حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ …(1)

صحابیٔ رسول حضرت ابو دجانہؓ کا حقیقی نام سماک بن خرشہ تھا۔ آپ کا نسب تاریخ میں یوں درج ہے: سماک بن خرشہ بن اوس بن لوذان بن عبدود بن زید بن ثعلبہ بن خزرج۔ آپؓ انصار کے قبیلہ بنو خزرج کے رئوسا میں سے تھے۔ رئیس قبیلہ حضرت سعدؓ بن عبادہ آپ کے قریبی عزیز تھے۔ قبولِ اسلام سے قبل بھی اپنی گونا گوں صفات بالخصوص شجاعت کی وجہ سے اپنے قبیلے میں ہر دلعزیز اور سب کی آنکھوں کا تارا تھے۔ حضرت ابودجانہؓ نے تاریخ اسلامی میں اپنے اصلی نام کے مقابلے میں اپنی کنیت سے شہرت پائی۔ آپؓ بہادر اور شیر دل تھے۔ ابو دجانہؓ انصار کے ان لوگوں میں شامل نہیں تھے جو حضور اکرمﷺ سے مکہ میں جا کر ملے اور اسلام قبول کر لیا۔ پھر ان صحابہ کرامؓ نے حضور پاکﷺ کے ہاتھ پر دو مرتبہ بیعت کا شرف حاصل کیا۔ بیعت عقبہ اولیٰ 11 نبوی میں ہوئی‘ روایات کے مطابق جس میں چھ یا 12اہلِ ایمان نے شرکت کی۔ بیعت عقبہ ثانیہ ایک سال بعد‘ 12 نبوی میں اسی گھاٹی پر عمل میں آئی۔ اس میں مرد وخواتین کی تعداد 80 سے زائد بیان کی گئی ہے۔ یہ عملِ خیر دونوں مرتبہ حج کے زمانے میں وقوع پذیر ہوا۔
آنحضورﷺ کی ہجرتِ مدینہ سے کچھ عرصہ قبل حضرت ابو دجانہؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ آپؓ کے دل میں یہ خلش تھی کہ آپ بیعت عقبہ میں شرکت کا شرف حاصل نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ خلش دور کر دی جب آپؓ کے ہاتھوں ایسے تاریخ ساز اور یادگار کارنامے وجود میں آئے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ آپؓ نے جب پہلی بار آنحضورﷺ کی زیارت کی تو چہرۂ انور کو دیکھ کر دل کی حالت عجیب ہو گئی۔ آقائے دو جہاںﷺ کے ساتھ عقیدت ومحبت کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ فرطِ جذبات سے آنکھیں نم ہو گئیں‘ دل میں رِقت پیدا ہو گئی اور ساتھ ہی یہ حسرت کہ میں نے دیگر یثربی باشندوں کی طرح پہلے یہ سعادت کیوں نہ پائی! مدینہ میں آنحضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا لطف عمر بھر محب صادق کے دل میں موجزن رہا۔
حضرت ابو دجانہؓ اپنی دلیری اور جنگی مہارت کی وجہ سے پہلے اپنے قبیلے کی آنکھوں کا تارا تھے اور اب اہلِ ایمان کی محبتوں کا مرکز بن گئے تھے۔ جسم وجان اور دل ودماغ کی سب توانائیاں کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے وقف کر دیں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے محبوب قرار پائے‘ جس سے بڑا کوئی اعزاز ہو ہی نہیں سکتا۔ حضورﷺ کے پاس جتنا وقت گزارتے آپﷺ کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے اور آپﷺ کی زبانِ اقدس سے قرآن کی تلاوت اور احادیث کو بغور سننے میں مشغول رہتے۔ اپنی روزی کیلئے اپنے باغ میں بھی جاتے مگر جس طرح پہلے باغ کو سارا وقت دیتے تھے‘ اس کے مقابلے میں اب بہت تھوڑا وقت وہاں گزرتا اور بیشتر گھڑیاں مسجد نبوی میں بیت جاتیں۔ اللہ نے اس کے باوجود رزق میں کوئی کمی نہیں ہونے دی بلکہ مزید برکتوں سے نوازا۔
سنہ 2ھ میں کفر واسلام کا پہلا معرکہ بدر کے مقام پر برپا ہوا۔ بدر کی جنگ ''یوم الفرقان‘‘ کہلاتی ہے۔ اس جنگ میں حضرت ابودجانہؓ نے دیگر مجاہدین کے ساتھ مل کر عظیم کارنامے سرانجام دیے۔ آپؓ کے بارے میں تاریخ میں یہ مشہور ہے کہ جب آپ اپنے سر پہ سرخ پٹی‘ رومال یا عمامہ باندھ لیتے تو آپ پر اللہ کی طرف سے ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی جس کے نتیجے میں آپ کے دست وبازو میں بے پناہ قوت اور تلوار میں مثالی تیزی آ جاتی تھی۔ اُس روز بھی آپؓ نے عمامے کے ساتھ ایک سرخ پٹی باندھی ہوئی تھی‘ آپ کی زبان پر رجزیہ اشعار تھے جنہیں آپ خوش الحانی اور جوشِ ایمانی کے ساتھ پڑھ رہے تھے۔ تمام سننے والوں پر بھی ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ امام ابن اثیر نے اسد الغابہ میں یہ اشعار یوں لکھے ہیں:
ترجمہ: میں وہ ہوں جس سے میرے خلیلﷺ نے عہد لیا جب کہ ہم لوگ پہاڑ کے دامن میں نخلستان کے قریب تھے۔
یہ کہ میں ساری زندگی کبھی آخری صف میں نہ کھڑا ہوں گا بلکہ (اگلی صفوں میں) اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تلوار سے (دشمن پر) وار کرتا ہی رہوں گا۔ (اسد الغابہ‘ حصہ چہارم)
معرکہ کارزار گرم ہوا تو دشمن کے ایک گرانڈیل جنگجو عاصم بن ابی عوف سے آپؓ کا آمنا سامنا ہوا۔ وہ ڈینگیں مارتا ہوا مسلمانوں کو مقابلے کیلئے دعوت دے رہا تھا‘ ساتھ ہی آنحضورﷺ کو شہید کر دینے کے بڑھکیں لگا رہا تھا۔ حضور پاکﷺ کے بارے میں اس کے توہین آمیز الفاظ سُن کر ابو دجانہؓ کا خون کھولنے لگا۔ حضرت ابو دجانہؓ نے آگے بڑھ کر اس گستاخ پر ایسا حملہ کیا کہ ایک ہی وار میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ منظر دوست اور دشمن سبھی کیلئے حیرت کا باعث تھا۔ دشمنوں کیلئے حیرت کے ساتھ پریشانی اور اہلِ ایمان کیلئے حیرت کے ساتھ خوشی۔ اُس بدبخت کو اس کی قوم اور قبیلہ والے کئی جواں مرد جنگجوئوں کے برابر سمجھتے تھے۔
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ!
حضرت ابودجانہؓ اس دشمن سے جب لڑ رہے تھے تو قریش کا ایک اور جنگجو جس کا نام معبد بن وہب بیان ہوا ہے‘ اپنی تلوار لہراتا ہوا حضرت ابودجانہؓ کی طرف حملہ کرنے کے لیے دوڑا۔ آپ جنگی چال استعمال کرتے ہوئے فوری طور پر دو زانو ہو کر زمین پر بیٹھ گئے اور دشمن کا وار ناکارہ کر دیا۔ پھر آپ نے شیر کی طرح جھپٹ کر اس پر حملہ کیا۔ آپ نے کئی وار کیے مگر وہ اپنی جنگی مہارت سے ہر وار سے بچ جاتا رہا۔ آخر حضرت ابودجانہؓ کی پھرتی اور تیزی کو دیکھ کر دشمن کا حوصلہ پست ہوا اور وہ گھبرا کر بھاگ نکلا۔ بدحواسی کے عالم میں وہ میدانِ جنگ میں ایک گڑھے میں گر گیا۔ آپ بھی چھلانگ لگا کر فوراً اس گڑھے میں اُتر گئے۔ وہی گڑھا اس کی قبر بن گیا۔ ایک تیسرے دشمن کو بھی حضرت ابودجانہؓ نے تہ تیغ کیا۔ اس کا اور آپ کے ہاتھ سے قتل ہونے والے دیگر کفار کا تذکرہ تاریخی حوالوں کے ساتھ ہماری کتاب ''رسولِ رحمتﷺ تلواروں کے سائے میں‘‘ جلد اول میں درج ہے۔
غزوہ بدر کے ایک سال بعد احد کا معرکہ برپا ہوا۔ اس میں بھی کئی یادگار واقعات پیش آئے۔ میدانِ احد میں 700 صحابہ کرامؓ نے دشمن کے تین ہزار جنگجوئوں کے چھکے چھڑا دیے اور وہ میدان سے بھاگ نکلے مگر بعد میں جنگ کا پانسہ ایک غلطی کی وجہ سے پلٹ گیا۔ درۂ احد پر متعین تیر اندازوں نے دشمن کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو درہ خالی کر دیا۔ وہاں صرف سالارِ دستہ حضرت عبداللہؓ بن جبیر اور ان کے چند ساتھی رہ گئے۔ درے کو خالی دیکھ کر دشمن نے اپنے گھڑ سوار دستوں کو پہاڑ کے پیچھے سے اس کی طرف دوڑا دیا اور پیادہ فوج پہاڑ کی اوٹ میں چھپ گئی اور پھر وہیں سے اچانک واپس آئی اور مسلمانوں پر حملہ آور ہو گئی۔ ایسے میں ایک بھگدڑ مچ گئی۔ ان نازک لمحات میں جن فداکار صحابہ نے آنحضورﷺ کے دفاع کا حق ادا کیا ان میں حضرت ابودجانہؓ کا اسم گرامی بھی بہت نمایاں ہے۔ آپ آنحضورﷺ کی طرف آنے والے ہر دشمن کا منہ موڑ دیتے تھے۔ یہ ایمان کی پختگی کا عملی اظہار تھا‘ یہ یقینِ محکم کی زندہ تصویر تھی‘ یہ حبِ رسول کی یادگار تفسیر تھی! صحابہ کرام کا شوقِ شہادت اور آنحضورﷺ کیلئے سب کچھ قربان کر دینا انسانی تاریخ کے لازوال کارنامے ہیں۔
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں