زوالِ انسانیت اور اس کا علاج !

انسانیت کا زوال بہت بڑا المیہ ہے۔ آج ہر انسان دوسرے کی عزت اچھالتا نظر آتا ہے۔ عام لوگ تو چھوڑیں‘ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ اور ان کے مدمقابل ایک دوسرے کے لیے جو الفاظ اور القاب استعمال کرتے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہیں۔اسلام نے اخلاقیات کا جو مکمل نظام دیا ہے‘ مسلم معاشرہ آج ا س سے بہت دور جا چکا ہے۔ قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق پر شرف عطا فرمایا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل وشعور اور قوتِ فیصلہ عطا کی ہے۔ انسان‘ زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ انسان کوجو صفات دوسری مخلوقات سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں‘ ان میں ایک نمایاں صفت اس کی شرم وحیا کی حس اور جذبۂ عفّت ہے۔ انسان کا لباس اسے موسم کی شدت سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اسے زیبایش وخوبصورتی بھی فراہم کرتا ہے لیکن سب سے اہم مقصد جو لباس سے پورا ہوتا ہے‘ وہ ستر کا ڈھانکنا اور اپنی حیاداری کا پاس ہے۔
اسلام میں حیا کی بے پناہ اہمیت ہے۔ نبی کریمﷺ نے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم وحیا نہیں‘ گویا اس میں ایمان نہیں۔ بے شرم انسان‘ ہرذلت وپستی میں گرنے کیلئے ہروقت آمادہ وتیار رہتا ہے جبکہ شرم وحیادار انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجوداپنے شرفِ انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کا اخلاق وکردار ہرپیمانے سے منفرد‘ بے مثال اور قابلِ تقلید ہے۔ آپﷺ میں تمام فضائلِ حسنہ بدرجہ اتم واعلیٰ موجود تھے اور شرم وحیا کی صفت بھی اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرامؓ آپﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپﷺ اعلیٰ خاندان کی پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ (بحوالہ صحیح مسلم)
امِ معبد عرب کی ایک بدوی خاتون تھیں۔ آنحضورﷺ اس کے خیمے میں دورانِ ہجرت مختصر وقت کیلئے رکے تھے۔ اس نے آنحضورﷺ کا جو دلنشین حلیہ بیان فرمایا‘ اس میں آپﷺ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ جب آپﷺ کبھی کسی نوجوان کو کسی غیرمحرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ حضرت فضل بن عباسؓ آپﷺ کے چچا زادبھائی اور محبوب تھے۔ ایک مرتبہ وہ حج کے سفرمیں آپﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب ایک مقام پر کچھ عورتیں آپﷺ سے سوال پوچھنے لگیں تو حضرت فضلؓ کی نظریں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں تفہیم القرآن‘ ج: 3‘ سورۃ النور‘ حاشیہ: 29)
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
جلوؤں کے اس ہجوم میں لازم ہے احتیاط
سہوِ نظر تو معاف ہے قصدِ نظر حرام
نبی اکرمﷺ جس معاشرے میں پیدا ہوئے تھے‘ اس میں دیگر اخلاقی خوبیوں کے معدوم ہوجانے کی طرح شرم وحیا کا وصف بھی تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ بے حیائی کے تمام مظاہر کھلے عام نظر آتے تھے۔ مادرزاد برہنہ ہوکر بیت اللہ کا طواف کرنا بھی معیوب نہ رہا تھا۔ ایسے ماحول میں جنم پانے کے باوجود آپﷺ اپنے بچپن اور لڑکپن میں بھی کبھی برہنہ جسم گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی مخلوط محفلوں میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
ایک غیرمحرم مرد اور عورت کا کسی جگہ تنہائی میں اکٹھے ہونا شرم وحیا کے نازک آبگینے کو توڑ دینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جب دو غیرمحرم مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘ (مسند احمد)۔ نبی پاکﷺ نے زندگی بھرقضائے حاجت کے وقت اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھا حالانکہ عرب کے اس معاشرے میں اس کا ایسا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ آپﷺ شہروں اور آبادیوں سے دور جنگل اور جھاڑیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ یہ آداب بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی بہت بڑی معاشرتی اہمیت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی شرم وحیا کے حصار میں رہتا ہے تو ذلت ورسوائی سے اس کا دامن بچا رہتا ہے۔ جب وہ اس صفت سے عاری ہو جائے تو پھر رذالت وخباثت کا ہرکام ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔ آج کل فحاشی وعریانی جدید ثقافت کا اُسی طرح حصہ بن چکی ہے جس طرح جاہلی ثقافت کا حصہ تھی۔ مخلوط محفلیں روشن خیالی اور جدت وترقی کی دلیل سمجھی جاتی ہیں حالانکہ یہ قدیم جاہلیت کا بھی طرّہ امتیاز تھا۔ آج کل فیشن کے نام پر مردوخواتین کے لباس ساترہونے کے بجائے عریانی کے پیامی ہوتے ہیں۔ حیا‘ اللہ رب العالمین کی طرف سے بندے کیلئے اس کی حفاظت کا قلعہ ہے۔ حیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندوں سے عذاب ٹالتا رہتا ہے۔ حیا سے محرومی بہت بڑی مصیبت اور بدنصیبی ہے۔ بعض تعلیمی اداروں میں بچوں کو ابتدائی عمرہی میں حیا کے قیمتی زیور سے محروم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگوں کا مزاج اس قدر بگڑ گیا ہے کہ شرم وحیا پر مبنی لباس ہو یا ادب‘ کتاب ہو یا خطاب‘ اس معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک وعید آئی ہے کہ حیاسے محروم شخص ایمان سے بھی محروم ہوجاتا ہے (ابن ماجہ‘ ابواب الزہد‘ باب الحیا)۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ''اللہ جب کسی بندے کی ہلاکت کافیصلہ کرتا ہے تو اسے حیاسے محروم کردیتا ہے‘‘۔ جب کوئی حیاسے محروم ہوجاتا ہے تو نفرت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ نفرت میں مبتلا ہونے کے بعد امانت ودیانت کی صفت بھی اس سے چھن جاتی ہے۔ خائن آدمی‘ اللہ کی رحمت کا حقدار نہیں رہتا اور جس سے اللہ کی رحمت روٹھ جائے وہ بدترین لعنت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس لعنت وملامت کی کیفیت میں اس بدقسمت کے دل سے اسلام وایمان بھی رخصت ہوجاتا ہے‘‘۔ (بحوالہ ابن ماجہ)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بے حیائی وفحاشی کو ہلکا سمجھ کر اس سے آنکھیں بند کرتے ہیں‘ پھر اسے گوارا کرنے لگتے ہیں‘ پھر اس کی جانب نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں اور آخر میں ان کے قدم اس کی طرف اٹھ جاتے ہیں تو وہ کس قدر خطرناک کھیل میں مصروف ہیں۔ دراصل ہلاکت محض جسمانی طور پر تباہ وبرباد ہوجانے کا نام نہیں ہے بلکہ ہلاکت دل کے بے نور ہوجانے اور روح کے مردہ ہوجانے کا نام ہے۔ آنحضورﷺ خود بھی بہت حیادار تھے اور صحابہ کرام کے دلوں میں بھی آپﷺ نے اس کی جوت جگائی اور پورا معاشرہ شرم وحیا کی حیات آفرین فضاؤں میں پروان چڑھایا۔
آپﷺ کے صحابہ میں بھی اسلام اور سنتِ رسول کی برکات سے شرم وحیا کی اعلیٰ صفات پروان چڑھیں۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمانؓ بن عفان کا یہ اعزاز تمام صحابہ کرام میں ممتاز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شرم وحیا کا پتلا تھے‘ ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ زندگی بھر انہوں نے اپنا جسم برہنہ نہیں ہونے دیا۔ غسل کے وقت بھی وہ اپنا ستر کسی کپڑے سے ڈھانپنے کا اہتمام کرتے تھے۔
ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی ذات‘ گھر‘ اداروں‘ گلی محلوں‘ تقریبات اور ملبوسات‘ ہرچیز کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے تابع کردیں۔ اس کام کا آغاز اگر ہم اپنی ذات اور گھر سے کردیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات پھیلنے لگیں گے اور یوں پورا معاشرہ معطر ہوجائے گا۔ کیا ہم یہ عہد کرنے اور یہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں؟ جو اب ہر فرد کی ذاتی ذمہ داری ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں