ماہِ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنا دامن خیر وبرکت سے بھر لیں۔ ماہِ رمضان کی آمد کے باوجود جن لوگوں کو نیکی کی جانب قدم بڑھانے کی توفیق نہیں ملتی‘ ان کی بدنصیبی اس سے عیاں ہے کہ جبریل امین نے ان کے حق میں تباہی وبربادی کی دعا فرمائی اور اللہ کے رسولﷺ نے اس پر آمین کہا۔ اس مہینے کے فضائل بے شمار ہیں۔ حدیث میں فرمایا گیا کہ اس مہینے میں نفل عبادات کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
رمضان کو صبر کا مہینہ قرار دیاگیا ہے اور صبر کا بدلہ جنت بتایا گیا ہے۔ روزہ محض معدے کا نہیں ہوتا بلکہ پورے اعضا وجوارح‘ آنکھ‘ کان‘ ناک‘ زبان‘ ہاتھ‘ پائوں‘ دل و دماغ‘ فکر وسوچ‘ غرض ہرچیز کو محیط ہوتا ہے۔ روزے کو حدیث میں ڈھال قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈھال دشمن کے مقابلے میں اپنے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ نفس امارہ‘ فسق وفجور سے بھرا ہوا ماحول اور شیطان لعین ہر وقت انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہِ رمضان کے روزے مسلسل تربیت کا مؤثر کورس ہیں۔ اس تربیت کے اثرات اگر باقی گیارہ مہینوں میں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہو گیا ہے اور روزہ دار سرخرو ہے۔ خدا نخواستہ اگر ایسا نہ ہو تو روزہ محض بھوک پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے روزے سے روزہ دار کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ (روزے کی حالت میں بھی) جھوٹی باتیں اور غلط کام ترک نہیں کرتے‘ اللہ کو ان کی بھوک پیاس کی کوئی حاجت نہیں۔ (صحیح بخاری)۔ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف اور لیلۃ القدر کی تلاش سنتِ نبوی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبریل ملائکہ کے ایک جھرمٹ میں اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو اس وقت کھڑاہوا یا بیٹھا ہوا اللہ عزوجل کا ذکر کر رہا ہو (جاگ رہا ہو اور عبادت کر رہا ہو)‘ پھر عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر کرتا ہے اور انہیں مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس اجیر (مزدور) کی جزا کیا ہے جس نے اپنے ذمے کا کام پورا کر دیا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ اے میرے ملائکہ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض ادا کر دیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔ پھر اب یہ گھروں سے (عید کی نماز ادا کرنے اور) مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیں اور میری عزت اور میرے جلال کی قسم ہے کہ میں ان کی دعائیں ضرور قبول کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: جائو میں نے تمہیں معاف کر دیا اور تمہاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا۔ پھر وہ اس حالت میں پلٹتے ہیں کہ انہیں معاف کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (سنن بیہقی)
سید مودودیؒ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ سال کے سال اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے کیونکہ انہوں نے رمضان کے روزے رکھے اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو عبادت کرتے رہے۔ پھر عید کے روز نماز کے لیے نکلے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس کے ہاں سے مغفرت اور مہربانیاں حاصل کرکے پلٹتے ہیں‘‘۔ (کتاب الصوم‘ ص: 266)
رمضان کا آخری عشرہ تو بالخصوص آپﷺ کے انہماک و وارفتگی کی ایسی تصویر پیش کرتا کہ سبحان اللہ! حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زبانی امام مسلم نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرے میں عبادت الٰہی میں جس قدر محنت ومشقت فرمایا کرتے تھے‘ اس کی مثال کسی اور زمانے اور ایام میں نہیں ملتی۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف رسول اللہﷺ کی سنت مؤکدہ ہے۔ آپﷺ نے ایک سال کے سوا ہمیشہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارا۔ ایک سال آپﷺ جہاد پر نکل جانے کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال آپﷺ نے دس کے بجائے بیس روز کا اعتکاف فرمایا۔ اتفاق سے یہی حضورﷺ کا آخری اعتکاف تھا۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال ہمارے اوپر سایہ فگن ہوتاہے۔ اس میں امت مسلمہ کے لیے اللہ نے اپنی بے پایاں رحمت سے لیلۃ القدر کی نعمتِ عظمیٰ مقدر کر رکھی ہے۔ اس کی تلاش پورے رمضان المبارک میں ہونی چاہیے مگر آخری عشرہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ جو مسلمان بھی اعتکاف کر سکتا ہو اُسے اپنا دامن بھرنے کے لیے ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ آپ دس روز اعتکاف نہ بھی کر سکیں تو مسجد میں کچھ دیر کے لیے بھی اعتکاف کی نیت سے بیٹھ سکتے ہیں۔ بہرحال مطلوب تو یہی ہے کہ اعتکاف میں دس روز لگائیں۔ یہی مسنون اعتکاف ہے۔ یہ اعتکاف اجتماعی ہو تو اس کے نتائج وثمرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ آخری عشرہ اور بالخصوص اعتکاف کے دس دنوں میں آپ اپنے اندر جتنا ذہنی انقلاب برپا کر سکتے ہیں شاید پورے سال میں اتنا ممکن نہ ہو۔ اس دوران خیر وبرکت سے اپنا دامن بھرنے کی فکر کیجیے۔ لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو بیشتر حصہ عبادت اور تلاوت میں گزاریے۔ دل میں یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے آپ کو لیلۃ القدر کی نعمت عطا فرمائے گا۔ لیلۃ القدر نصیب ہو جائے تو سنت کے مطابق خوب دعائیں کیجیے۔ خصوصاً اللہ سے عفو ودرگزر اور دوزخ سے نجات کی التجا کیجیے۔
مضمون کا اختتام حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث پر کر رہے ہیں۔ اس حدیث میں نبی اکرمﷺ نے انتہائی اہم امور پر امت کو متوجہ کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اس شخص کی تباہی اور بربادی ہو جائے‘ جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے‘‘۔ پھر فرمایا: ''اس شخص کی تباہی اور بربادی ہو جائے‘ جس کی زندگی میں رمضان آیا اور گزر گیا‘ مگر اس نے اپنے گناہوں کی مغفرت کا کوئی اہتمام نہ کیا‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: ''اس شخص کی تباہی اور بربادی ہو جائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا مگر ان کی خدمت کرکے جنت کا مستحق نہ بن سکا‘‘۔ (صحیح مسلم‘ جامع ترمذی‘ مسند احمد)
ایک روایت کے مطابق نبی اکرمﷺ نے اپنے منبر پر تشریف فرما ہونے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ''آمین‘‘۔ پھردوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا ''آمین‘‘۔ تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر ''آمین‘‘ کو دہرایا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے کس بات پر آمین کہا۔ آپﷺ نے جواب دیا: ''جب میں پہلی سیڑھی پر چڑھا تو جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا: بدبخت ہے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا پھر وہ گزر گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی تو میں نے کہا: آمین۔ پھر جبرائیل کہا: بدنصیب ہے وہ بندہ جس نے اپنے والدین یا دونوں میں سے ایک کو (بڑھاپے میں) پایا اور انہوں نے اس کو جنت میں داخل نہ کرایا تو میں نے کہا: آمین۔ پھر کہا: کم بخت ٹھہرا وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر ہوا اور اس نے آپﷺ پر درود نہ پڑھا۔ میں نے کہا: آمین‘‘۔ (طبرانی‘ مستدرک‘ بیہقی)
آپ خود اندازہ کر لیجیے کہ نبی اکرمﷺ اور جبرائیل علیہ السلام کی دعا کس قدر مؤثر ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس بات کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ختمی مرتبتﷺ کا اسم گرامی جب بھی کسی مجلس میں آئے تو ہم ''صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کہنا ہرگز نہ بھولیں۔ اسی طرح رمضان کو پورے اسلامی آداب کے ساتھ گزارنا چاہیے تاکہ ہماری مغفرت ہو جائے۔ والدین جنت کا پروانہ ہیں اور ان کی خدمت میں کوتاہی دنیا اور آخرت کا ناقابلِ تلافی خسارہ ہے۔ اس خسارے سے بچنے کی سنجیدہ کوشش ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی زندگیوں میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین ۔