ظلم کے بدلے عفو ودرگزر!

اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق میں سے محمد رسول اللہﷺ سب سے عزیز ہیں۔ اللہ کے بعد آپﷺ ہی کا درجہ بلند ترین ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا:
یا صاحب الجمال و یا سید البشر؍ من وجھک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہٗ؍ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
انسان کی طبیعت میں اللہ نے نرمی وگرمی‘ غصہ ومحبت‘ شیرینی وتلخی اور حلم وسختی‘ عفو ودرگزر اور بدلہ وانتقام کا خوب امتزاج پیدا کیا ہے۔ یہ سارے جذبات ہر باشعور‘ ذی ہوش بنی نوع آدم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر توازن‘ انسانی شخصیت کا حسن کہلاتا ہے اور ان میں سے منفی جذبات کو کنٹرول کرکے مثبت جذبات کو پروان چڑھانا‘ حسن وجمال اور معراج وکمال کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ صفات بہت عظیم اور یہ کام بہت اچھا ہے مگر مشکل بھی ہے۔ اس میں بڑی محنت بھی لگتی ہے اور یہ رتبۂ بلند اسی کو ملتا ہے جسے خدا بخشے۔ اللہ کی توفیق کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا اور یہ بھی اسی کو حاصل ہوتی ہے جو اس کا طلب گار ہو۔
غصے کو پی جانا‘ عفو ودرگزر کو زندگی کا معمول بنا لینا اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا بڑے نصیب والوں کا کام ہے۔ یہ متقین کی علامت اور اہلِ جنت کی صفت کے طور پر قرآن میں یوں بیان ہوئی ہے: ''دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘ اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘ خواہ بدحال ہوں یا خوشحال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ (آلِ عمران: 133 تا 134)
رسول اللہﷺ غصے کو پی جانے والے‘ عفوودرگزر کے دریا بہانے اور احسان و دہش کی بارش برسانے والے عظیم انسان تھے۔ آنحضورﷺ کی زندگی میں جو مشکل ترین لمحات آئے‘ ان میں ایک واقعۂ افک بھی ہے۔ اس واقعہ میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر جو بہتان باندھا گیا تھا اس کی وجہ سے آنحضورﷺ ایک مہینے سے زیادہ سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ ربِ کائنات نے سیدہ صدیقہ بنت صدیقؓ کی پاک دامنی و پاکیزگی کو وحیِ ربانی کے ذریعے سے ثابت کردیا۔ آپﷺ نے اس واقعے میں ملوث لوگوں میں سے انہی پر حدِ قذف جاری کی جن کے خلاف شہادتیں دستیاب تھیں۔ رہے وہ لوگ کہ جن کے خلاف کوئی شہادت ثابت نہ ہو سکی‘ انہیں ان کے جرم کے باوجود آپﷺ نے انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ وہ اپنی اخروی سزا تو یقینا اللہ کے ہاں روزِ محشر پائیں گے مگر دنیا میں وہ سزا سے بچ گئے۔
اس واقعہ میں آنحضورﷺ کا قانونِ ربانی کی پابندی و احترام بھی سامنے آتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بہت بردبار‘ حلیم الطبع اور غصہ پی جانے والے حکمران کی تصویر بھی نمایاں ہو کر ابھرتی ہے۔ کسی بھی حکمران کے لیے سب سے اہم خصوصیت یہی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کرے اور ذاتیات سے بالا تر رہ کر عدل و انصاف کی مثال بن جائے۔ اس لحاظ سے نبی رحمتﷺ کا اسوہ بے مثال ہے۔ واقعۂ افک میں پھسل جانے والے مخلص صحابہ میں سے تین نام سامنے آتے ہیں۔ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت مسطح بن اثاثہؓ اور حضرت حمنہ بنت جحشؓ۔ حضرت مسطحؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے قریبی عزیز تھے اور ان کی غربت کی وجہ سے جناب صدیق اکبرؓ ان کی مالی معاونت بھی فرمایا کرتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم کھالی کہ آئندہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے۔ اس پر اللہ نے سورۃ النور کی آیت: 22 میں عفوو درگزر کا حکم دیا تو حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے حسبِ سابق ان کی مالی امداد بحال کر دی۔ صحابہ کرامؓ کی سیرت آنحضورﷺ کے اسوہ حسنہ کا عکس و پرتو ہے۔
طائف والوں نے رسول کریمﷺ کے ساتھ جو معاملہ کیا‘ وہ تاریخ کا معروف اور درد ناک باب ہے لیکن ان کے خلاف آپﷺ نے بددعا تک نہ کی۔ مکے میں آپﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے ساتھ کیا کچھ نہ بیتا۔ آپﷺ کو تین سال شعب ابی طالب میں اس طرح گزارنا پڑے کہ لوگ درختوں کے پتے اور جھاڑیاں وگھاس کھانے پر مجبور ہوگئے۔ آپﷺ کو ظلم وستم کے ساتھ گھر سے نکال دیا گیا اور نکل جانے کے بعد آپﷺ کو پکڑنے کیلئے انعام مقرر کیا گیا۔ آپﷺ کا تعاقب کیا گیا اور ناکامی پر اُلٹا مشرکین کا غضب بھڑک اٹھا۔ جس مکہ میں آپﷺ پر مظالم کی انتہا ہوئی اس میں آپﷺ رمضان 8ھ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو انسانی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوا‘ جس سے تاریخ کا دامن خالی تھا۔ وہ منظر کتنا عجیب تھا‘ جب اسلامی لشکر اپنے سالارِ اعظم کی قیادت میں وادیٔ مکہ میں پہنچ چکا تھا۔ آج مکہ کو مدینہ کے سامنے سرنگوں ہو جانا تھا۔ اس کے سارے کس بل نکل چکے تھے۔ مکہ کے باہر اسلامی لشکر کے علمبرداروں میں سے ایک‘ جناب سعد بن عبادہؓ جوشِ ایمانی سے پکار اٹھے: آج خون ریزی اور قتل کا دن ہے‘ آج حرمتیں حلت میں بدل جائیں گی۔ یہ بات آنحضورﷺ کے جاں نثار صحابہ حضرت عثمان بن عفانؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ نے بھی سنی اور سردارِ قریش ابوسفیان‘ جو حضرت عباسؓ کی پناہ میں تھا اور یہ منظر دیکھ رہا تھا‘ اس کے کان بھی اس نعرے سے آشنا ہوئے۔
ابوسفیان پر سیدالخزرج کے اس نعرے نے خوف طاری کردیا جبکہ حضرت عثمانؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ بھی پریشان ہو گئے۔ انہوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں آکر علمبردار سردارِ انصار کے نعرے کی خبر دی۔ جواب میں آپﷺ نے فرمایا: نہیں‘ آج کا دن خون ریزی کا دن نہیں بلکہ کعبہ کی تعظیم اور اہلِ مکہ کی عزت کا دن ہے۔ فاتح اعظمﷺ فتح کی گھڑی میں فرما رہے تھے کہ خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ پھر آپﷺ نے حضرت سعدؓ سے جھنڈا واپس لے لیا۔ یہ جھنڈا کسی اور صحابی کو بھی دیا جا سکتا تھا مگر دور رس نگاہ رکھنے والے سالارِ اعظم نے حضرت سعدؓ کے بیٹے حضرت قیسؓ کو جھنڈا مرحمت فرما دیا۔ اب مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد آپﷺ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ خانہ کعبہ کے اندر آپﷺ کے ساتھ اسامہ بن زیدؓ، علی بن ابی طالبؓ اور سیدنا بلالؓ موجود تھے۔ خانہ کعبہ میں نفل ادا کرنے کے بعد آپﷺ نے خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر مجمع پر نظر ڈالی۔ سرکش قریش آج مغلوب تھے۔ اکڑی ہوئی گردنیں خمیدہ تھیں۔ آپﷺ نے ایک مؤثر خطبہ دیا جس میں اللہ کی توحید وعظمت‘ اس کی مدد ونصرت‘ اس کے وعدوں کی صداقت اور اسلام دشمن قوتوں کی شکست کا ذکر تھا۔ پھر آپﷺ نے انسانیت کی مساوات کا تذکرہ فرما کر کبرونخوت کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالنے کا اعلان فرمایا۔ اب قریش دم سادھے منتظر تھے کہ ان کے بارے میں کیا حکم صادر ہوتا ہے۔
آپﷺ مجمع سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: ''اے اہلِ قریش‘ تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ بیک زبان پکار اٹھے ہمیں آپﷺ سے حسنِ سلوک کی امید ہے۔ آپ ہمارے کریم بھائی اور مہربان بھائی کے سپوت ہیں۔ یہ بے بسی کا اظہار بھی تھا اور حقیقت کا اعتراف بھی۔ یہ انہی لوگوں کی زبان سے سامنے آرہا تھا جنہوں نے خود کو ہمیشہ سرکش اور ناقابل شکست قرار دیا تھا اوراس کریم بھائی اور بھتیجے کو ہمیشہ بے وقعت گردانا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ''میں تم سے وہی بات کہوں گا‘ جو میرے بھائی یوسفؑ نے مصر کے تخت سے اپنے برادران سے کہی تھی۔ ''آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔یہ کردارتحریک انسانی میں منفرد اور یادگار ہے۔ اللہ تعالیٰ امتِ اسلام کے ہر فرد کو اس کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں