اہلِ اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ خاتم النبیینﷺ کے امتی ہیں۔ جس طرح آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اسی طرح اس امت کے بعد کوئی امت نہیں۔ یہ اعزاز اپنی جگہ‘ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اپنے آقاﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کس حد تک کرتے ہیں۔ محبت کے دعوے کوئی وزن نہیں رکھتے جب تک ان کے پیچھے عمل کا ثبوت نہ ہو۔ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں کس حد تک رسولِ رحمتﷺ کی اطاعت پر کار فرما ہیں۔ نبی کریمﷺ آخری نبی ہونے کی حیثیت سے انبیا کرام کی پاکیزہ جماعت کے درمیان بہت بلند اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپﷺ امام الانبیاء ہیں‘ آپ کی آمد کے بعد قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا‘ نہ کوئی کتاب نازل ہو گی‘ نہ شریعت بدلے گی اور نہ ہی اخلاقی اصول و ضوابط میں ردّ و بدل ہو گا۔ رہن سہن‘ معاشرت‘ عمومی ضروریات و معاملات‘ تدبیر و لائحہ عمل‘ حکمت عملی اور منزل تک پہنچنے کے لیے ذرائع و وسائل کا تعین‘ بدلتے وقت کے مطابق تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی عقائد و اعمال اور اخلاقی اصول و ضوابط غیرمبدل ہیں۔ ان سب امور میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دو بنیادی مآخذ ہیں؛ اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت۔ آپﷺ نے زندگی کے آخری لمحات میں امت کو اس اہم ترین پہلو کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ''میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں‘ تم کبھی گمراہ نہ ہو گے جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے۔ یہ ہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت‘‘۔ (موطا امام مالک)
ایک امتی کے لیے بلاشبہ یہ بھی بہت اہم ہے کہ آنحضورﷺ نے لباس کیسا پہنا تھا اور کھانے آپﷺ کو کون سے پسند تھے مگر ان امور کے بارے میں اس پر کوئی قدغن اور باز پرس نہیں؛ البتہ لباس ساتر و شریفانہ اور کھانا حلال و پاکیزہ ہونا ضروری ہے۔ اس طرح آنحضورﷺ نے زندگی کے جو معمولات واضح طور پر متعین کر دیے‘ ان کی پابندی ہر دور میں ہر امتی کے لیے ضروری ہے۔ آپﷺ کے کردار کا ایک نمایاں ترین پہلو دیانت و امانت ہے۔ آپﷺ طبعاً اتنے امانت دار تھے کہ کسی دوسرے کی چیز ہتھیا لینا آپﷺ کی طبیعت و مزاج سے لگّا ہی نہیں کھاتا تھا۔ اس دیانت و امانت کی وجہ سے آپﷺ کو جہاں آپ کی قوم الصادق کہتی تھی‘ وہیں 'الامین‘ کے نام سے بھی ہر چھوٹا بڑا آپﷺ سے متعارف تھا۔
نبی کریمﷺ نے لوگوں کے ساتھ نبوت سے قبل لین دین اور معاملات بھی کیے‘ تجارت اور شراکت بھی کی۔ عرب کے اس معاشرے میں جہاں لین دین کے معاملات میں ڈنڈی مارنا‘ غلط بیانی کرنا اور اپنے مالِ تجارت کے نقائص کو محاسن بنا کر پیش کرنا کاروباری ذہانت و تاجرانہ مہارت شمار ہوتا تھا‘ آپﷺ کا کردار ان عیوب سے بالکل پاک صاف اور مبرا تھا۔ رسول کریمﷺ جوانی ہی میں الامین کے نام سے سارے جزیرہ نما عرب میں مشہور ہو گئے تھے۔ جب آپﷺ نے شرک و بت پرستی کے اس ماحول میں توحید ِخداوندی کا کلمہ پیش کیا تو لوگوں کو یہ کلمہ بہت اجنبی معلوم ہوا۔ اس کلمہ حق نے کفار کو مشتعل کر دیا۔ کیفیت یہ ہو گئی کہ جیسے بھڑوں کے چھتے میں پتھر مار دیا گیا ہو۔ اس شدت کی مخالفت میں بھی آنحضورﷺ کے کردار کا سورج کبھی نہیں گہنایا اور سنگ ریزوں کے درمیان یہ چمک دار موتی یوں جگمگاتا رہا کہ کوئی آنکھ اس سے صرفِ نظر نہ کر سکی۔
نبی رحمتﷺ کی مخالفتیں شروع ہوئیں تو قریشِ مکہ خون کے پیاسے ہو گئے۔ قتل‘ جلاوطنی اور قید و بند کے منصوبے بننے لگے۔ اس بدترین مخالفانہ ماحول میں بھی آنحضورﷺ کی اخلاقی برتری یوں قائم تھی کہ خون کے پیاسے اپنی امانتیں آپﷺ ہی کے پاس مامون و محفوظ سمجھتے تھے۔ ہجرت کی رات کو آنحضورﷺ ان کی امانتوں کا مکمل حساب اپنے جانِثار اور عم زاد بھائی علی بن ابی طالب کے سپرد کر رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا ''علی! یہ ان لوگوں کی امانتیں ہیں جو میرے خون کے پیاسے ہیں۔ میرے پیچھے یہ امانتیں تمہارے سپرد ہیں۔ تم بلا کم و کاست یہ امانتیں حق داروں تک پہنچانے کے لیے یہیں رکے رہو‘‘۔ کسی شخص کی دیانت کی اس سے بڑی دلیل شاید ہی دنیا میں پیش کی جا سکتی ہو۔ (سیرت النبی از شبلی نعمانی‘ ج: 1‘ ص: 162)
آنحضورﷺ کے صحابہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بہت ہی معروف اور بلند مقام کے حامل صحابی ہیں جو قاریِ قرآن بھی تھے اور مفسرِ قرآن بھی۔ اس عظیم صحابی کے بارے میں آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب لوگوں کے اعمال تولے جا رہے ہوں گے تو ایک پلڑے میں اُحد پہاڑ رکھا جائے گا اور دوسرے پلڑے میں باریک پنڈلیوں والے عبداللہ بن مسعود کی نیکیاں‘ تو اُحد پہاڑ والا پلڑا اُٹھ جائے گا اور ابن مسعود کی نیکیوں والا پلڑا جھک جائے گا۔ حضرت ابن مسعودؓ سے آنحضورﷺ کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ مکہ کی ایک وادی میں عقبہ ابن ابی مُعَیط کی بکریاں چرا رہے تھے۔ آنحضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں سے گزرے تو بھوک اور پیاس محسوس کررہے تھے۔ جب ان سے دودھ مانگا تو انہوں نے کہا: ''میں آپ کو دودھ نہیں دے سکتا کیونکہ یہ بکریاں مالک کی ہیں اور میں تو صرف امین ہوں‘‘۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کوئی ایسی بکری ہمیں بتاؤ جو شیردار نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ایک بکری پیش کی‘ آپﷺ نے اس کے تھنوں کو سہلایا تو وہ معجزانہ طور پر دودھ سے بھر گئے۔ آپﷺ نے دودھ نکال کر خود بھی پیا اور ابوبکر و ابن مسعود کو بھی پلایا۔ یہ در حقیقت ایک عظیم معجزہ تھا جسے دیکھ کر ابن مسعود کے دل کی دنیا بدل گئی۔ ایک تو انہوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسرے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ مجھے بھی اس کلام کی تعلیم سے بہرہ ور فرمائیے جو آپﷺ کے پاس ہے تواس پر آپﷺ نے شفقت و محبت سے فرمایا: ''انک غلام معلم۔ بلاشبہ تم پہلے ہی پڑھے لکھے نوجوان ہو‘‘۔ آنحضورﷺ کا یہ فرمان ابن مسعودؓ کی دیانت و امانت کی تعریف کے طور پر تھا۔ (اسدالغابہ‘ ج:1‘ ص: 256۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ سیرت کی تمام مستند کتب میں موجود ہے)
سیرت نگاروں نے رسول اکرمﷺ کے معجزات میں ایک اور واقعہ بھی بیان کیا ہے جس کے مطابق آپﷺ نے یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کررکھا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کا چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ آپﷺ کے پاس سے گزرا۔ آپﷺ کو دیکھ کر اس نے کہا کہ کیا آپ اللہ کے نبی ہیں۔ فرمایا: ہاں۔ پھر اس نے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں جاننا چاہا تو آپﷺ نے اس کے سامنے اسلام کی مختصر تشریح فرمائی۔ اس چرواہے نے جہاد میں شرکت اور قتل ہو جانے کی صورت میں جنت میں داخلے کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اگر تم شہید ہو جاؤ گے تو جنت میں چلے جاؤ گے۔ چرواہے نے آپﷺ سے ایک اور سوال کیا جس سے آپ خوش ہوئے اور آپ کی نظر میں اس کی قدروقیمت اور بڑھ گئی۔ اس نے کہا: یہ بکریاں فلاں یہودی کی ہیں ان کا کیا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا: ان کو ہانک دو۔ گویا جن کے مقابلے پر آپﷺ نے فوج کشی کر رکھی تھی‘ ان کے مال کو بھی قبضے میں لے لینا دیانت و امانت کے منافی سمجھا۔ حضرت اسود الراعیؓ نے ان بکریوں کو کنکریاں ماریں اور فرمایا کہ جاؤ اپنے باڑے کی طرف چلی جاؤ۔ پھر وہ شاملِ جہاد ہوگئے۔ یہ نومسلم صحابی جنہوں نے نہ کوئی نماز پڑھی تھی اور نہ روزہ رکھا تھا‘ شہید ہو گئے تو آنحضورﷺ نے ان کے بارے میں گواہی دی کہ وہ جنت میں جا چکے ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت کی حوریں شہید کے چہرے پر لگے گردوغبار کو صاف کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں: جس نے تیرے چہرے کو غبار آلود کیا ہے‘ اللہ اس کے چہرے کو خاک آلود کردے اور جس نے تجھے قتل کیا ہے‘ اللہ اسے ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دے۔ (معجزاتِ سرورِ عالم‘ ص: 88)