حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ… (3)

حضرت جابرؓ نے والد کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد ایک صحابیہ حضرت سہیلہؓ بنت مسعود سے نکاح کیا۔ حضرت سہیلہؓ کے میاں فوت ہو چکے تھے۔ جب آنحضورﷺ کو علم ہوا تو آپؐ نے اپنے صحابی سے بے تکلفی سے کہا: تم کسی کنواری لڑکی سے نکاح کرتے تو تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ آپس میں ایک دوسرے سے کھیلتے‘ چہل مہل کرتے اور لطف اٹھاتے۔ حضرت جابرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ جانتے ہیں کہ والدہ فوت ہو چکی ہیں اور میری نو کم سن بہنیں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور تربیت و پرداخت کیلئے میں نے سہیلہؓ کا انتخاب کیا کہ وہ تجربہ کار اور سلیقہ شعار گھریلو خاتون ہیں۔ وہ میری بہنوں کو گھریلو سلیقہ شعاری سکھانے کے ساتھ ان کے لباس کا بھی بہت اچھی طرح اہتمام کرتی ہیں۔ ان کے سر میں جوئیں پڑ جائیں تو فوراً نکالتی ہیں۔ اس پر آنحضورﷺ نے ان کے فیصلے کی تحسین فرمائی۔
حضرت جابرؓ نے بعد میں دوسرا نکاح بھی کیا اور وہ انصار کے ایک بہت معزز سردار حضرت محمد بن مسلمہؓ کی بیٹی سے کیا۔ صحابہ کرامؓ میں حضرت محمد بن مسلمہؓ انصاری بڑے پائے کے صحابی تھے۔ آنحضورﷺ نے ان کو کئی مرتبہ انتہائی کٹھن اور مشکل ذمہ داریاں سونپیں جن کو آپؓ نے نہایت کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ان میں سے ایک ذمہ داری یہ تھی کہ یہودی سردار کعب بن اشرف کا کام تمام کر دیں۔ یہ بدبخت مسلسل آنحضورﷺ کے خلاف زہر اگلتا اور اس کے علاوہ مسلمان خواتین کے ساتھ خود ساختہ اپنی عشقیہ شاعری میں جھوٹ موٹ شعر لکھتا۔ تنبیہ کے باوجود یہ باز نہ آیا تو تب آپﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہؓ سے فرمایا کہ اس دشمنِ خدا کو ٹھکانے لگا دو۔ یہ کام بہت مشکل تھا‘ مگر حضور پاکﷺ کے صحابہ کبھی کسی مشکل کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے یہ ذمہ داری نہایت فراست اور کامیابی کے ساتھ سرانجام دی۔ اس کا تفصیلی تذکرہ ہماری کتاب روشنی کے مینار میں حضرت محمد بن مسلمہؓ کے حالات میں بیان ہوا ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ کی بیٹی کا نام اُمِ حارث تھا۔ حضرت جابرؓ کے سوال پر حضرت محمد بن مسلمہؓ نے بخوشی اپنی بیٹی کا رشتہ ان کو دے دیا۔ آپ کو اللہ نے دونوں ازدواج سے اولاد عطا فرمائی۔ آپؓ کے تین بیٹے اور تین ہی بیٹیاں تھیں۔ بڑے بیٹے عبدالرحمٰن بن جابرؓ، جن کا نام عبداللہ بھی بیان ہوا ہے۔ دوسرے بیٹے عقیل بن جابرؓ اور تیسرے بیٹے محمد بن جابرؓ تھے۔ بیٹیوں میں بڑی بیٹی میمونہ اور ان سے چھوٹی حمیدہ اور سب سے چھوٹی اُم حبیب تھیں۔ آپؓ کے بعض بچے درجہ صحابیت پر فائز تھے۔ عبداللہ اور میمونہ حضرت سہیلہؓ بنت مسعود کے بطن سے پیدا ہوئے۔ باقی چار بہن بھائی حضرت اُم حارث بنت محمد بن مسلمہ سے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین!
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ قرآن پاک کی سورۃ النساء کی آخری آیت جس میں کلالہ کا ذکر آیا ہے‘ آپؓ ہی کے ایک سوال کے نتیجے میں نازل ہوئی تھی۔ اس وقت تک آپؓ کی کوئی اولاد نہیں تھی اور آپ شدید بیمار پڑ گئے تھے۔ رسول اللہﷺ کو معلوم ہوا تو آپؐ ان کی عیادت کیلئے تشریف لائے۔ آپ اس وقت بے ہوش تھے۔ نبی پاکﷺ نے وضو فرمایا اور حضرت جابرؓ کے چہرے پر وضو کے پانی سے چھینٹے مارے۔ آپؓ ہوش میں آ گئے اور اس موقع پر آپ نے اپنی جائداد کے بارے میں کچھ سوال کیے۔ اس کا ذکر سورۃ النساء کی آخری آیت میں یوں آیا ہے:
''اے نبیؐ! لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی‘ اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہو گا۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی‘ اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہو گا۔ اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔
اس سوال کے وقت حضرت جابرؓ کی کوئی اولاد نہ تھی اور انہیں فکر تھی کہ اگر وہ فوت ہو گئے تو ان کی جائداد کیسے تقسیم ہو گی۔ آنحضورﷺ کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت بھی دی اور اولاد سے بھی نوازا۔ آپؓ صاحبِ جائداد تھے۔ آپؓ نے بڑھاپے کی عمر میں اپنی زندگی ہی میں آخری ایام میں اپنے ورثا میں شریعت کے مطابق اپنی جائداد تقسیم کر دی۔ حضرت جابرؓ کے مناقب بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ ہم اس مضمون میں اختصار کی وجہ سے زیادہ تفصیل نہیں دے پا رہے۔
غزوہ ذات الرقاع کے دوران نبی اکرمﷺ نے حضرت جابرؓ سے ان کا اونٹ خریدا اور فرمایا کہ مدینہ پہنچ کر تم سے اونٹ لے لوں گا اور تم کو رقم ادا کر دوں گا۔ جب مدینہ پہنچے تو آنحضورﷺ نے قیمت ادا کی اور طے شدہ قیمت سے کچھ زائد رقم بھی دے دی جسے حضرت جابرؓ نے آنحضورﷺ کا ہدیہ سمجھ کر قبول کر لیا۔ ہدیہ میں دی جانے والی وہ رقم حضرت جابرؓ کے نزدیک بے حد قیمتی تھی جو آپؓ نے الگ رکھی اور اسے تبرک کے طور پر ایک تھیلی میں ڈال کر محفوظ کر لیا۔ آنحضورﷺ نے رقم کی ادائیگی کے بعد وہ اونٹ بھی حضرت جابرؓ کو محبت کے ساتھ واپس کر دیا اور فرمایا: جابر! تمہارے لیے یہ میرا ہدیہ ہے۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضورﷺ کو اپنے اس صحابیؓ سے کس قدر محبت تھی۔
متبرک رقم جو تھیلی میں محفوظ تھی اس کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے کہ جب بنو امیہ کے دور میں شامی فوجوں نے مدینہ پر حملہ کیا جسے واقعہ حرّہ کہا جاتا ہے تو اس میں حملہ آور لشکر کے کچھ لوگ حضرت جابرؓ کے گھر میں داخل ہو گئے اور دیگر قیمتی سامان کے ساتھ یہ تھیلی بھی لوٹ کر لے گئے۔ حضرت جابرؓ اور ان کے اہل و عیال اس تھیلی کے لُٹ جانے کو یاد کر کے ہمیشہ غمزدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپؓ کو گھر کے لوٹے جانے والے دیگر سامان کی زیادہ پریشانی نہیں تھی‘ مگر رسولِ رحمتﷺ کا عطا کردہ ہدیہ تو آپؓ کو بہت زیادہ عزیز تھا۔ جس ذاتِ اقدسؐ نے وہ ہدیہ دیا تھا‘ اس کے سامنے روزِ محشر میں یہ لٹیرے کیا عذر پیش کریں گے‘ اس روز حضرت جابرؓ کو بدلے میں جو کچھ ملے گا‘ اس کی قیمت کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔
حضرت جابرؓ نے آنحضورﷺ کے ساتھ غزوہ خندق سے لے کر غزوہ تبوک تک ہر موقع پر شرکت فرمائی۔ خندق کی کھدائی میں آپؓ کی شرکت اور حضورپاکﷺ کے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے بندھے ہوئے پتھروں کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضورﷺ نے صحابہ سے بیعت لی جسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے تو حضرت عمرؓ نے اپنا ہاتھ آنحضورﷺ کے دستِ مبارک کے نیچے رکھا۔ حضرت عمرؓ کے ہاتھ کے نیچے حضرت جابرؓ نے اپنا ہاتھ رکھا۔ یوں چودہ سو صحابہ کی بیعت کے مرحلے میں ان دونوں صحابہؓ نے آنحضورﷺ کو تھکاوٹ سے بچانے کیلئے یہ سعادت حاصل کی۔
حضرت جابرؓ نے بیان کیا ہے کہ فتح مکہ کے وقت مدینہ سے چل کر آخری منزل تک میں نے اپنی اونٹنی کو آنحضورﷺ کی اونٹنی کے ساتھ ملائے رکھا۔ جب آپؐ حدودِ مکہ میں داخل ہوئے تو ایک جگہ آپؐ نے اپنی اونٹنی کی نکیل کھینچ کر اسے کھڑا کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ آنحضورﷺ ایک جانب ٹکٹکی باندھ کر ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ میں بھی حضورؓ کی طرح اس جانب دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد آنحضورﷺ نے مجھ سے پوچھا: اے جابرؓ! تمہیں معلوم ہے کہ یہ کون سی جگہ ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے نہیں معلوم۔ آپؐ نے فرمایا: یہ شعب ابی طالب ہے۔ یہاں مجھے اور میرے صحابہ کو تین سال تک قریش نے قید رکھا۔ نہ اس طرف کھانے پینے کی کوئی چیز آنے دیتے تھے اور نہ ہمیں باہر نکلنے دیتے تھے۔ ہم درختوں کے پتے اور چھال کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں