روزے کے بنیادی احکام

روزہ بہت بڑی نیکی ہے۔ ماہِ رمضان کا ایک روزہ بھی کسی شخص نے بلا عذر ترک کر دیا تو اس کے عمر بھر کے روزے بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتے (بحوالہ جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)۔
روزہ کا ترک کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ روزہ رکھ کر بغیر عذر توڑ دینا‘ اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور روزے کی فرضیت کا انکار تو کفر ہے۔ بغیر عذر روزہ توڑ دینے سے کیا مراد ہے؟ روزے کی حالت میں اگرکسی شخص کو کوئی ایسی بیماری‘ تکلیف یا حادثہ پیش آ جائے جس سے اس کی جان کو خطرہ ہو تو روزہ توڑا جا سکتا ہے۔ یہ ایک معقول اور شرعی عذر ہے۔ محض بھوک پیاس کی شدت اور نقاہت کا احساس اس بات کے لیے کوئی جواز نہیں کہ روزہ دار روزہ توڑ دے۔ امام غزالیؒ نے تو یہاں تک بیان فرمایا کہ روزے کی حالت میں بھوک پیاس کی شدت ہی انسان کو ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ ان کے نزدیک تو افطار کے بعد بھی کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ قیام اللیل‘ تہجد اور دیگر اعمال ووظائف میں سہولت رہے۔ بلاشبہ امام غزالی کے اس قول میں بڑی حکمت ہے۔
فدیۂ صیام: اگرکوئی شخص روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے۔ یہ کھانا اسی معیار کا ہونا چاہیے جس معیار کا وہ اپنے گھر میں خود کھاتا ہے۔ ایک روزے کے عوض بطور فدیہ‘ صدقہ فطر کی مقدار بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ رعایت صرف جسمانی لحاظ سے کمزور‘ بیمار اور ضعیف مسلمانوں کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص محض تساہل کی وجہ سے روزہ ترک کر دیتا ہے اور ایک نہیں‘ ہزار مسکینوں کو اس کے فدیے میں کھانا کھلاتا ہے تو یہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو مالدار روزہ ہی نہ رکھیں اور انہیں یہ احساس ہی نہ ہو کہ بھوک‘ پیاس اور احتیاج کیا چیز ہے۔
نواقضِ روزہ: اس سے مراد وہ اعمال ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کو مفسداتِ صوم بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی دو قسمیں ہیں‘ ایک وہ جن میں صرف قضا واجب ہے اور ایک وہ جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں ان اعمال کی جن میں صرف قضا واجب ہے:
اس غلط فہمی میں کچھ کھا پی لیا کہ سحری کا وقت باقی ہے جبکہ سحری کا وقت ختم ہو چکا تھا یا غروبِ آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے‘ کچھ کھا پی لیا۔ 2: دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا‘ مگر روزے کی نیت نہیں کی یا نصف النہار کے بعد نیت کی۔ نصف النہار سے قبل نیت کر لی تو روزہ درست ہوگا۔ واضح رہے کہ نیت کے لیے الفاظ کی ادائیگی ضروری نہیں‘ محض دل کی نیت کافی ہے۔ 3: روزے میں کسی نے ارادتاً منہ بھرکر قے کی۔ اگر قے منہ بھر کر نہ کی تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ 4: بھولے سے کچھ کھا پی لیا اور پھر یہ سمجھا کہ روزہ تو ٹوٹ ہی گیا اب کھانے میں کیا حرج ہے اور خوب پیٹ بھر کر کھا لیا۔ بھولے سے کچھ کھا نے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ 5: بعض اہلِ علم کے نزدیک روزے میں کان کے اندر کوئی دوا یا تیل ڈال لیا تو بھی روزہ مفسد ہو گیا اور اس کی قضا واجب ہے۔
وہ اعمال جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں: کھانے پینے کی کوئی چیز قصداً کھا لی یا بطور دوا کوئی چیز کھا لی۔ 2: جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل کیا جس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا‘ لیکن اس عمل کے بعد ارادے سے روزہ توڑ دیا‘ مثلاً سرمہ لگایا‘ سر میں تیل ڈالا اور پھر یہ سمجھ کر روزہ توڑ دیا کہ سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ 3: روزے کی حالت میں جنسی خواہش پوری کر لی۔
وہ امور جن سے روزہ مکروہ نہیں ہوتا: روزے میں بھولے سے کچھ کھا پی لیا‘ خواہ پیٹ بھر کر کھایا ہو اور خوب سیر ہو کر پیا ہو۔ 2: روزے کی حالت میں سوتے ہوئے غسل کی حاجت ہو گئی۔ 3: سرمہ لگانا‘ سر میں تیل ڈالنا‘ خوشبو سونگھنا‘ بدن کی مالش کرنا وغیرہ۔ 4: تھوک اور بلغم نگل لینا۔ 5: بے اختیار مکھی نگل لی‘ حلق میں گرد وغبار پہنچ گیا یا دھواں چلا گیا‘ خواہ وہ دھواں تمباکو وغیرہ کا ہو۔ 6: کان میں خود بخود پانی چلا گیا‘ یا دوا چلی گئی۔ 7: بے اختیار قے ہوگئی‘ چاہے منہ بھر کر ہی ہو۔ 8:مسواک کرنا‘ خواہ مسواک بالکل تازہ ہی ہو اور اس کی کڑواہٹ بھی منہ میں محسوس ہو۔ بغیر پیسٹ کے برش کر لیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔ 9: گرمی کی شدت میں کُلی کرنا‘ منہ دھونا‘ نہانا‘ یا تر کپڑا سر یا بدن پر رکھنا۔
روزے کا کفارہ: روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرے۔ یہ نہ کر سکے تو ساٹھ مسلسل روزے رکھے‘ یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔
صدقۃ الفطر: فطر کا مطلب روزہ کھولنا ہے۔ روزے کے دوران انسان سے کچھ بھول چوک اور غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ کہیں کوتاہی ہو جاتی ہے‘ جس سے روزہ ٹوٹتا تو نہیں مگرکوئی ایسی حرکت ہو سکتی ہے جو روزے کے مقام رفیع سے فروتر ہو۔ اس کمی کوتاہی کی تلافی کے لیے رسول اللہﷺ نے صدقۂ فطر کا حکم دیا ہے۔ اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے نتیجے میں رمضان کے دوران غربا ومساکین کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ نیز عید کے دن وہ بھی کھاتے پیتے لوگوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔ گویا یہ اسلام کے اس فلسفۂ اجتماعیت کا عملی مظہر ہے جو اہل ایمان کو ایک لڑی میں پروتا‘ ایک صف میں کھڑا کر دیتا اور اخوت کی شیرینی پورے معاشرے میں گھول دیتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ملتی ہے‘ جس کے مطابق آنحضورﷺ نے ارشادفرمایا: صدقہ ٔ فطر واجب ہے‘ جو روزے دار کو لغو حرکات اور اخلاق سے گری ہوئی باتوں سے پاک کر دیتا ہے‘ نیز یہ مساکین کے طعام کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پس جو شخص نماز عید سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دے‘ اس کا صدقہ مقبول ہے۔ نمازِ عید کے بعد صدقۂ فطر ادا نہیں ہوتا‘ البتہ وہ عام صدقہ شمار ہوتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص صدقۂ فطر ادا نہیں کرتا وہ نماز عید ادا کرنے کے لیے ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
صدقۂ فطر کھاتے پیتے لوگوں پر واجب ہے۔ رمضان المبارک کے دوران ادا کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ ضرورت مند ماہ مقدس میں اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ صدقۂ فطر صرف روزہ داروں پر ہی نہیں‘ گھر کے مالک کی طرف سے چھوٹے بچوں‘ غلاموں (آج کے دور میں گھر کے خدام وغیرہ)‘ عید کے روز گھر میں وارد یا پہلے سے مقیم مہمان یا اسی روز پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے بھی واجب ہے۔
صدقۂ فطر کی مقدار: صدقۂ فطر کی مقدار ایک کلو اور تقریباً ایک سو بیس گرام گیہوں ہے۔ دیگر اجناس مثلاً جو اور کھجور وغیرہ اس سے دگنی مقدار میں دینا ضروری ہے۔ غلہ یا جنس دینا ہی ضروری نہیں‘ اس کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ علما ہر سال صدقۂ فطر کی رقم کا تعین کر کے عوام الناس کو مطلع کر دیتے ہیں‘ اس لیے یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں