مملکتِ خداداد میں جہاں طرزِ سیاست جارحانہ اور پُرتشدد ہو چکی ہے وہاں طرزِ حکمرانی بھی ٹکر کی چوٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیاں اور حق وباطل کا معرکہ بنانے کی جو پنیری تحریک انصاف نے دھرنوں میں لگائی تھی‘ وہ اب خاردار جنگل بن چکی ہے‘ جس کے نوکیلے کانٹوں سے خود تحریک انصاف بھی محفوظ نہ رہ پائی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ بھی اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کو سیاسی انتقام اور ریاستی جبر کا برابر نشانہ بناتی رہی ہیں۔ آصف علی زرداری کو جہاں طویل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں وہاں شریف خاندان بھی پسِ زندان رہا لیکن حالیہ دس برسوں میں جو اُچھل کود اور کھیل تماشے تحریک انصاف نے سیاست میں متعارف کرائے‘ وہ سب دیکھتے ہی دیکھتے ایسا سرکس بنتے چلے گئے کہ ماضی کے سبھی بازیگروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بانی پی ٹی آئی‘ عمران خان نے بجلی کے بل جلا کر طرزِ سیاست میں ایسی آگ بھڑکائی جس نے اخلاقی قدروں سے لے کر باہمی وضع داری‘ تحمل اور برداشت تک کو خاکستر کر ڈالا۔ بیانیہ سازی سے بیانیہ فروشی تک‘ ڈھول ڈھمکوں سے گانوں‘ ترانوں اور دھمالوں تک‘ للکاروں اور اشتعال انگیزی سے شعلہ بیانی تک‘ دھرنوں میں احتجاج اور مزاحمت کے نت نئے روپ بہروپ دن رات دکھائے جاتے تھے۔ دھرنوں سے پھوٹنے والی چنگاری نے ملک کے طول وعرض کو اس طرح انگار وادی بنائے رکھا کہ ہنرمندانِ ریاست و سیاست عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کیلئے سبھی حربے اور نسخے آزماتے چلے گئے۔
عمران خان برسرِ اقتدار کیا آئے‘ دھرنوں کی سیاست کو ہی طرزِ حکمرانی بنا ڈالا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات اور اسیری پر نازاں اور اترائے پھرنے کے علاوہ وزیروں اور مشیروں کے ساتھ مل کر خوب مزہ بھی لیا کرتے تھے۔ نیا پاکستان بناتے بناتے پرانا پاکستان بھی ہاتھوں سے نکلتا چلا گیا۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل مشیروں اور مصاحبین کا اس قدر غلبہ رہا کہ منتخب ارکانِ اسمبلی اور وزرا غیر متعلقہ ہوتے چلے گئے۔ مقبولیت کا پہاڑ پیروں سے اس طرح سرکنا شروع ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں تنزلی کے سفر پر گامزن ہو گئے۔ کہیں جوش میں ہوش گنواتے رہے تو کہیں افتادِ طبع سے مجبور ہوکر زمینی حقائق سے الجھتے اور آنکھیں دکھاتے رہے۔ یقینی طور پر اس مغالطے میں بھی مبتلا رہے کہ سچ مچ کے عوامی مینڈیٹ سے برسر اقتدار آئے ہیں۔ اقتدار کا وسیلہ بننے والے ہنرمندانِ ریاست سے ضد اور محاذ آرائی اس قدر بڑھا لی کہ نامناسب القابات اور سنگین الزامات لگانے کی سبھی حدیں پار کرتے چلے گئے۔ یہ صورتحال اپوزیشن جماعتوں کیلئے بجا طور پر باعثِ غنیمت ثابت ہوئی اور انہوں نے نالاں اور ناراض حلقوں کو نہ صرف راضی کر لیا بلکہ ان کا وزن بھی اپنے پلڑے میں ڈلوانے میں کامیاب ہو گئے۔
مقبولیت کے بخار میں مبتلا عمران خان قبولیت کے سبھی درجوں سے گرتے گرتے عدم اعتماد کے مقام پر آ پہنچے اور بھرپور مزاحمت اور سبھی حجتوں کے باوجود اقتدار سے نکال باہر کیے گئے۔ نکالے جانے کا صدمہ ناقابلِ برداشت اور غضبناک ثابت ہوا کہ اپوزیشن میں بیٹھنے کے بجائے استعفے دے کر سڑکوں پہ آ گئے۔ امریکی مداخلت کا ایسا بیانیہ تراشا جو آندھی کی طرح پورے ملک میں پھیل گیا۔ عوامی پذیرائی کا تڑکا لگا تو ایک بار پھر جوش میں ہوش گنوا بیٹھے۔ مذاکرات سے سدا کے انکاری عمران خان سیاسی حل نکالنے کے بجائے ٹکرانے اور مرنے مارنے کی پالیسی بنا کر اپنی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر کارکنوں کا میلہ لگا کر خود قلعہ بند ہو گئے۔ اس بار بھی طرزِ سیاست اس قدر جارحانہ تھا کہ آئے روز جھڑپیں اور تصادم معمول بنتا چلا گیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی ہی حکومتیں اس لیے برخاست کر ڈالیں کہ تین مہینے کی آئینی مدت کے بعد الیکشن جیت کر دوبارہ اقتدار میں لوٹ آئیں گے۔ اپنے سارے آپشنز پلیٹ میں رکھ کر اس طرح نگرانوں کو پیش کر دیے کہ نہ آئینی مدت میں انتخابات ہو سکے اور نہ ہی انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے۔ اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کو پیٹنے کے بجائے سیکھنا بہتر آپشن ہے۔ عمران خان کا مزاج ہی بتدریج ان کا مقدر بنتا چلا گیا اور آج بھی وہ اپنے مؤقف اور غیر سیاسی رویے پر اٹل ہیں۔ وقت کے پہیے کا بغور جائزہ لیں تو یہ پہیہ ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کے درمیان ہی رواں دواں ہے۔ حالیہ دہائیوں کے اوراق پلٹیں تو حاصلِ مطالعہ یہی ہے کہ:
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا...
2018ء کے انتخابات کے بعد بڑے سے بڑا سیاسی پنڈت ہو یا دور کی کوڑی لانے والا‘ کوئی بھی یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والے اقتدار کی نصف مدت میں ہی ان سے عاجز آ جائیں گے اور یہ خیال بھی بعید از قیاس تھا کہ 2018ء تک اقتدار میں رہنے والوں کو جس طرح رسوائی اور پسپائی کے ساتھ اقتدار سے نکالا گیا وہ انہی کے ہاتھوں شفایاب ہو جائیں گے‘ جو ہاتھ ان سبھی کے درد کا باعث بنے۔ تمہید طول پکڑتی چلی جا رہی ہے! حالیہ پس منظر میں جانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ وہ غلطیاں ہرگز نہ دہرائی جائیں جو ملک وقوم کو مرگِ نو سے دوچار کرنے کا باعث بن سکتی ہوں۔ اقتدار میں کوئی بھی ہو‘ بڑے پن اور فراخدلی کا مظاہرہ اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی اور حکومتی اتحا دکے مابین مذاکرات کی کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک شروع ہی نہیں ہوئی۔ اس کی بظاہر وجہ تو یہ سمجھ آتی ہے کہ فریقین کی مذاکراتی ٹیموں کے پاس فیصلے کا مینڈیٹ ہی نہیں۔
سیاسی درجہ حرارت سوا نیزے پر آ پہنچا ہے۔ اس قدر تپش اور حدت میں سبھی کچھ پگھلا جا رہا ہے۔ امریکہ سے خوشگوار تعلقات ہوں یا سعودی عرب سے مثالی معاہدے‘ خطے کے ممالک سے اچھے روابط اور مراسم اُس وقت تک بروئے کار نہیں لائے جا سکتے جب تک ملک کے اندر فضا نارمل نہیں ہو گی۔ ابنارمل حالات میں معیشت کا پہیہ چلے گا نہ ہی خوشحالی کے رستے کھلیں گے۔ بھارتی شکست پر امریکی مہر لگنے کے باوجود مکار اور شاطر دشمن آج نہیں تو کل‘ پلٹ کر وار ضرور کرے گا۔ ہمیں ممکنہ خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار اور انتشار پر بھی فوکس کرنا ہوگا بالخصوص ایسی صورت میں جب افغانستان اپنے روایتی عناد کو بڑھاوا دینے کے علاوہ بھارت سے پینگیں بھی بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں سیاسی اختلافات عناد اور بغض کی بھٹی میں پکتے رہے تو یہ ملک یونہی انگار وادی بنا رہے گا۔ فیلڈ مارشل پہلے ہی باور کرا چکے ہیں کہ جنگ مسلط کی گئی تو مئی سے بھی بڑھ کر منہ توڑ جواب ملے گا۔ بلاشبہ ہماری افواج دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن قوم کا باہمی اتحاد اور تمام سیاست دانوں کا ایک پیج پر ہونا ملکی دفاع کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ تحمل‘ برداشت اور درگزر ہی قوموں کو آگے لے کر جاتے ہیں جبکہ انتقامی رجحانات کے زیر اثر رہنے والی قومیں آگے بڑھنے کے بجائے لمحہ موجود میں اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ اٹک اٹک کر چلنے کے بجائے اس اٹکے ہوئے وقت کو سنبھالنا ہی ہنرمندی ہے۔ کہیں تو اَنت ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیش کے حالات کھلی کتاب اور باعثِ عبرت ہیں۔ اردگرد کے واقعات محض تماشا نہیں ہوتے۔ حسینہ واجد پر عائد الزامات پر غور کریں تو دیکھے بھالے حالات اور اردگرد کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔