"AYA" (space) message & send to 7575

ایک تاریخ ساز خطاب

23 مارچ کو ہم یومِ پاکستان اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن تخلیقِ پاکستان کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہوا تھا۔ اور سچ پوچھئے کہ اس بار خطاب فرما کر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اپنا حق ایسا ادا کیا کہ تاریخ کے اوراق میں یاد رکھا جائے گا۔ خطاب نے ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں ہماری قوم کے سپوت بستے ہیں ہر اُس جگہ سے ایسا ردِعمل آیا ہے کہ یقین پختہ ہو گیا کہ جن ترقی کی راہوں پر پاکستان گامزن ہے اسے اب کوئی خلل نہیں پڑ سکتا۔ پریڈ اس دفعہ کچھ محدود کر دی گئی اور اس کا انعقاد ایوانِ صدر کے اندر ہی ہوا لیکن سٹیج پر جو قائدین بیٹھے تھے‘ جب ان پر کیمرہ جاتا تو صاف پتا چل رہا تھا کہ صدرِ محترم کے الفاظ حاضرین پر کتنا گہرا اثر چھوڑ رہے ہیں۔
چیف جسٹس منیر جنہوں نے نئی آئینی تشریحات کا سلسلہ پاکستان کی تاریخ میں شروع کیا آخری عمر میں اُنہوں نے ایک کتاب لکھی ''From Jinnah to Zia‘‘۔ اپنے بارے میں تو کچھ نہ کہا لیکن مذہب کے حوالے سے جو بے اعتدالیاں جنرل ضیا کے دور میں معاشرے میں پیدا ہوئیں اُن کے بارے میں کافی کچھ لکھا۔ یہ تو تب کی کتاب تھی‘ اُسی پیرائے میں آج کے حالات دیکھتے ہوئے ایک اور کتاب لکھی جا سکتی ہے ''From Jinnah to Zardari‘‘۔ یہ عنوان ہی پاکستان کے بے مثال ارتقا وترقی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس گانے کا پہلے بھی حوالہ دے چکا ہوں ''عجیب ہے زندگی کی منزل‘ کہاں چلے تھے کہاں پہ آئے‘‘۔ جذبا ت سے ہٹ کر ہمیں ٹھنڈے دل سے موازنہ کرنا چاہیے۔ جناح صاحب اپنے زمانے کی عکاسی کرتے تھے اور یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ زرداری صاحب آج کے پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ 23 مارچ کے حاضرین پر اُن کے الفاظ کا اثر تو ہوا ہی ہوگا لیکن اس تناظر میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ جب صدرِ محترم اپنے حالیہ دورۂ چین پر گئے تھے تو اُن کی شخصیت اور اُن کے الفاظ کا اثر چینی قیادت پر کیا پڑا ہوگا۔ جیسے ہماری قوم اُن کا خطاب سن کر حیرت میں ڈوب گئی شاید چینی قیادت اور خاص طور پر صدر شی جن پنگ کا بھی یہی حال ہوگا۔
جب ہمارے عالم فاضل زُعما کہتے تھے کہ پاکستان بے وجہ نہیں بنا اور اس کے بننے میں اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص حکمت تھی تو بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ لیکن اب جو ہماری عمر تھوڑی زیادہ ہوئی ہے اور پاکستان میں جاری وساری کرشمات کو دیکھتے ہیں تو اب سمجھ آتی ہے کہ واقعی ایسا ملک بے مقصد نہیں بن سکتا‘ اس کے معرضِ وجود میں آنے کے پیچھے یقینا کوئی بڑی حکمت عملی ہو گی۔ قراردادِ پاکستان کے دن صدرِ محترم کی جامع کارکردگی نے اس خیال کو یقین میں بدل دیا ہے کہ ضرور کوئی خاص مقصد ہی ہو گا۔ شکریہ اُس بندوبست کا جس نے پاکستان کو یہ خاص حکمرانی بخشی ہے۔ قدرت کی مہربانیوں کا احساس کسی ایک شخص کی کارکردگی سے ظاہر نہیں ہوتا۔ حکمرانی کے اس سارے بندوبست پر نظر دوڑائی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ بھی مولا کے رنگ ہیں کہ کون کہاں بیٹھا ہے اور اس خوش نصیب ملک کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اس وقت جو بھی بیٹھے ہیں اور جہاں بھی بیٹھے ہیں ایک خاص پروگرام اور ایک نقشے کے تحت ہی یہاں تک آئے ہیں۔ اس لیے اگر قوم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان ستاروں کو بھگت رہی ہے اور ان کے کارناموں سے لطف اندوز ہو رہی ہے تو شکر پھر تخلیق کاروں کا بنتا ہے جنہوں نے اس سارے نقشے کو ترتیب دیا۔ یقینا صدرِ محترم کا خطاب سن کر قوم کے مہربانوں نے سکھ کا گہرا سانس لیا ہوگا اور اپنی مردم شناسی پر خود کو داد دی ہوگی۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں ایک ہی خطاب ہے جس سے صدر زرداری کی تقریر کا کچھ موازنہ کیا جا سکتا ہے‘ سقوطِ ڈھاکہ کے ایک دن بعد جو جنرل یحییٰ خان نے قوم سے خطاب فرمایا تھا۔ لڑکھڑائے ہوئے لہجے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ صدر صاحب کی رات کسی اپنی ہی کیفیت میں گزری ہے۔ دشمن کو للکارتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ایک لڑائی ہاری ہے جنگ جاری رہے گی۔ للکار تو دی لیکن اُسی دن جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔ میرا غلط مطلب نہ لیا جائے‘ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ وہ کیفیت اور یہ والی کیفیت ایک ہی طرز کی تھی۔ لیکن اتنا تو ہے کہ سامنے کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر کے تمام الفاظ زبان کی گرفت میں صحیح طریقے سے نہیں آ رہے تھے۔ پر مولا کے رنگ ہیں اور مولاکے فیصلے‘ ان کے سامنے ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں۔
بہرحال کوئی یہ نہ سمجھے کہ پاکستان کے ساتھ جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔ اب بھی بہت کسر باقی ہے۔ قیاس یہی ہے کہ صدرِ محترم اپنی ذات تک اکتفا نہ کریں گے کیونکہ منصوبہ بندی یہ لگتی ہے کہ خوش قسمت ملک کا اگلا وزیراعظم خاندان سے ہی لگانا ہے۔ سوچا جائے تو یہ غیر ممکنات میں سے نہیں۔ اگر محترم زرداری صاحب اس ملک کے دو بار صدر لگ سکتے ہیں تو عزیزم بلاول وزیراعظم کیوں نہیں ہو سکتے؟ اور جہاں محترم شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ سنبھالے قومی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور پنجاب کی حکمرانی بھی قابلِ قدر ہاتھوں میں ہے تو کون سی چیز ہے جو ہمارے کرشماتی ملک میں نہیں ہو سکتی؟
منفی سوچ کا کوئی علاج نہیں اور ایسے ذہنوں کی کمی نہیں جو قوم کو ڈراتے پھرتے ہیں۔ دو تین ہی پرابلم ہیں باقی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ کے پی میں فتنہ الخوارج ہے جسے جہنم واصل کیا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تو بہت کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن فتنہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ سرکاری بیانات پر جایا جائے تو صحیح طور پر پتا بھی نہیں چلتا کہ فتنہ ختم کرنے کیلئے کون سی حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ بلوچستان میں ایک اور قسم کا فتنہ جاری ہے اور گو اُسے ابھی تک کوئی نام نہیں دیا گیا اُسے فتنۂ بلوچی کہا جا سکتا ہے۔ ہم جیسوں نے تو سمجھا تھا کہ اُس پر کنٹرول پا لیا جائے گا لیکن صرف خبروں پر ہی جایا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ فتنہ زور پکڑ رہا ہے۔ اس سے کیسے نمٹنا ہے یہ بھی اب تک واضح نہیں ہوا۔ پھر ایک اور کمبخت فتنہ ہے جسے سلسلۂ عمرانیہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہڈی ہے جو قوم کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے‘ نہ نگلی نہ اُگلی جا رہی ہے۔ اس کے بارے میں بھی کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ کرنا کیا ہے۔ ان تین روشوں کو فتنے کا نام دیا جائے یا کچھ اور‘ قوم ان کی گرفت میں جکڑی ہوئی ہے اور کم از کم عام آدمی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے چل کر ہوگا کیا۔ ایسے میں صدرِ محترم کی ولولہ انگیز تقریر‘ اُسے سن کر یہی کہا جائے گا کہ آسمانوں کے رنگ اپنے ہیں۔
تخلیقِ پاکستان کے حوالے سے ایک خیال اُٹھتا ہے‘ کیا بانیانِ پاکستان کے خواب وخیال میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ اس ملک کے ساتھ یہ ہوگا؟ جنہیں ہم ازلی دشمن سمجھتے ہیں اُنہوں نے تو اپنے ملک کا کچھ نہ کچھ بنا لیا لیکن ہم جو کہتے آئے ہیں کہ یہ ملک کسی خاص مقصد کیلئے بنا تھا‘ ہم اتنے بیکار کیوں نکلے؟ کچھ وجہ تو ہو گی لیکن اُن وجوہات میں ہم کیوں نہیں جاتے؟ کہانیوں پر ہی گزارا کرتے رہیں گے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں