سدا سے سنتے چلے آئے ہیں کہ جیسے عوام ویسے حکمران‘ گویا حکمران عوام کے مزاج اور کردار کا عکس ہوتے ہیں۔ قطاروں میں لگ کر بریانی کی پلیٹوں اور قیمے والے نانوں سے پیٹ بھرنے والوں نے بیلٹ باکس بھرنے کے ہدف کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے۔ معدے سے کیے جانے والے فیصلوں کی قیمت نسل در نسل چکانے کے باوجود جوں کی توں اور برقرار ہے۔ گزشتہ برس منعقد ہونے والے عام انتخابات میں عوام کا یہ بھرم بھی جاتا رہا ہے کہ وہ بریانی اور قیمے والے نان مفت نہیں کھاتے‘ اس کے بدلے اپنا قیمتی ووٹ اپنے محبوب لیڈر کو دیتے ہیں لیکن جادوئی ٹیکنالوجی نے ثابت کر دیا ہے کہ انتخابی معرکہ اب ووٹر کے مرہونِ منت ہرگز نہیں رہا۔ یہ شکم پروری بھی اب ووٹ سے مشروط نہیں رہی‘ ووٹر ووٹ دے یا نہ دے‘ بریانی کھائے‘ نان کا لفافہ بغل میں دبائے‘ نعرہ لگائے اور گھر کو جائے۔ حکمرانی کیلئے ووٹ پر انحصار کیا ختم ہوا حکمرانوں کے تو تیور ہی بدل گئے یعنی جیسے عوام ویسے حکمران تو ہو سکتے ہیں لیکن جیسے حکمران ویسے عوام کیوں نہیں ہو سکتے۔ تمہید طویل ہونے سے پہلے وضاحت کرتا چلوں کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں بریفنگ دی ہے کہ تقریباً 32 ہزار 500 پاکستانی مسافر مختلف ممالک سے ڈی پورٹ ہو چکے ہیں جبکہ سال رواں میں 51 ہزار مسافر پاکستانی ایئر پورٹس پر بین الاقوامی پروازوں سے جعلی دستاویزات کی بنا پر آف لوڈ کیے گئے ہیں تاکہ وہ بیرونِ ملک جا کر بھیک نہ مانگ سکیں۔
ایف آئی اے کو عوام سے نجانے کیا بیر ہے کہ وہ عوام کو اپنے محبوب حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلنے سے روک رہی ہے۔ چارٹرڈ طیاروں پر سوٹڈ بوٹڈ وزیروں مشیروں کے ہمراہ بیرونی ممالک کی حکومتوں سے قرض اور امداد حکمران لیں تو کامیاب بیرونی دورے کہلاتے ہیں۔ اگر ان کے عوام انہی ممالک کے عوام سے خیر خیرات لینے چلے جائیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ حکمران امورِ مملکت سمیت اللے تللوں کے تسلسل کیلئے قرض اور امداد لینے جاتے ہیں تو ان کے عوام اپنے معاملاتِ زندگی کو رواں دواں رکھنے کیلئے اگر بھیک مانگتے ہیں تو اس میں برائی ہی کیا ہے؟ حکمرانوں کو آئیڈیل بنانا قانون کی کس کتاب میں جرم گردانا جاتا ہے؟ بس طریقۂ کار کا ہی تو فرق ہے‘ کوئی سرکاری سطح پر جاتا ہے تو کوئی ذاتی طور پر اور گروپوں کی صورت میں جا پہنچتا ہے۔ سب کے اپنے اپنے جگاڑ اور اپنے اپنے طریقہ کار ہیں‘ گویا سبھی ضرورت مند ہیں۔
مانگنے کی بدعت خاصی پرانی ہے۔ پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضوں کا حصول اور ملکوں ملکوں گھومنا بھی طرزِ حکمرانی کا ہی حسن ہے۔ حکومتی کشکول بھی کرشماتی خصوصیات کا حامل ہے۔ برسرِ اقتدار حکمرانوں نے اسے کئی بار توڑا ہے‘ اکثر چکنا چور بھی کیا ہے لیکن یہ ٹوٹ کر بھی جوں کا توں رہتا ہے بلکہ جب جب اسے توڑنے کا اعلان کیا گیا تب تب یہ مزید بڑا ہوتا چلا گیا۔ 1998ء میں میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم کشکول توڑنے کے حکومتی اعلان کے بعد ملک بھر میں فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کر کے ''قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ تحریک خوب چلائی لیکن عملاً نہ کشکول ٹوٹا اور نہ ہی لمبا مال اکٹھا ہونے کے باوجود ملک سنورا‘ تاہم اس تحریک میں کون کون سنورا‘ کون کون نکھرا سب کو سبھی جانتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ میں کشکول توڑنے کے عزم کے ساتھ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی خوشخبری قوم کو سناتے ہوئے باور کرایا تھا کہ اس بار قرضہ حاصل کرنا کوئی آسان ہدف نہ تھا‘ انتہائی کڑی اور مشکل شرائط تسلیم کرنے کے بعد قرضے کا حصول ممکن ہوا ہے۔
ایک طرف کشکول توڑنے کی باتیں‘ دوسری طرف کشکول بھرنے کی خوشخبریاں۔ حکمران عالمی مالیاتی اداروں اور بیرون ممالک سے مانگیں تو خارجی محاذ پر بہترین سفارکاری اور عوام مانگ لیں تو بھکاری‘ حکومتی کشکول پر تو اکثر جامِ سفال کا گماں ہوتا ہے: اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا۔ ہر دور میں مانگنے کی بدعت دوام ہی پکڑتی رہی ہے۔ وزیراعظم نے تو ایک دوست ملک میں جاکر برملا کہہ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہوں گے کہ میں مانگنے آیا ہوں‘ میں مانگنے نہیں آیا مگر مجبوری ہے۔ حالیہ سبھی ادوار میں وزرائے اعظم پرانا کشکول توڑ کر اس سے بڑا بناتے اور جھولیاں بھر بھر کے امداد اور قرضے سمیٹتے رہے ہیں۔ کسی دوست ملک کی طرف سے قرضے یا امداد کی نیم رضا مندی بھی قوم کو خوشخبری اور بڑی سفارتی فتح بنا کر اس طرح سنائی جاتی ہے جیسے بہت بڑا معرکہ سر کر ڈالا ہو۔ بیرونی قرضوں پر سیاست بھگارنے والے کبھی انہیں اقتصادی اصلاحات سے منسوب کرتے چلے آئے ہیں تو کبھی معاشی استحکام سے۔ 1988ء تک مملکت خداداد پر بیرونی قرضے کے بوجھ کا حجم 13 ارب ڈالر تھا‘ ان سماج سیوک نیتاؤں نے حکمرانی کے جوہر دِکھاتے ہوئے 1999ء تک اسے 26 ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ 39 ارب ڈالر کر ڈالا۔ ان 10 برسوں میں میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو اقتدار کی دو دو باریاں لگا چکے تھے۔ 1999ء سے 2008ء تک جنرل پرویز مشرف نے 39ارب ڈالر کا قرضہ 40.6 ارب ڈالر سے آگے نہیں جانے دیا جو یقینا قابلِ تعریف ہے۔
2008ء میں میثاقِ جمہوریت کے نتیجے میں اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کا ماڈل جب برسرِ اقتدار آیا تو 2013ء تک پیپلز پارٹی اور 2018ء تک مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے دس برسوں میں قرضے کا حجم 56 ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ 96 ارب ڈالر تک جا پہنچایا۔ اسی طرح 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں ان قرضوں کے بوجھ میں 22 ارب ڈالر کا اضافہ کر ڈالا۔ 2023ء میں شہباز شریف پی ڈی ایم کے وزیراعظم بنے تو آئی ایم ایف نے وہ کڑی اور ناقابلِ برداشت شرائط عائد کر ڈالیں جو مرحلہ وار تاحال جاری ہیں۔ شہباز شریف کی دوسری وزارتِ عظمیٰ چل رہی ہے اور تقریباً پونے تین سالوں میں بیرونی قرضوں کا حجم 18 ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ بیرونی قرضہ 136 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویزات کے مطا بق مارچ 2024ء سے اکتوبر 2025ء کے20 مہینوں کے دوران وفاقی حکومت کے مقامی قرضے میں11 ہزار 300 ارب روپے اور بیرونی قرضے میں 869 ارب روپے کااضافہ ہو چکا۔ حکومتی قرضے جو فروری 24ء میں 64 ہزار 810 ارب روپے تھے‘ اکتوبر 25ء تک 76 ہزار 979 ارب روپے سے بھی بڑھ چکے اور ان میں ہوشربا اضافہ جاری ہے۔ جہاں بیرونی قرضوں کا پہاڑ ملک وقوم پر چڑھتا چلا جا رہا ہے وہاں قرضوں کی بلا تعطل واپسی کیلئے کڑی اور مشکل شرائط بھی بدستور جاری ہیں۔ ملک وقوم پر بیرونی قرضوں کے وہ پہاڑ بن چکے ہیں کہ کوہِ ہمالیہ بھی چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ قرضوں کے اس اژدھے کو روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ آئی ایم ایف اپنے معاہدوں میں وزیراعظم سمیت سبھی متعلقہ افراد کی شخصی ضمانت بھی طلب کرے۔ عدم ادائیگی یا تاخیر کی صورت میں صرف حکومت ہی نہیں بلکہ انہیں بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے‘ یعنی جس کے دستخط وہی ذمہ دار۔ ایسی صورت میں قرضوں کے تحفظ کے علاوہ یہ انہی منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے جن کیلئے یہ بھاری قرضے حاصل کیے جاتے ہیں۔ نہ مالِ مفت نہ دلِ بے رحم۔
چلتے چلتے ایف آئی اے حکام کی جانب لوٹتے ہیں‘ حضورِ والا! بھکاریوں سے فرصت ملے تو کچھ توجہ ان کی طرف بھی جو ایئر پورٹ پر حکومتی پالیسیوں کی آڑ میں دھندا چمکائے ہوئے ہیں۔ بیرون ملک سفر کرنے کے دام طے ہیں‘ جیسا کام ویسے دام! گیہوں میں گھن پس جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن گھن میں گیہوں ملانے والوں کا بندوبست بھی ضروری ہے۔ حکومتی پالیسیوں کو اکانومی بنانے کی بدعت تمام ہوائی اڈوں پر دوام پکڑے ہوئے ہے‘ خدارا! اسے بھی لگام ڈالیں۔