گزشتہ سال اکتوبر کے آخر میں ڈاکٹر عبد الجبار‘ جو برطانیہ کی معروف یونیورسٹی آف لیسٹر میں میرے پی ایچ ڈی کے سپروائزر بھی ہیں‘ کو بزنس سکول کا ڈین آف انٹرنیشنلائزیشن مقرر کر دیا گیا۔ میں نے ان تین برسوں میں جہاں ان سے ریسرچ کے زیر و بم سمجھے ہیں وہاں انکی ہمہ جہت متحرک شخصیت‘ انتظامی امور میں مہارت اور اپنے اردگرد موجود رفقا کار کیساتھ متاثر کن تعلقات استوار کرنے کی خدادا صلاحیتوں کو بھی بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ ہر شخص سے اسکی شخصیت‘ علمی مہارت اور فطری رجحان کے مطابق گفتگو کرتے ہیں اور انتہائی فراخدلی سے دوسروں کے نقطہ نظر کو سن کر اسے اہمیت دیتے ہیں۔ وہ روایتی طور طریقوں سے ہٹ کر آؤٹ آف باکس تھنکنگ اور تیزی سے بدلتے معروضی حالات سے ہم آہنگ فیصلہ سازی کو مقدم سمجھتے ہیں۔ ہر وقت کچھ نیا سوچتے ہیں اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے میں وقت ضائع نہیں کرتے اور برق رفتاری سے بروقت فیصلے کرتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے ان نمایاں پہلوؤں اور منفرد مہارتوں کے پیشِ نظر ہی یونیورسٹی کی اعلیٰ قیادت اور انتظامیہ نے انہیں یہ انتہائی اہم ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا۔ اس خوشگوار تبدیلی اور ان کی ترقی پر مبارکباد دینے کیلئے اگلے ہی روز میں انکے آفس پہنچا تو انکے پاس اپنی ان نئی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی اور مربوط پلان موجود تھا جس پر عملدرآمد کرنے کیلئے وہ کئی اہم اہداف متعین کر چکے تھے۔
ہماری ملاقات میں یہ طے پایا کہ چونکہ ڈاکٹر عبد الجبار کے والدین کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے لہٰذا یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے فروغ کیلئے یونیورسٹی آف لیسٹر کے بین الاقوامی سطح کے معیار کو متعارف کرائیں اور اس سلسلے میں پاکستان کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور جامعات کے ساتھ مل کر ایک طویل مدتی اشتراکِ عمل کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تمام تجاویز کو پورے انہماک سے سنا اور اگلے چند ماہ میں پاکستان کے متوقع دورے کی تیاری کی ذمہ داری مجھے تفویض کر دی۔ اگلے آٹھ ہفتوں میں اس سلسلے میں ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں جن میں پاکستان کی سرکردہ جامعات اور ان کی قیادت کے ساتھ رابطے استوار کرکے دوطرفہ تعلقات اور شراکت کے بنیادی نکات پر تفصیلی گفتگو کی گئی جس کے نتیجے میں ہمارا رواں برس فروری کے وسط میں پاکستان کا دورہ طے پایا۔ اپنے اس پہلے دورے میں ڈاکٹر عبدالجبار اور میں نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی‘ گورنر پنجاب اور چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ ملاقات کی اور دوطرفہ تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا۔ علاوہ ازیں ہم نے اسلام آباد‘ سرگودھا‘ لاہور اور ملتان میں کئی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کا تفصیلی دورہ کیا اور ان کے وائس چانسلرز‘ ڈینز اور مختلف شعبوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے کے دوران ہم نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان کی جامعات میں تحقیق کا کلچر فروغ پا رہا ہے مگر اس ضمن میں انہیں بین الاقوامی معیار اپنانے کیلئے بیرونی ممالک کے تعلیمی اداروں کے مؤثر روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے جن کے ساتھ مل کر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور معیاری تحقیق کو یقینی طور پر مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اس دورے کے دوران جس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ہماری جامعات کی قیادت میں پاکستانی طلبہ اور طالبات کیلئے بین الاقوامی سطح کی تعلیم اور تحقیق کو یقینی بنانے کیلئے پایا جانے والا جوش و جذبہ تھا جس کے باعث ان سب نے ہمیں نہ صرف اپنی یونیورسٹیوں میں خوش آمدید کہا بلکہ یونیورسٹی آف لیسٹر کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار بھی کیا۔
ان تمام حوصلہ افزا ملاقاتوں اور ان کے دوران ہونے والی تفصیلی گفتگو نے ہمیں ایک نئی توانائی بخشی اور برطانیہ واپسی پر ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی آف لیسٹر کی اعلیٰ قیادت کو ایک بھرپور بریفنگ دی اور انہیں اپنے دورۂ پاکستان کے کلیدی نکات اور اہم پہلوؤں سے آگاہ کیا۔ طے شدہ ترجیحات کو آگے بڑھانے کیلئے مختلف جامعات کے ساتھ معاملات پر پیش رفت جاری ہے اور ڈاکٹر عبدالجبار تواتر کے ساتھ مجھے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ سے ڈاکٹر صاحب نے لاہور میں یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب (یو سی پی) کی اعلیٰ قیادت سے مسلسل رابطہ استوار رکھا اور دونوں یونیورسٹیوں کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے اور مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا جس کے نتیجے میں ہمارا پاکستان کا دوسرا دورہ طے پایا۔ اس مرتبہ ڈاکٹر عبدالجبار اور میرے علاوہ ہمارے ساتھ پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈینئل لیڈلی بھی شامل ہوئے ہیں اور گزشتہ سوموار کو یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب اور یونیورسٹی آف لیسٹر کے مابین ایک منفرد معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کی تقریب میں اسلام آباد میں تعینات برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر اور برٹش کونسل کے کنٹری ڈائریکٹر خصوصی طور پر تشریف لائے۔ اس دوطرفہ معاہدے میں یہ طے پایا ہے کہ یو سی پی کے طلبہ بی ایس آنرز کے ابتدائی دو سال یہاں مکمل کرنے کے بعد آخری دو سال یونیورسٹی آف لیسٹر میں پڑھنے کیلئے برطانیہ جائیں گے اور یوں پروگرام کی تکمیل کے بعد انہیں یونیورسٹی آف لیسٹر کی ڈگری سے نوازا جائے گا۔ یہ اشتراکِ عمل یقینی طور پر پاکستانی طلبہ اور طالبات کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور یوں ان کیلئے بین الاقوامی سطح کی تعلیم و تربیت کے نئے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اشتراکِ عمل یو سی پی کی انتظامیہ اور تحقیق و تدریس سے وابستہ تمام اراکین کی پیشہ ورانہ تربیت اور مہارت کو بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے بھی بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں واضح طور پر دکھائی دیں گے۔
مجھے اس دورے کے دوران یو سی پی کے کیمپس میں کافی وقت گزارنے کا موقع ملا جس میں کلیدی عہدوں پر فائز خواتین و حضرات کیساتھ ساتھ اساتذہ اور طلبہ و طالبات سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔انہوں جس انہماک‘ یکسوئی اور خوش دلی سے ہمارے دورے کے دوران مختلف امور کو نمٹایا اور جو تعلیمی ماحول انہوں نے کیمپس میں پیدا کر رکھا ہے وہ یقینا قابلِ تحسین ہے۔ یہ امر ہماری جامعات کے مابین دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ ہمیں اسی گروپ سے وابستہ ٹیلی ویژن چینل ''دنیا نیوز‘‘ کا بھی تفصیلی دورہ کرایا گیا جس کے مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے کئی کہنہ مشق افراد نے اپنے اپنے دائرہ کار سے متعلق ضروری معلومات دیں اور ہمارے سوالات کے تسلی بخش جواب دیے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی سطح کی فنی مہارتوں سے آراستہ اس چینل نے جس طرح کم وقت نے پاکستانی میڈیا میں اپنا نام بنایا ہے وہ یقینا قابل ایک ذکر کامیابی ہے۔ اس دورہ کے دوران ہماری ملاقات گزشتہ سترہ برسوں سے تواتر کے ساتھ چلنے والے پروگرام حسبِ حال کی پوری ٹیم سے ہوئی جو اپنے سیٹ پر ریکارڈنگ میں مصروف تھی۔ اس عالمی شہرت کے حامل پروگرام کے سب سے نمایاں کردار سہیل احمد المعروف عزیزی سے بھی ملاقات ہوئی جن کی عاجزی اور ملنسار طبیعت نے ہم سب کے دل جیت لیے۔
تین سال قبل جب میں نے سکالرشپ پر یونیورسٹی آف لیسٹر میں اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کا آغاز کیا تھا تو میں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ ڈگری کی تکمیل سے قبل میں نے بین الاقوامی شہرت کی حامل اس یونیورسٹی کی پاکستانی جامعات کے ساتھ شراکت داری کو یقینی بنانا ہے تاکہ تدریس و تحقیق کے یہ عالمی معیارات پاکستان کے طلبہ کو ان کی دہلیز پر ہی حاصل ہو جائیں‘ بالخصوص وہ طلبہ جو برطانیہ میں مکمل تعلیم کے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب اور یونیورسٹی آف لیسٹر کے اس اشتراک نے میرا وہ خواب حقیقت میں بدل دیا ہے کیونکہ اگر نیت میں اخلاص اور قوتِ ارادی میں استحکام رہے تو خواب کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔