الطاف حسین حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری کو زمانۂ طالبعلمی میں تو بس نصاب کی حد تک پڑھتے رہے لیکن عملی زندگی میں یہ مقدمہ آئے روز یاد آتا ہے۔ حالی کا مقدمہ تھا کہ بری شاعری سماج کا مزاج بگاڑ دیتی ہے۔ آج گلی محلوں سے ایوانوں تک‘ عوام سے حکمرانوں تک‘ زبان و بیان سے عمل و کردار تک سبھی کی جمع تفریق کریں تو زمانۂ طالبعلمی کے اس مقدمے کا عکس ہی نظر آتا ہے۔ ملک بھر میں جاری اُدھم اور مسلسل کھیل تماشوں کے نقطے ملائیں تو منافقت‘ تضادات‘ بدعہدی اور موقع پرستی کی کیسی کیسی شکلیں بنتی چلی جاتی ہیں۔ طبیعت میں اکثر اُبال آتا ہے کہ کئی دہائیوں سے باریاں لگا کر حکومت میں آتے جاتے مستقل کرداروں کے بیانات اور تقریروں کو من و عن مرتب کر کے کیوں نہ کوئی شاہکار مجموعہ شائع کیا جائے۔ رنگ بدلتے بیانیے ہوں یا ترجیحات‘ خوب سے ناخوب اور ناخوب کو خوب بنانے کے جواز ہوں یا توجیہات‘ سبھی کے تانے بانے حصولِ اقتدار یا طولِ اقتدار سے ہی جا ملتے ہیں۔
اہداف کے حصول کے لیے اقتدار اور وسائل کے بٹوارے سمیت ہر قسم کی بندر بانٹ ان کے نزدیک حلال اور جائز ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر اقتدار میں آنے والے اپنے مخالفین کی کردار کشی میں کیسی کیسی حدیں پار کرتے رہے ہیں۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوے جاری کروانے سے لے کر ان فتوؤں کی مارکیٹنگ اور بیانیہ سازی کی منظم تشہیر کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔ مخالفین کو سیاسی انتقام اور جبر کا نشانہ بنانے کے لیے نت نئے اور جھوٹے سچے مقدمات کے علاوہ طویل اسیری سے دوچار رکھنا بھی ان کی جمہوری اقدار کا حصہ رہا ہے۔ ایوانوں میں نمبر پورے کرنے کے لیے سرکاری وسائل اور طاقت کے استعمال کے ساتھ نیلامیوں اور بولیوں کے کلچر کی بدعت کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ ذاتی مفادات اور تحفظ کے لیے قانون‘ ضابطوں اور پالیسیوں کو موافق اور تابع رکھنے کی انجینئرنگ کا ہنر بھی یہ ہنرمندان خوب آزماتے رہے ہیں۔
راج نیتی میں حالیہ چار دہائیوں میں نویں وزارتِ اعلیٰ اور چھٹی وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ حکمرانی کے جوہر دکھانے والی سیاسی جماعت کے بیانیوں‘ وعدوں اور دعووں کا موازنہ کریں تو سبھی ایک دوسرے کی ضد اور منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ چند روز قبل ہی وفاقی وزیر اطلاعات نے فیک نیوز کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ فیک نیوز سے کہیں بڑا چیلنج اور باعثِ تشویش امر یہ ہے کہ حصولِ اقتدار کے لیے عوام سے کیے گئے دلفریب وعدے اور انقلاب کے دعوے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جھانسے اور دھوکے نکل آئیں تو عوام کہیں کے نہیں رہتے۔ طے شدہ منصوبے کے تحت عوام کو بنیادی ضروریات کی دلدل میں دھنسائے رکھنے کو گورننس ثابت کرنے کی ضد سے بڑی فیک نیوز کیا ہو گی؟ حکمرانوں کا اپنے وعدوں سے منحرف ہو کر عوام سے مستقل بدعہدی بھی فیک نیوز کی ایک بھیانک شکل ہے۔ سرکاری وسائل اور مفادِ عامہ کے منصوبوں کو ذاتی تشہیر و استحکام پر لٹانا ہو یا زمینی حقائق کو جھٹلانا‘ چمکیلے اندھیرے کو اُجالا ثابت کرنے کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہو یا مداح سراؤں کے قصیدوں کی دھن میں سر دھنتے رہنا‘ سرکاری بابوؤں کے تیار کردہ گمراہ کن اعداد و شمار اور الفاظ کا گورکھ دھندا بھی فیک نیوز کے روپ بہروپ ہیں۔ آئین سے انحراف اور سماجی ناانصافی بھی فیک نیوز کا نمونہ ہے۔ ہر وہ امر فیک نیوز ہے جس کے ظاہر اور باطن میں کھوٹ اور تضاد بھرا ہو۔
ہر الیکشن کے بعد ووٹ کی سیاہی عوام کے منہ پر ملتے چلے آنا بھی فیک نیوز ہے۔ ایوانوں میں دھواں دار تقریریں اور اصلاحات کے دعوے عمل سے عاری ہوں تو یہ بھی فیک نیوز ہی کہلاتی ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے رُلتے اور بھٹکتے عوام بھی فیک نیوز کی چلتی پھرتی شکلیں ہیں۔ تھانوں‘ ہسپتالوں اور پٹوار خانوں میں دھتکاری جانے والی مخلوق بھی فیک نیوز کا شکار ہے۔ انتخابی دعووں سے لے کر ایوانوں میں دیے جانے والے بھاشنوں تک سبھی فیک نیوز ہی نکلتا ہے۔ فیک نیوز کے شکار بنتے بنتے نجانے کتنی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں اور بچ جانے والی نسلیں بس خاک ہی اُڑائے چلی جا رہی ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں جابجا کیسے کیسے دردناک مناظر کہیں دن کی رسوائی بن کر تو کہیں رات کی نیند لوٹ کر فیک نیوز بنے ہوئے ہیں۔ ریفارمز کے نام پر ڈی فارمز کے انبار بھی فیک نیوز کے کوہِ ہمالیہ ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے اخبارات کا ڈھیر لگا لیں تو سبھی حکمرانوں کے بیانات اور اعلامیے ہر دور میں فیک نیوز ہی ثابت ہوئے ہیں۔ کرپشن پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ہوش اُڑا دینے والی رپورٹ ہو یا آئی ایم ایف کے چشم کشا انکشافات‘ ان سبھی پر فیک نیوز کا انطباق کر کے تو دیکھیں! لوٹ مار کے ان پلندوں کو جھٹلا کر تو دکھائیں! حکمران اشرافیہ کے خلاف چونکا دینے والی چارج شیٹس پر وزیروں‘ مشیروں سمیت سبھی ترجمان خاموش دکھائی دیتے ہیں۔
اُدھر میاں نواز شریف نے عمران خان کو لانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر ڈالا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان اکیلے مجرم نہیں‘ انہیں اقتدار میں لانے والے بڑے مجرم ہیں۔ توپوں کا رُخ لانے والوں کی طرف ضرور موڑا جائے لیکن خیال رہے! سبھی کو کوئی نہ کوئی لاتا رہا ہے۔ عمران خان کو لانے والوں کا جرم تو بے چین کیے ہوئے ہے لیکن ماضی میں ایسے جرائم دہرانے والوں کے بینی فشری آج بھی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ عمران خان کو لانے والوں نے انہیں اقتدار نکالا دے کر ازالے کے لیے ایک اور جرم بھی کیا تھا جس کی سزا پہلے ہی عوام میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کرپشن کے دفاع میں وزیراعلیٰ پنجاب کا حالیہ بیان بھی انتہائی دلچسپ اور غور طلب ہے‘ فرماتی ہیں: نچلی سطح پر کرپشن ہو سکتی ہے ٹاپ لیول پر ممکن نہیں۔ اس بیان پر برادرِ محترم حسن نثار کا ایک شعر بے اختیار یاد آرہا ہے:
شہرِ آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
اُلٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا
گویا وزیراعلیٰ پنجاب کے اس بیان کو اگر کوئی اُلٹا لٹک کر پڑھنے سے قاصر ہو تو بیان اُلٹا کر پڑھا جا سکتا ہے۔ راج نیتی کا یہ حسن رہا ہے کہ ماضی کی بدترین طرزِ حکمرانی سمیت لوٹ مار کے سبھی ریکارڈز ریکارڈ مدت میں ٹوٹتے چلے آئے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے جرائم میں بڑی کمی کا کریڈٹ کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ کو دیا ہے۔ بلاشبہ بیشتر سنگین جرائم کا گراف نیچے آ چکا ہے مگر ایک معمہ تاحال حل طلب ہے کہ سی سی ڈی کے قیام سے پہلے دو لاکھ 28 ہزار نفوس پر مبنی پولیس فورس کہاں مصروف رہی‘ کیا آئی جی صاحب کسی نئی فورس کا انتظار کر رہے تھے۔ البتہ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پروٹوکول اور سکیورٹی ڈیوٹیز کے علاوہ سیاسی اور بلوائی محاذوں پر بھی پنجاب پولیس ہمیشہ مصروفِ عمل رہی ہے جبکہ سی سی ڈی کے پاس تو واحد ہدف کرائم کنٹرول ہے۔ میچ‘ میلے‘ ریلیاں‘ جلسے‘ جلوس سمیت سیاسی رہنماؤں کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کے ساتھ کرائم پر توجہ کیونکر ہو سکتی ہے۔ رہی بات تھانوں اور ناکوں پر رویے کی تو کلچرِ مذکور میں امن و امان کی گنجائش اور ترجیح کہاں باقی رہتی ہے۔