تاریخ انسانی میں بہت سے فاتحین کے نام ملتے ہیں جنہوں نے قلعے اور ممالک فتح کیے مگر عالمِ ہست وبود میں ایک ہی شخصیت ہے جو فاتح القلوب ہے۔ فاتح القلوب ہونے کے ساتھ نبی کریمﷺ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مٹی اور پتھر کا ہر قلعہ بھی آپ کے سامنے سرنگوں ہوا اور دنیا کے سب فاتحین سے بھی آپ ممتاز ومنفرد نظر آتے ہیں۔ آپﷺ کی یہ صفت آپ کے صحابہ کرامؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمائی۔ انسانی اخلاق وکردار کا تعین انسان کے گفتار ومعاملات سے ہوتا ہے۔ جو انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے‘ وہ فاتح اور کامیاب رہتا ہے۔ وقتی مشکلات کے باوجود صدق وسچائی انسان کو نجات وعافیت کی منزل پہ لے جاتی ہے۔ جھوٹا آدمی وقتی طور پر کچھ فوائد حاصل کر بھی لے تواس کا جھوٹ بالآخر اسے ہلاکت کے گڑھے میں لے ڈوبتا ہے۔ آنحضورﷺ کا ارشاد ہے: صدق نجات کا ذریعہ اور جھوٹ باعثِ ہلاکت ہے۔
نبی اکرمﷺ ہرلحاظ سے انسانِ کامل تھے۔ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ سراسر نور وہدایت اور حسن وجمال کا مرقع تھی۔ آپﷺ نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا حالانکہ جس معاشرے میں آپﷺ نے آنکھ کھولی‘ اس کی بنیاد ہی جھوٹ‘ غلط بیانی اور دھوکا دہی پر تھی۔ جھوٹ کو اگرچہ عیب جانا جاتا مگر اس کا چلن اس قدر عام تھا کہ معیوب ہونے کے باوجود اسے انسان کی ذہانت وفطانت اور ہوشیاری وپرکاری تصور کیا جاتا تھا۔ رسولِ رحمتﷺ نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اپنے دامن کو ہمیشہ اس آلودگی سے پاک صاف رکھا۔ بچپن اور لڑکپن میں بھی آپﷺ کی یہ صفت اتنی معروف اور نمایاں ہو کر ضیا پاش ہوئی کہ معاشرے کا کوئی فرد نہ اس سے بے خبر رہا‘ نہ کبھی اس کا انکار اور نفی کر سکا۔ پوری قوم کے درمیان آپﷺ عنفوانِ شباب ہی میں الصادق (یعنی سچا اور راست گو) کے لقب سے معروف ہو گئے تھے۔ آپﷺ کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپﷺ کا ستارہ چمکتا رہا۔
چالیس سال کی عمر تک رسول کریمﷺ پوری قوم کے درمیان بلااستثنا سب سے معزز ومحترم شخصیت تھے۔ جب آپﷺ نے چالیس سال کی عمر میں اللہ کی طرف سے حکم ملنے پر اعلانِ نبوت کیا تو حالات یکسر بدل گئے۔ پوری قوم آپﷺ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہر قسم کا حربہ آپﷺ کے خلاف استعمال کیا جانے لگا۔ کفار جان کے دشمن بن گئے لیکن اس سارے عرصے میں بھی آپﷺ کی صداقت کا انکار کوئی نہ کر سکا۔ کوہِ صفا کے مشہور خطبے میں آپﷺ نے اپنا اصلی خطاب شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے گواہی لی: کیا تم لوگوں نے مجھے سچا پایا ہے یا جھوٹا۔ تو مجمع بیک زبان پکار اٹھا کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ راست گو پایا ہے‘ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس گواہی کے باوجود اسی مجلس میں ابولہب اور دیگر لوگوں نے بعد میں دعوتِ حق سے انکار کیا‘ رسول اللہﷺ کو جھٹلایا اور نت نئے الزامات تراشے لیکن داعیِ حقﷺ کے بارے میں ان کی وہ پہلی گواہی قولِ فیصل بن کر تاریخ کا حصہ بن گئی اور لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ پیوست بھی رہی۔ (تفصیلات دیکھیے تفہیم القرآن‘ سورۃ الشعراء‘ حاشیہ: 135)
قریش مکہ میں آپﷺ کا سب سے بڑا مخالف ابوجہل سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی آپﷺ پر دروغ و کذب کے الزام کی ہمت نہ کر سکا۔ ایک مرتبہ عرب کی ایک معروف شخصیت اخنس بن شریق نے ابوجہل سے پوچھا کہ تم جو محمد (ﷺ) کو جھٹلاتے ہو تو کیا واقعی انہیں جھوٹا سمجھتے ہو؟ جواب میں اس نے کہا ''بخدا‘ میں نہیں سمجھتا کہ محمد جھوٹ بولتے ہیں لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بنو ہاشم میں سے ہیں اور ہم بنومخزوم ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ان کے روایتی حریف اور مدمقابل ہیں۔ مہمان نوازی سے لے کر جنگ آرائی اور جود وسخا سے لے کر شعر وخطابت تک‘ ہر میدان میں ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے‘ اب انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو کیا ہم انہیں نبی مان کر اپنی برتری سے دستبردار ہوجائیں۔ بخدا! ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔ اللہ رب العالمین نے اسی واقعے کی جانب قرآن مجید میں کئی مقامات پر اشارہ کرکے آنحضورﷺ کو حوصلہ دیا ہے۔ ارشاد باری ہے ''اے نبی! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں‘ ان سے آپ کو رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں‘‘ (الانعام: 33)۔ حضرت علیؓ نے ایک روایت میں آنحضورﷺ کے ساتھ ابوجہل کے ایک براہِ راست مکالمے کا ذکر کیا ہے‘ جس میں اس نے کہا: اے محمد(ﷺ)! ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ جوچیز (قرآن) ہمارے پاس لائے ہیں‘ ہم اسے جھٹلاتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ سورۃ الانعام‘ حاشیہ: 21)
آپﷺ کے حق میں صداقت وامانت کی گواہی محض ابوجہل ہی نے نہیں دی بلکہ پوری قوم اس کی گواہ تھی۔ آپﷺ کے بدترین دشمنوں میں جن لوگوں کے نام آتے ہیں‘ ان میں عتبہ بن ربیعہ اور نضر بن حارث دو معروف‘ زیرک اور بااثر سردار تھے۔ عتبہ نے دارالندوہ میں اپنی تقاریر میں کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ محمد (ﷺ) جھوٹ نہیں بولتے‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے یہ بھی کہا کہ جو کلام وہ پیش کرتے ہیں‘ اس جیسا کلام کسی انسان کے بس میں نہیں۔ نضر بن حارث وہ شخص ہے کہ جس نے اسلام کا راستہ روکنے کیلئے گانے بجانے اور رقص وموسیقی کی محفلیں منعقد کیں‘ قصے کہانیوں پر مشتمل واقعات واشعار کے ذریعے محفلیں سجائیں اور قرآن کی آواز کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے روکنے کیلئے شیطانی کلچر کے ذریعے شور وہنگامہ کھڑا کیا۔ اس نے بھی ایک مرتبہ قریش کی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے برملا کہا کہ محمد (ﷺ) ہم سب سے زیادہ سچے انسان ہیں‘ نہ وہ ساحر ہیں نہ کاہن‘ نہ شاعر ہیں نہ مجنون‘ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی تدبیر سوچنی چاہیے‘ محض الزامات سے بات نہیں بنے گی۔ گویا یہ ایسا اعتراف تھا جو بدترین مخالف کی زبان سے برملا کیاگیا۔ (رحمۃ للعالمین‘ ج: 1‘ ص: 59 تا 60)
نبی رحمتﷺ نے اپنی امت کو جو ہدایات دیں‘ ان میں راست بازی سب سے نمایاں ہے۔ خود آپﷺ چونکہ اس کی بہترین مثال تھے‘ اس لیے اللہ رب العالمین نے آپﷺ کو ایسا رعب عطا فرمایا تھا کہ بدترین دشمن بھی آپ کے سامنے آنکھیں جھکانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ ابوجہل نے کسی شخص سے اونٹ خریدے اور طے شدہ سودے کے مطابق وہ ان کی قیمت ادا کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہا تھا۔ لوگوں نے ازراہِ مذاق اس شخص سے کہا کہ اپنی دادرسی کیلئے محمد (ﷺ) کے پاس چلے جاؤ۔ کفار کا خیال یہ تھا کہ ابوجہل آپ (ﷺ) کو خوب جلی کٹی سنائے گا لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ جب آنحضورﷺ اس اجنبی کو ساتھ لے کر رئیسِ قریش کے پاس پہنچے اور فرمایاکہ اس کی رقم اسے ادا کردو تو ابوجہل نے بلاحیل وحجت اس کی پوری رقم ادا کر دی۔ ایک حدیثِ رسول کا مفہوم ہے کہ ہمیشہ سچ بولنے والے بندوں کو اللہ کی طرف سے ایک خاص برہان حاصل ہو جاتی ہے‘ جو بدترین مخالفین پر بھی ان کا رعب اور دھاک قائم کر دیتی ہے۔ (سیرت ابن ہشام‘ ج: 1 میں تفصیلات موجود ہیں)
صدق وسچائی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘ سیدھی اور سچی بات کیا کرو‘ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے‘ بس وہی عظیم کامیابی کا مستحق ہے‘‘ (الاحزاب: 70 تا 71)۔ ایک دوسرے مقام پر تمام اہلِ ایمان کو تقویٰ کی تلقین فرماتے ہوئے حکم دیا گیا: ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھی بن جائو‘‘۔ (التوبہ: 119)