حضرت عُروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ …(3)

حضرت عُروہؓ بن مسعود نے تعلیمات اسلامی کو پوری طرح سمجھ لیا تو آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے اب اجازت دیں کہ میں اپنے قبیلے میں چلا جائوں اور وہاں دعوتِ دین کا کام کروں۔ عام طور پر آنحضورﷺ صحابہ کو اپنے قبیلوں میں جا کر دعوت کا کام کرنے کی خدمت سونپا کرتے تھے مگر اس موقع پر آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عُروہ تمہاری سنگدل قوم تم سے لڑ پڑے گی اور بعید نہیں کہ یہ لوگ تمہیں قتل کر دیں۔ یہ بات سن کر حضرت عُروہؓ نے حیرت سے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرے قبیلے کے لوگ میرا بے حد احترام کرتے ہیں‘ میں تو اگر سفر میں یا حضر میں سو رہا ہوں تو میرے پاس اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتے کہ کہیں میرے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے‘ پھر آپ اپنے قبیلے کے پاس جائیں اور اپنا فریضہ ادا کریں۔
قرآن پاک کی سورۃ الزخرف میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ پر کفار کے اعتراضات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ''(کفار) کہتے ہیں یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نازل نہ کیا گیا‘‘ (الزخرف: 31)۔ اس آیت میں دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں اور جن بڑے آدمیوں کے بارے میں کفار نے رائے ظاہر کی تھی ان میں سے ایک عُروہؓ بن مسعود ثقفی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوش نصیب سردار کو اپنی رحمتوں سے نوازا اور زندگی کے آخری حصے میں اس نے اسلام قبول کر کے تمام سعادتیں سمیٹ لیں۔ یہ اللہ کا خاص انعام ہے کہ وہ جس کو چاہے اس سے سرفراز فرما دے۔
آنحضورﷺ سے اجازت لے کر حضرت عُروہؓ مدینہ سے طائف کی طرف روانہ ہوئے اور اگلے دن عشاء کے قریب اپنے قبیلے میں پہنچ گئے۔ ان کی آمد کی خبر سن کر سارے قبیلے کے لوگ ان کے استقبال کے لیے امڈ آئے اور سب نے جاہلانہ طریقے کے مطابق ان کو سلام پیش کیا اور خوش آمدید کہا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ سلام کا یہ طریقہ ترک کر دو‘ یہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ آج کے بعد آپ سب لوگوں کو اہلِ جنت کی طرح سلام کہنا چاہیے۔ پھر انہیں بتایا کہ وہ سلام ''السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ ہے۔ یہ سن کر اس بااثر رئیسِ قبیلہ کو طائف کے لوگوں نے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ یہ بات اپنی جگہ بہت عجیب تھی مگر یہ ہونی ہو کر رہی۔ گستاخانہ انداز میں ردعمل ظاہر کرنے کے بعد وہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
حضرت عُروہؓ اسلام قبول کرنے کے بعد بہت حلیم الطبع ہو چکے تھے۔ انہوں نے قبیلے کے گستاخانہ طرزِ عمل پر بہت تحمل کا مظاہرہ کیا اور اس ناگہانی اور غیر متوقع واقعے پر ہمت نہیں ہاری اور دل میں خیال کیا کہ ابھی یہ لوگ جاہلیت کی زندگی گزار رہے ہیں‘ اس لیے یہ جاہلانہ ردعمل ان کی طرف سے کوئی عجیب بات نہیں۔ آہستہ آہستہ یہ لوگ اسلام کی دعوت سے روشناس ہوں گے تو سدھر جائیں گے اور اسلام کی دعوت پورے قبیلے میں پھیل جائے گی۔ ان کا یہ خیال تو درست ثابت ہوا مگر اس صورتحال کے پیدا ہونے سے پہلے حضرت عروہؓ کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑی۔ ہوا یوں کہ فجر کے وقت حضرت عُروہؓ نے اپنے مکان کے بالاخانے میں کھڑے ہو کر فجر کی اذان خوش الحانی کے ساتھ پڑھی۔ اذان کی آواز سن کر بنو ثقیف کے جہلا مشتعل ہو گئے اور اپنے عظیم سردار کے مقام ومرتبے کو فراموش کرتے ہوئے ان پر دورانِ اذان ہی تیر اندازی شروع کر دی۔
مؤرخین کے مطابق بنو ثقیف کی ایک شاخ بنو مالک سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان اوس بن عوف کا تیر آپ کی رگِ اکحل میں پیوست ہو گیا‘ جس کے نتیجے میں آپؓ کی شہادت واقع ہوئی۔ حضرت عروہؓ کی یہ حالت کو دیکھ کر آپؓ کے خاندان کے نوجوانوں نے ہتھیار اٹھائے اور آپ کے پاس آ کر کہا: ہم آپ کے خون کا بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے‘ ہم بنو مالک کے دس سرداروں کو چن چن کر قتل کریں گے خواہ اس کے نتیجے میں ہمارا پورا خاندان موت کے گھاٹ اتر جائے۔ عربوں کے ہاں انتقام لینا فرض سمجھا جاتا تھا مگر سردارِ بنو ثقیف عُروہؓ بن مسعود مکمل طور پر تبدیل ہو چکے تھے۔ اسلام نے ان کے رگ وپے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں اور جاہلیت کے تمام افکار وعقائد ختم ہو چکے تھے۔ پیغام اسلام کا یہی حقیقی انقلاب ہے جو مطلوب ہے۔
حضرت عروہؓ نے بڑے تحمل سے جذباتی نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ''میری بات غور سے سنو! اللہ کا مجھ پر احسان ہے کہ مجھے شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل ہو رہا ہے۔ میرے آقا محمدﷺ نے مجھ سے فرما دیا تھا کہ میری قوم مجھے شہید کر دے گی۔ میرے خون کے بدلے میں کسی بھی شخص کو قتل نہ کرنا۔ میں نے اپنا خون اللہ کی خاطر معاف کر دیا ہے۔ میری موت واقع ہو جائے تو میری قبر ان اللہ والوں کی قبروں کے ساتھ بنانا جو آنحضورﷺ کی قیادت میں محاصرۂ طائف کے دورا ن شہید ہوئے تھے‘‘۔ ان کی شہادت کے بعد وصیت کے مطابق انہیں اُن صحابہ کے ساتھ دفن کیا گیا جو محاصرۂ طائف کے دوران شہید ہوئے تھے۔
حضرت عروہؓ کے آخری الفاظ یہ تھے کہ ''اللہ کے سچے رسول نے مجھے بتا دیا تھا کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو گی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں شہدا کی جماعت میں شامل ہو گیا ہوں۔ میں تم سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ میرے بدلے میں آپس میں خون ریزی ہرگز نہ کرنا۔ میں نے سب کو معاف کر دیا ہے‘‘۔ سبحان اللہ کتنے خوش نصیب تھے یہ صحابیٔ رسول کہ جن کو اپنی زندگی میں اگرچہ کسی میدانِ قتال میں جانے کا موقع نہ ملا مگر اس کے باوجود اللہ نے خلعتِ شہادت سے سرفراز فرما دیا۔
نبی کریمﷺ کو اپنے عظیم صحابی کی شہادت کی خبر ملی تو آپﷺ نے فرمایا: عُروہ عظیم مسلمان تھے‘ ان کی مثال شہیدِ (سورۂ) یٰسین جیسی ہے۔ اُس شہید نے بھی اپنی قوم کو حق قبول کرنے کے لیے پکارا تھا اور قوم کے ظالم لوگوں نے بھرے بازار میں اُسے شہید کر دیا۔ شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کے بارے میں بتایا کہ وہ جنت میں اپنی قوم کے لیے اس آرزو کا اظہار کر رہا ہے کہ اے کاش ان لوگوں کو پتا چل جائے کہ میرے اللہ نے مجھے کتنا عظیم مقام دیا ہے۔
سورۂ یٰسین کی آیات: 20 تا 28 میں اس شہید کا تذکرہ آیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ اور آنحضورﷺکا فرمان ملا کر پڑھیں تو ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
''اتنے میں شہر کے دُور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا: اے میری قوم کے لوگو! رسولوں کی پیروی اختیار کر لو۔ پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔ آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟ کیا میں اُسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں؟ حالانکہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ اُن کی شفاعت میرے کسی کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں۔ اگر میں ایسا کروں تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا‘ تم بھی میری بات مان لو۔ (آخرکار ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور) اس شخص سے کہہ دیا گیا کہ ''داخل ہو جا جنت میں‘‘۔ اْس نے کہا: کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرما دیا۔ اس کے بعد اُس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا۔ ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی‘‘۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں