عروہ بن مسعود جو قریشِ مکہ کی جانب سے سفیر بنا کر بھیجے گئے تھے‘ کو جب اپنے بھتیجے حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کی جانب سے درشتی کا سامنا کرنا پڑا تو ان کا صبر جواب دے گیا۔ وہ ماضی کے واقعات سے حضرت مغیرہؓ کو عار دلانے لگے۔ اسلام لانے سے قبل ایک جھڑپ میں بنو مالک کے تیرہ افراد حضرت مغیرہؓ اور ان کے گروہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ چچا نے بھتیجے کو اس جرم پر بھی عار دلائی۔ حضرت مغیرہؓ کی سابقہ زندگی کے یہ واقعات بلاشبہ قابلِ گرفت تھے مگر انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سب کام زمانۂ جاہلیت میں کیے تھے‘ اب میں اسلام میں داخل ہو کر ان سب سے تائب ہو گیا ہوں مگر عُروہ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا۔ اس واقعے کی تفصیلات تقریباً سبھی مؤرخین نے بیان کی ہیں۔ (المغازی للواقدی‘ جلد 2‘ ص: 594 تا 596)
عُروہ بن مسعود نے اس موقع پر آنحضورﷺ سے جو گفتگو کی وہ درحقیقت محض چالاکی اور مسلمانوں کو مرعوب کرنے کا ایک حربہ تھا کیونکہ جب اس نے واپس جاکر آنحضورﷺ سے اپنی ملاقات کی رپورٹ قریش کی مجلس میں پیش کی تو اس نے تسلیم کیا کہ محمدؐ کے ساتھ ان کے شیدائی وفدائی ہیں۔ اس کے جو الفاظ مؤرخین نے نقل کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے: میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے تاجداروں کے درباروں میں جاتا رہا ہوں مگر خدا کی قسم میں نے محمدؐ کی مجلس میں جو منظر دیکھا ہے وہ کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا۔ ان کے تمام ساتھی ان پر اپنی جان قربان کرتے ہیں۔ ان کی عقیدت کا حال تو یہ ہے کہ محمدؐ وضو کریں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ زمین پر نہیں گرنے دیتے۔ وہ اس پانی کو اپنے جسم اور کپڑوں پر مَل لیتے ہیں۔ ان کے اشارۂ ابرو پر ان کے سبھی ساتھی تعمیلِ حکم کے لیے لپکتے ہیں۔ تم خود سوچ لو کہ ان کا مقابلہ کرنا کتنا مشکل ہے۔
عُروہ بن مسعود عربوں کے انتہائی ذہین اور دانشمند سرداروں میں سے تھے۔ خاندانی روایت کے مطابق وہ عربوں کے مشہور بت لات کے پجاری تھے۔ بت پرستی کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں بت پرستی خلافِ عقل محسوس ہوئی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب وہ قریش کے سفیر بن کر آنحضورﷺ کے پاس آئے اور صحابہ کرامؓ کی آنحضورﷺ سے بے مثال عقیدت کے علاوہ ان کے نظم ونسق کو دیکھا تو اپنے دل میں سوچا کہ یہ لوگ اگرچہ عرب قبائل ہی میں سے ہیں مگر سب سے ممتاز ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ بار بار سوچا تو دل سے یہی جواب آیا کہ یہ ایک ایسے شخص کے پیروکار ہیں جو سچا اور دیانتدار ہے۔ یہ اگرچہ سوچ کا دھارا موڑنے کی علامت تھی مگر زندگی بھر جس ڈگر پر انسان چلتا رہا ہو اسے چھوڑنا بعض اوقات مختلف خدشات کی وجہ سے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اس کے باوجود جس شخص کے اندر انابت اور طلبِ ہدایت کا ایک ذرہ بھی موجود ہو آخرکار وہ منزل کو پا ہی لیتا ہے۔
بطور سفیر عُروہ بن مسعود نے مسلمانوں کے سامنے قریش کی ہیبت اور جنگی تیاریوں کا ذکر کرکے اپنی طرف سے کوشش کی کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے واپس جانے پر آمادہ کر لیں تاکہ قریش اور تمام عرب قبائل میں ان کی دھاک بیٹھ جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک خام خیالی تھی جس میں سردارِ ثقیف مبتلا تھا۔ جو لوگ سوچ سمجھ کر اس قافلے میں شریک ہوئے تھے پوری دنیا بھی اپنا سارا زور لگا لیتی تو وہ یک سرِ مو اپنے مقصدِ زندگی سے انحراف نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے مکہ کی وادیوں میں جو قیامت خیز مظالم برداشت کیے تھے اور اُف تک نہ کی تھی اب ان کی عزیمت واستقامت پر کوئی دھبہ لگ جاتا‘ یہ ناممکن تھا۔ جن لوگوں نے بدر میں قلتِ تعداد کے باوجود عرب کی سب سے بڑی قوت کو عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا تھا‘ جن پر احد کے میدان میں قیامت گزر گئی مگران کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہو گئے‘ ان کو کون ڈرا سکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے اس عزم وہمت کی شہادت خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۂ آل عمران کی آیات: 172 تا 174 میں دی ہے۔ جس قدسی جماعت نے سارے عالمِ عرب کے لشکروں کو اپنے شہر کے گرد جمع ہوتے دیکھا تھا مگر ان کے ایمان‘ حبِ رسول اور اطاعتِ ربانی میں ذرا کمزوری نہ آئی تھی‘ وہ اب ایک تقریر سے کیسے ڈگمگا جاتے؟ ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ احرام باندھے ہوئے اور بغیر اسلحہ کے تلبیہ پڑھ رہے تھے مگر نہ کسی کے دل میں باطل کا خوف تھا نہ دولت کا رعب تھا۔ ان کے پاس حج اور عمرے کے ضوابط کے مطابق صرف تلواریں تھیں اور وہ بھی نیاموں میں بند! انہوں نے بیعتِ رضوان کیلئے اپنے ہاتھ دستِ رسالت مآبﷺ پر رکھے تو دلوں میں مکمل اطمینان اور سکینت تھی۔ ان کی مثال انسانی تاریخ میں نہ ان سے پہلے کبھی دیکھی گئی‘ نہ ان کے بعد تاقیامت منظر عام پر آ سکتی ہے۔
بطور سفیر جب عُروہ قریش کے پاس واپس گئے تو ان کے سامنے مسلمانوں کے عزم واستقلال‘ اپنے آقا سے بے مثال محبت وعقیدت اور اطاعت ووفاداری کا صحیح نقشہ پیش کیا اور قریش کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسی منظم قوت سے مقابلہ کرنے اور ان کے عمرہ کرنے کے راستے میں رکاوٹ بننے سے ناکامی وذلت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ عروہ نے آنحضورﷺ کی مجلس کا حقیقی نقشہ اور صحابہ کرامؓ کی حبِ نبوی اور اطاعت کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اے ابوسفیان! میں نے پوری دنیا کے سفر کیے ہیں اور بادشاہوں کے دربار اور شان وشوکت بھی دیکھی ہے۔ میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ان لوگوں کا راستہ چھوڑ دو‘ ان کو شکست دینا کسی کے بس میں نہیں۔ قریش کے سردار مگر اپنی بات پر اڑے رہے‘ دوسری جانب مسلمان بھی اپنی جگہ ثابت قدم تھے۔ بہرحال معاہدۂ حدیبیہ طے پا گیا کہ مسلمان اس سال یہیں سے واپس چلے جائیں گے اور اگلے سال آ کر عمرہ کریں گے۔ اگلے برس وہ تین دن مکہ میں رہیں گے اور تمام اہلِ مکہ شہر کو خالی کرکے پہاڑوں پر چلے جائیں گے۔اس کے علاوہ بھی دیگر شرائط طے ہو گئی تھیں جن کا مطلب یہ تھا کہ اب قریش نے مسلمانوں کو اپنے برابر کی ایک قوت تسلیم کر لیا۔ اس معاہدے کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ فتح میں ''فتحِ مبین‘‘ قرار دیا ہے۔ وقت گزرتا گیا‘ حالات بدلتے گئے اور انقلاب برپا ہو گیا۔ دو سال گزرنے کے بعد رسول اللہﷺ نے مکہ فتح کر لیا۔ اہلِ مکہ نے معمولی مزاحمت کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور نبی اکرمﷺ نے سب لوگوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا۔
فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین میں شدید جنگ کے باوجود اللہ نے اہلِ کفر کو شکست سے دوچار کیا اور حق کی فوجیں غالب آ گئیں۔ اب آنحضورﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا۔ اس محاصرے میں بنو ثقیف قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔ باہر میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کی ان میں سکت نہ رہی۔ آنحضورﷺ اگر محاصرہ طویل کر دیتے تو اہلِ طائف کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا مگر اللہ کے حکم سے رسول اللہﷺ نے یہ محاصرہ اٹھا لیا۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر پوچھا: فتح کے بغیر محاصرہ کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کو بتایا کہ آنحضورﷺ نے اللہ کے حکم سے یہ محاصرہ اٹھایا ہے۔ اس واقعے سے ثابت ہو گیا کہ اہلِ طائف جو اپنی قوت کے گھمنڈ میں مبتلا تھے‘ اسلامی فوجوں کا مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ بعض روایات کے مطابق اس محاصرے کے بعد جب آنحضورﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں عُروہ بن مسعود آپ سے آملے اور آپﷺ کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہونے کی بیعت کی۔ دوسری روایت کے مطابق آنحضورﷺ مدینہ پہنچ چکے تھے تو عُروہ وہاں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ ان کے قبولِ اسلام سے بہت خوش ہوئے۔ حضرت عُروہؓ بہت ذہین انسان تھے۔ چند دن آنحضورﷺ کے پاس رہ کر دین کی تعلیمات سے پوری طرح روشناس ہو گئے تھے۔ (جاری)