اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ایسا رعب عطا فرمایا تھا کہ ایک مہینے کی مسافت پر دشمن آپ سے خوفزدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے خود ارشاد فرمایا: نصرت بالرعب۔ یعنی اللہ نے رعب سے میری خصوصی مدد فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری) آپﷺ کو معلوم ہوا کہ قیصر روم بڑے لائو لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو آپﷺ نے اس کے مقابلے کے لیے صحابہ کرامؓ کو تیار کیا۔ جونہی آپﷺ مدینہ منورہ سے نکلے تو دنیا کی نام نہاد سپر طاقت کا حکمران اپنی فوجوں سمیت واپس بھاگ گیا۔ آپﷺ نے تبوک کے مقام پر چالیس دن تک قیام کیا مگر دشمن کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔ یہ انعامِ ربانی آپﷺ کے صحابہ کو بھی منتقل ہوا اور چند سالوں میں دنیا نے دیکھ لیا کہ سپر طاقت صرف اللہ ہے۔
ابنِ اسحاق مزید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ثقہ راویوں کی زبانی حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت سنی ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والی ہر فتح پر وہ کہا کرتے تھے: ''جتنے علاقے بھی چاہو فتح کرتے چلے جائو۔ خدا یہ فتوحات مبارک کرے۔ مدینہ سے لے کر اقصائے عالم تک اور آج کے دن سے یومِ قیامت تک جتنے علاقوں پر بھی تم فتوحات کے پرچم لہرائو گے ان سب کا حال اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کو بتا دیا تھا۔ مالکِ ارض و سما نے ان علاقوں کی چابیاں اپنے نبی کو عطا فرما دی تھیں‘‘۔ (بحوالہ سنن نسائی‘ المعجزات المحمدیہ‘ اردو ترجمہ: معجزاتِ سرور عالمؐ‘ سیرۃ ابن ہشام‘ المغازی للواقدی‘ البدایہ والنھایہ)
خندق کی کھدائی کے دوران رونما ہونے والے اس عظیم الشان معجزے پر سبھی صحابہ کرامؓ مطمئن تھے اور ان کے ایمان ویقین میں اس سے اضافہ ہوا تھا مگر منافقین نے سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس پر خندۂ استہزا سے اپنے جرائم میں اضافہ کر لیا تھا۔ صحابہ کے اندر ایمان اور عمل‘ ظاہر اور باطن‘ عبادت اور معاملات غرض ہر پہلو سے یک رنگی تھی۔ انہوں نے جو کہا‘ وہی کیا‘ جو مانا اسے ہی حق جانا اور جدوجہد سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ آج ہم محض گفتار ہیں‘ کردار نہیں۔ یہی کمی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہی خالق آج بھی اپنے انعامات سے نوازنے میں کیوں دیر کرے گا۔
نبی کریمﷺ نے امت کو بشارتیں بھی سنائیں اور آنے والے ادوار میں پیش آمدہ خطرات کی نشاندہی بھی کی۔ بلاشبہ یہ خطرات بیرونی بھی ہوتے ہیں لیکن اندرونی ضعف وکمزوری بھی ان خطرات کو دعوت دینے کا سبب بنتی ہے۔ آنحضورﷺ نے امت کو ان خطرات سے متنبہ کیا تاکہ وہ بیدار رہے اور ایسے مہلک خطرات کا تدارک کر سکے۔ ایک مرتبہ آنحضورﷺ صحابہ کرام سے خطاب فرما رہے تھے‘ جس میں آپﷺ نے کہا: ''ایک دور آئے گا‘ جب دنیا کی قومیں تمہارے اوپر یوں چڑھ دوڑیں گی‘ جس طرح بھوکے لوگ دسترخوان کی طرف ہجوم کرتے ہیں‘‘۔ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا: ''کیا ہماری قلتِ تعداد کی وجہ سے یہ بُرا دن آئے گا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ''نہیں! بلکہ تعداد میں تم بہت زیادہ ہو گے مگر تم یوں بے وزن ہو جائو گے‘ جیسے سیلاب کی جھاگ اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت اور رعب ختم کر دے گا اور اللہ تمہارے دلوں میں (تمہاری بدعملیوں کی وجہ سے) وھن (ضعف) پیدا کر دے گا۔‘‘ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا: ''یا رسول اللہﷺ وھن کیا ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ''دنیا سے محبت اور موت سے کراہت اور خوف۔ (سنن ابودائود)
آج ہم دنیا کا نقشہ دیکھتے ہیں تو عجیب تصویر سامنے آتی ہے۔ امت مسلمہ تعداد کے لحاظ سے دو ارب کے لگ بھگ ہیں‘ یعنی دنیا کا ایک چوتھائی۔ وسائل کے لحاظ سے بھی مالامال ہے اور کرہ ارض پر پانچ درجن کے لگ بھگ مسلم ممالک کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ اس سب کچھ کے باجود امتِ مسلمہ کا کوئی وزن محسوس نہیں ہوتا۔ سبب اس کا واضح ہے۔ امت دنیا کی محبت میں گرفتار اور موت سے خوف اور ناگواری اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت بھی ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کی یہ لذتیں عارضی ہیں اور موت کو ایک لمحے کے لیے بھی ٹالا نہیں جا سکتا۔ اس مرض کا علاج وہی ہے جو امامِ حرم نبوی حضرت مالکؒ بن انس نے بیان فرمایا تھا کہ اس امت کا پچھلا حصہ بھی اسی نسخے سے شفا پائے گا‘ جس سے فیض یاب ہوکر اس کا پہلا حصہ سرخ رُو ہوا تھا۔ وہ ہے رجوع الی اللہ اور اتباعِ قرآن و سنت۔ اللہ کی نصرت آج بھی منتظر ہے کہ یہ امت خود کو اس کا مستحق بنا لے۔
حضور اکرمﷺ کا ہر ارشاد نورِ ہدایت کا منبع ہے۔ آپﷺ نے حیاتِ دنیا کے آخری لمحات میں جو نسخۂ کیمیا اور آبِ حیات اس امت کے سپرد کیا‘ اس کا تذکرہ اکثر ہوتا رہتا ہے مگر اس کے مطابق امت نہ انفرادی معاملات کو چلارہی ہے نہ نظامِ اجتماعی میں اس کا کوئی اہتمام کیا جا رہا ہے۔ آنحضورﷺ کا ارشاد ہے: ''میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں‘ تم کبھی گمراہ نہ ہو گے‘ جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے‘ جان لو یہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے‘‘۔ (موطا امام مالک‘ مستدرک حاکم)
آنحضورﷺ نے لفظ 'تمسک‘ استعمال فرمایا‘ جس کا مفہوم ہماری زبان میں محض تھامنے اور پکڑ لینے کے ترجمے سے پورا نہیں ہوتا۔ اس کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی اس چیز سے ہمیشہ وابستہ رہے‘ اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے‘ وہاں سے جو صدا آئے‘ اس کے مطابق جواب دے اور اس سے سرِمو انحراف نہ کرے۔
آنحضورﷺ نے جو دو چیزیں امت کے سپرد کیں وہ اللہ کی کتاب اور آپﷺ کی سنتِ مطہرہ ہے۔ امت کی بدنصیبی یہ ہے کہ قرآن کو ایک مقدس کتاب تو سمجھا جاتا ہے مگر اسے غلاف میں لپیٹ کر طاقِ نسیاں پہ رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے اوامر ونواہی پرعمل کرنا قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ جہاں تک سنت کا معاملہ ہے‘ بدقسمتی سے ایک ایسا منظم گروہ وجود میں آ چکا جو شاطرانہ انداز میں اس کی حجیت کو مشکوک بنانے میں کوشاں ہے۔ گمراہ حاکم قرآن وسنت کی عائد کردہ پابندیوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسے عناصر کی سرپرستی کرتے رہتے ہیں۔ امت جب تک قرآن کی تشریح سنت کی روشنی میں نہ سمجھے گی‘ اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی اور جب تک ہم اپنا پورا نظام قرآن وسنت کے تابع نہ کر لیں گے‘ ذلت وپستی سے نکلنے اور گمراہی سے بچنے کی کوئی سبیل پیدا نہ ہو سکے گی۔ آئیے عہد کریں کہ ہم اپنی اصل کی طرف خود بھی لوٹیں اور اپنی نوجوان نسل کو بھی اسی جانب مائل کریں۔اہل غزہ نے سنتِ رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے پوری دنیا کو اسلام کی عظمت کا منظر دکھا دیا ہے۔ ہمیں پوری امت میں یہ سبق عام کرنا چاہیے کہ عزت اسلام کی طرف رجوع کرنے میں ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت دنیا میں اسلامو فوبیا نے ادھم مچا رکھا ہے۔ اسلام کے خلاف مشرق ومغرب میں ہر جانب اسلام دشمن قوتیں جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے دین حق کو بدنام کرنے میں مشغول ہیں۔ ایسے میں نوجوان نسل کو اپنی اصل کے ساتھ جوڑنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جہاں بہت سے چیلنج درپیش ہیں وہاں یہ بات بھی باعثِ اطمینان ہے کہ نوجوان نسل کی بڑی تعداد اسلام کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ مسجدوں کے اندر نوجوانوں کی بہار دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل اسلام کا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے