا۔ ویسے بھی ہم جیسے گناہگاروں کی زندگی ایسی رہی ہے کہ ہم تو بے جا ٹیرفوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ امریکی ٹیرف ہم پہ کیا لگنے ہیں‘ ہم تو پارسائی کے ٹیرف سہہ رہے ہیں۔ سوچئے نا‘ جو ہماری خرید کی کچھ خاص دوائیاں ہیں ہم جو مڈل مینوں کے ذریعے رقمیں ادا کرتے ہیں ایسے ریٹ تو آپ کو دنیا بھر میں کہیں نہ ملیں۔
حساب کر کے اپنی روداد کیا سنائیں۔ سکاٹ لینڈ کی جرسیاں یا اونی کپڑا بھلے وقتوں میں خرید لیا کرتے تھے لیکن زکام وغیرہ کے لیے جو سکاٹ لینڈ کی اشیا ہم خریدنے پر مجبور ہیں‘ آپ کو پتا ہے کہ اُس کے لیے ہمیں کتنی قیمت بھرنی پڑتی ہے؟ بائیس ہزار کا ٹیکہ ہمیں لگ جاتا ہے۔ کہاں کا یہ انصاف ہے؟ ہمارے منصف کس کام کے‘ اس کھلے عام ڈکیتی کا ازخود نوٹس لینا چاہیے یا نہیں؟ اس کے اوپر ظلم یہ کہ استعمال کرنے تک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو ساغر ومینا میں۔ ہم تو پارسائی کا ایسا مارا ہوا معاشرہ بن چکے ہیں کہ شاعری برباد ہو کے رہ گئی ہے۔ ساغر کا کیا مطلب اور مینا کا کیا مفہوم۔ مے کدے کا لفظ استعمال کرنا ہو تو سوچنا پڑتا ہے کہ نازک مزاجوں پر گراں نہ گزرے۔ عمر خیام کی شاعری کا حوالہ دیتے ہوئے یا غالب کی کسی غزل سے الفاظ اٹھانے ہوں پھر بھی سوچنا پڑتا ہے کہ بات کا غلط مطلب تو نہیں لیا جائے گا۔ صنم کدے کا لفظ استعما ل کریں اُس پر پریشانی‘ راہِ الفت کی بات کریں پھر بھی خیال کہ غلط تو نہیں سمجھا جائے گا۔
ان خود ساختہ قدغنوں کے اوپر یہ کہ جب سے بھٹو صاحب کا اسلام وسط اپریل 1977ء میں نافذ ہوا تو یوں سمجھئے کہ ہم جیسے بے شمار ٹیرفوں کی زد میں آنے لگے۔ بھٹو صاحب کے بعد ضیا صاحب کا اسلام نافذ ہوا اور اُس سے ہر چیز کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ وہ نفاذِ اسلام تو ایسا رہا کہ پاکستان پھر مُڑ کر پیچھے نہ دیکھ سکا۔ حکمران بھی دیکھیں ہمیں کیسے نصیب ہوئے۔ پرویز مشرف آئے اور گو اُن کی عاداتِ شب ہم جیسوں سے ملتی جلتی تھیں‘ اُن کے دور میں تھوڑی ڈھیل ڈھال تو پیدا ہوئی لیکن جو اُنہیں کرنا چاہیے تھا اُس کی اُنہیں ہمت نہ ہوئی۔ پارسائی کے قانون کو سرے سے واپس لیتے۔ اقتدار کے پہلے دو سالوں میں اُن سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ سیاسی جماعتوں کی جان نکلی ہوئی تھی اور بولنے کی ہمت نہ (ن) لیگ میں تھی نہ پیپلز پارٹی میں۔ مولوی حضرات متحدہ مجلسِ عمل کی صورت میں ویسے ہی جنرل صاحب کے حمایتی تھے۔ اُنہیں رام کر لیا جاتا اور علامہ طاہر اشرفی جیسے ہمارے کسی دوست سے مشورہ کرکے مناسب فتویٰ جاری کروا دیا جاتا‘ جس سے بھٹو صاحب اور ضیا صاحب کے پارسائی کے قوانین میں کچھ نرمی آ جاتی اور یہاں کے عوام کچھ سکھ کا سانس لیتے۔ لیکن جنرل صاحب نے بھی اپنی شامیں تو رنگین رکھیں اور ظاہر ہے رسد اور طلب کا اُنہیں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا ہو گا۔ لیکن قوم کی عمومی صحت اور خوشحالی کے لیے جو کچھ وہ کر سکتے تھے‘ جیسا عرض کیا‘ اُس کی اُنہیں ہمت نہ ہوئی۔
ہمارا مدعا بڑا سادہ سا ہے۔ قوم کے ساتھ نالائقی اور خود غرضی نے جو کچھ کیا ہے اُسے تو ہم جیسے روک نہیں سکتے۔ مطلب یہ کہ ہماری حکمرانی ایسے ہی چلنی ہے تو اُس کا ہم کیا کریں۔ البتہ اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ بربادی اپنی جگہ لیکن اسلامی جمہوریہ کے طور طریقے تو کچھ بدل جائیں اور اس گھٹن زدہ معاشرے کی گھٹن میں تھوڑی کمی آ جائے۔ یہ کیا ہوا کہ قوم کا ستیاناس بھی کرنا ہے اور قوم کا گلا بھی گھونٹنا ہے۔ بربادی بہت دیکھی اور بھگتی‘ لیکن کوئی بات نہیں‘ اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ لیکن اجتماعی نکما پن اپنے عروج پر ہو اور ہر وقت پارسائی کے وعظ سننے پڑیں‘ یہ سراسر زیادتی ہے۔ یعنی زخم نصیب میں لکھے ہوں کوئی بات نہیں‘ لیکن اُن پر نمک پاشی تو نہ کی جائے۔ قوم کے ساتھ جو کرنا ہے ضرور کیجئے لیکن قوم کی عقل کا اتنا مذاق تو نہ اڑائیں۔ ہماری یہ استدعا کیا کوئی اتنی ناجائز ہے؟
ایسا ہرگز نہیں کہ پاکستان میں شباب ونشاط کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ جہاں فروانی ہے وہاں بہت فروانی ہے لیکن معاشرے کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اونچ نیچ کا فرق بہت بڑھ چکا ہے۔ وہ جو ذکر بائیس ہزار روپے کا ہوا ہے وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر ادا کرنا پڑتے ہیں۔ پراپرٹی کا کاروبار ہم کرتے نہیں اور قسمت کو روتے ہیں کہ سمگلنگ کا ہنر آیا نہیں۔ نہیں تو عیش کدے ایسے کھلتے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے۔ ہم تو جیسے بھی ہے اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اُن وقتوں میں بڑے ہوئے تھے جب سکاٹ لینڈ کی صحت افزا دوائیاں مل جایا کرتی تھیں۔ زندگی میں کِیا بھی کیا ہے؟ کچھ کتابیں پڑھ ڈالیںاور کچھ شاموں کی یادوں کے انبار گھر میں ادھر اُدھر پڑے ہوں گے۔ آسانیوں کے طلبگار ہیں تو انہی چیزوں میں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ کا عجیب دستور بن چکا ہے‘ کوئی عیب ایسا نہیں جو وافرمقدار میں یہاں نہ ملے لیکن پارسائی کی چادر بھی اُوڑھنی ہے اور وعظ بھی جاری رہنے ہیں۔
پارسائی کے اونچے میناروں سے کوئی پوچھے کہ جو پابندیاں یہاں پہ لگی ہوئی ہیں اُس کے بعد تو یہ دودھ میں دھلا ہوا ملک ہوتا۔ دنیا آتی اور اَش اَش کرتی کہ کیا سیدھا ملک ہے‘ کتنے ایماندار اس کے لوگ ہیں اور کیا خلیفہ نما اس کے حکمران ہیں۔ لیکن بے ایمانی اتنی کہ سمجھ نہیں آتی کہ بے ایمانی کا ذکر کہاں سے شروع اور کہاں پر ختم ہو۔ یعنی اتنی فرضی پارسائی کہ منافقت بھی دیکھے تو شرما جائے۔
بات تو امریکی ٹیرفوں سے شروع ہوئی تھی اور ہم نے سمجھانے کی یہ کوشش کی کہ ہم تو ٹیرفوں کے اتنے مارے ہوئے ہیں کہ چھوٹی موٹی چیزوں کا ہم پر کیا اثر۔ سوچ یہ بھی آتی ہے کہ جس ملک میں پینے کا صاف پانی نہ ملے‘ صاف مے کی خواہش عجیب سی لگتی ہے۔ پورا شہر ڈھونڈ ماریں تو صاف دودھ نہیں ملتا اور فیکٹریوں میں تیار دودھ پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ اور ہم رونا رو رہے ہیں دو نمبر شاموں کا۔ پانی کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ بہت سے لوگ گاؤں بھی جائیں تو بوتل کا پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ حالت اس ملک کی ہم نے بنا ڈالی ہے۔ یہ بھی سوچا جائے کہ جہاں ہر طرف دو نمبری چل رہی ہو وہاں کیسے ممکن ہے کہ عباداتِ شب میں دو نمبری نہ آئے؟ پھر غنیمت ہے اُن مہربانوں کی صورت میں کہ بیس بائیس ہزار جیب سے جائیں اور ایک نمبر کی شام ممکن ہو جائے۔ ہم اُن کو پھر بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے اپنے دکھڑے‘ ہمارے اپنے ہیں۔