حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ… (1)

سیرت نبوی و حیاتِ صحابہ کرام کے دلدوز واقعات میں غزوۂ احد سب سے زیادہ غمناک اور کسی قدر خطرناک واقعہ ہے۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر جرار شکست کھا کر بھاگ نکلا تھا اور مسلمان یہ سمجھے کہ انہوں نے فتح پا لی ہے‘ مگر دشمن نے شکست کے بعد ایک چال چلی جس سے حالات بدل گئے۔ ہوا یوں کہ دشمن میدانِ جنگ سے پسپا ہو کر واپسی کی راہ لے رہا تھا۔ حضور اکرمﷺ نے احد کے درّے پر پچاس تیر انداز مقرر فرمائے تھے جنہیں حکم دیا گیا تھا کہ اگر میدانِ جنگ میں دشمن ہماری بوٹیاں بھی نوچ رہا ہو تب بھی تم نے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی‘ جب تک کہ تمہیں اس کا حکم نہ ملے کہ اپنی جگہ چھوڑ کر درّے سے نیچے اتر آئو۔ جب دشمن پسپا ہو کر بھاگنے لگا تو درّے پر سالارِ دستہ حضرت عبداللہؓ بن جبیر اور ان کے ایک آدھ ساتھی رہ گئے‘ باقی تمام درے سے نیچے اتر کر مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے۔ دشمن کے گھڑ سوار دستوں نے بھاگتے ہوئے یہ منظر دیکھا تو فوری فیصلے کے تحت واپس پلٹے اور پہاڑ کے پیچھے سے چکر کاٹ کر درے کی جانب سے مسلمانوں پر ہلّہ بول دیا۔ کفار کی باقی فوج بھی پلٹ کر سامنے سے حملہ آور ہو گئی۔ اس طرح جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور ایک شدید ابتلا اور سخت آزمائش سے اسلامی فوج کو گزرنا پڑا۔ اس جنگ میں ستر صحابہ کرام شہید ہو گئے اور خود رسولِ رحمتﷺ شدید زخمی ہوئے۔ بہرکیف جنگ کے بعد شہدا کو احد کے میدان میں دفن کر کے حضور پاکﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
آپﷺ نے مدینہ پہنچ کر اپنی تلوار حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو دی کہ اسے دھو کر خون سے صاف کر دیں۔ اس موقع پر آپﷺ شہدا کے گھروں پر بھی گئے اور ان کے اہل وعیال سے ہمدردی کے اظہار کے ساتھ شہدا کے درجات کی بلندی اور پسماندگان کے لیے صبر واجر کی دعا کی۔ آنحضورﷺ مختلف گھروں سے ہوتے ہوئے ایک گھر کے دروازے پر پہنچے تو ایک طویل القامت خوبرو نوجوان نے آپﷺ کا بڑی عقیدت سے استقبال کیا۔ وہ نوجوان صحابی اس لمحے سخت غم کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ یہ تھے حضرت جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام بن کعب بن غنم انصاری رضی اللہ عنہ۔ ان کا تعلق بنو خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا۔
حضرت جابرؓ بن عبداللہ کے والد حضرت عبداللہؓ بن عمرو انصاری شہدائے احد میں سے ہیں۔ غزوہِ احد میں شرکت کے لیے حضرت جابرؓ پوری طرح تیار تھے اور انہوں نے اپنے والد سے بہت اصرار کیا مگر والد صاحب نے انہیں اجازت دینے کے بجائے خود شریکِ جہاد ہونے کا پختہ فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا: میرے بیٹے جابر! تم مجھے اپنی جان اور دنیا کے ہر انسان (باستثنا رسولِ اکرمﷺ) سے زیادہ عزیز ہو مگر میں جہاد کے معاملے میں تمہیں اپنے آپ پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ مجھے امید ہے کہ میں اس جنگ میں شہید ہو جائوں گا۔ میرے ذمے کچھ قرض ہے‘ اسے اتارنے کی ذمہ داری اب تم پر ہے۔اپنی والدہ کی اطاعت اور اپنی بہنوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا۔ عملاً ایسا ہی ہوا کہ حضرت عبداللہؓ بن عمرو دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت پا گئے۔ ایک روایت یہ ہے کہ حضرت جابرؓ کی والدہ اس وقت وفات پا چکی تھیں جبکہ دوسری روایت کے مطابق ان کی وفات جنگِ احد کے جلد بعد ہوئی۔
آنحضورﷺ نے اپنے نوجوان صحابی جابرؓ بن عبداللہ سے کہا: جابر! تم بہت پریشان نظر آ رہے ہو۔ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! والد صاحب سے میں نے بہت استدعا کی کہ مجھے جہاد پر جانے دیں مگر وہ نہیں مانے۔ اب ان کی شہادت کے بعد ان کا قرض بھی مجھے ادا کرنا ہے اور اپنی والدہ اور بہنوں کی کفالت بھی میری ذمہ داری ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: جابر! میں تمہیں خوش خبری نہ سنائوں؟ عرض کیا: ضرور یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ میں جب اُحد سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں جبریل امین میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ جب کوئی شہید اللہ کے ہاں جاتا ہے تو اللہ اس سے کلام کرتا ہے مگر پردے کے پیچھے سے۔ تمہارے والد شہادت کے بعد جب دربارِ ربّانی میں حاضر ہوئے تو اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ فرشتو! میں اس شہید سے بلاحجاب بات کروں گا؛ چنانچہ پردے ہٹا دیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے بلا حجاب بات کی۔
اللہ تعالیٰ نے پوچھا: میرے بندے بتائو تمہاری کیا خواہش ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا اللہ! مجھے دنیا میں بھیج دیجیے تاکہ میں پھر آپ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید ہو جائوں۔ اللہ نے فرمایا: یہ میری سنت نہیں ہے کہ یہاں آنے والوں کو واپس دنیا میں بھیج دوں۔ اور کوئی خواہش ہو تو بتائو۔ اس پر شہیدِ احد نے عرض کیا: یا اللہ! یہاں ہر نعمت موجود ہے‘ کسی چیز کی کمی نہیں؛ البتہ پیچھے رہ جانے والے خاصے غمزدہ اور پریشان ہیں‘ ان کی پریشانی دور فرما دیں۔ اسی موقع پر مجھ پر یہ آیات نازل ہوئیں:
(ترجمہ) ''جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مُردہ نہ سمجھو‘ وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں‘ اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں‘ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش وخرم ہیں اور مطمئن ہیں کہ جو اہلِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا‘‘ (سورۂ آل عمران: 169 تا 171)
آنحضورﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ خبر سن کر حضرت جابرؓ کا غم بہت حد تک ہلکا ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ اللہ نے ان کے شہید والد کو جو اعزاز بخشا وہ منفرد ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیاتِ مقدسہ بھی نازل فرما دیں۔
پھر آپﷺ نے حضرت جابرؓ سے فرمایا: جب تمہارے باغ کا پھل پک جائے تو سب کھجوریں اتار کر ان کی ڈھیریاں لگا دینا‘ اس کے بعد میرے پاس آ کر اس کی اطلاع دینا۔ ایک ماہ کے بعد جب کھجور کے باغات پک گئے تو حضرت جابرؓ نے اپنے دونوں باغات کے تمام درختوں سے پھل اتارا اور کھجوروں کی ڈھیریاں لگا دیں۔ اس کے بعد آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو گویا آپﷺ منتظر بیٹھے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا: جابر! پھل اتار لیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی بالکل! نبی کریمﷺ ان کا ہاتھ پکڑ کر باغ کی طرف چل پڑے۔
باغ میں پہنچ کر آپﷺ نے حضرت جابرؓ سے کہا: جائو تمام قرض خواہوں کو بلا لائو کہ آ کر اپنا قرض وصول کر لیں۔ حضرت جابرؓ نے دل میں سوچا کہ قرض کی رقم تو بہت زیادہ ہے اور کھجوروں کا پھل اتنا زیادہ نہیں ہے۔ بہرحال حضورﷺ کے حکم پر وہ سب قرض خواہوں کو بلا لائے۔ ان قرض خواہوں میں کئی یہودی بھی تھے۔ آنحضورﷺ اس دوران کھجوروں کے ڈھیر پر ہاتھ بھی پھیرتے رہے اور برکت کی دعا بھی کرتے رہے۔ آپﷺ نے ہر قرض خواہ کو اس کے قرض کے مطابق کھجوریں تول کر دیں۔ بعض روایات کے مطابق آپﷺ نے یہ فرض حضرت جابرؓ کے ذمے لگایا اور انہوں نے کھجوریں تولیں۔
بہرحال سب قرض خواہوں کا قرضہ ادا ہو گیا اور کافی کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابرؓ خوشگوار حیرت سے آنحضورﷺ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا: جابر! تمہیں خدشہ تھا کہ قرض ادا نہیں ہو گا۔ اللہ کے فضل سے قرض بھی ادا ہوگیا ہے اور تمہارے گھر کے لیے سال بھر کا خرچہ بھی بچ گیا ہے۔ حضرت جابرؓ اس موقع پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حمد وتسبیح اور نعت ومنقبت کر رہے تھے اور ازحد مطمئن تھے کہ ان کے شہید والد کے سر سے سارا قرضہ اتر گیا ہے۔ یہ آنحضورﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ اس کا تذکرہ تمام مستند مجموعہ احادیث میں ملتا ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں