انتظار کے موسم

انسانی زندگی تضادات سے عبارت ہے۔ اس کے کئی رنگ و روپ ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے جدااور یکسر نرالا ہے۔ یہ مختلف انتہائوں کے درمیان چلتی چلی جاتی ہے۔ روشنی کی موجودگی میں اندھیروں کا وجود ختم ہو جاتا ہے اور اندھیرے روشنی اور اجالوں کو مات دے دیتے ہیں۔ صحت ہو تو بیماری سے شناسائی تک نہیں ہوتی جبکہ مریض صحت کی رعنائیوں کے لیے ترستا رہتا ہے۔ غم کی گھڑیاں ہوں تو خوشیاں روٹھ جاتی ہیں اور خوشیوں کے بسیرے ہوں تو رنج و الم کا شائبہ تک نہیں پڑتا۔ کامیابیاں قدم چومنے پہ آجائیں تو ناکامیاں میلوں دور جا کر آباد ہو جاتی ہیں جبکہ ناکام شخص کے لیے کامیابی کا حصول ایک آرزو اور حسرت بنا رہتا ہے۔ معاشی آسودہ حالی ہو تو غریبی کی فکر نہیں ستاتی جبکہ غریبوں کیلئے معاشی استحکام تو درکنار‘ دو وقت کی روٹی ہی جوئے شیر بن جاتی ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی میں وصل و فراق کا تضادایک تلخ حقیقت ہے۔ وصل کی گھڑی میں زندگی اپنی پورے جوبن پر رقص کرتی دکھائی دیتی ہے‘ خوشیاں چہار سو ڈیرے ڈال لیتی ہیں اور انسان امید و آرزو کے گلستان میں خواہشوں کے پھول کھلتے دیکھ کر خوشی سے نہال ہو جاتا ہے‘ زندگی کے سارے معانی و مفاہیم آشکار ہونے لگتے ہیں اور خزاں کے موسم میں بھی رنگِ بہار نمایاں ہونے لگتا ہے۔مگر یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ وصل کے لمحات میں دوام ہے اور نہ ہی خوشیاں ہمیشہ رہنے کے لیے آتی ہیں۔ ہر خوشی کی گھات میں غموں کے شیش ناگ پھنکارتے ہوئے اپنے اگلے وار کے لیے تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔ ملن کے سرور و مستی پر مبنی مختصر لمحے خواب کی طرح گزر جاتے ہیں ۔اس عالمِ آب و گِل کی تلخ سچائیاں جب اپنے حصار میں گھیرتی ہیں توجدائی کے موسم امید و آرزو کے چمن کو اجاڑ دیتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر آمدِ بہار کے انتظار پر نگاہیں مرکوز ہو جاتی ہیں۔ درحقیقت ان تمام تضادات کے درمیان انتظار کی گھڑیاں ہی ایک ابدی حقیقت‘ ایک تلخ سچائی ہیں لہٰذا ہم ہر وقت انتظار کی کیفیات سے دو چار رہتے ہیں۔ اپنوں سے بچھڑ جانے والوں کے وصل کی گھڑیاں دوبارہ اپنا منتظر بنا دیتی ہیں تو دلِ بیمار کو پھر سے انہی نظاروں کا انتظار ہوتا ہے جن سے اُسے چین نصیب ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ انتظار کے یہ لمحات صدیوں پہ محیط ہوتے ہیں۔
وصل و فراق کا یہ سلسلہ روزِ ازل سے قائم ہے اور تاابد جاری و ساری رہے گا۔ ہر آنے والے لمحے ہمیں کسی نہ کسی خواہش کی تکمیل، کسی خواب کی تعبیر یا کسی کامیابی کا انتظار رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی پیارے کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے تو گویا خوشیوں کا موسم روٹھ جاتا ہے۔ مگر پھر ہمیں کسی نہ کسی نئی خوشی، نئی کامیابی اور نئے خواب کی تلاش اپنا اسیر بنا لیتی ہے اور ہم اس کے انتظار میں نئی خواہشات کا گلستان آباد کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کبھی وصل و فراق کے اس تضاد کو زیادہ قریب سے دیکھنے کی خواہش ہو تو آپ کسی ایئر پورٹ پر بین الاقوامی آمد اور روانگی کے مناظر دیکھ لیں۔ آپ پر اس تضاد کے سارے رنگ و روپ آشکار ہو جائیں گے۔ اپنی جان سے پیارے لوگوں کی آمد کے منتظر کس طرح بار بار ہر آنے والے مسافر میں اپنوں کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔وہ ہاتھوں میں پھول لیے اور دلوں میں محبت کا چمن سجائے اپنی پلکیں بچھائے چشمِ براہ نظر آتے ہیں۔جیسے ہی ان کے پیارے انہیں نظر آتے ہیں‘ وہ انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتے ہیں، ان کا ماتھا چومتے ہیں،بچے بھاگ کر اُن کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ ملن کی یہ انمول گھڑیاں وقت سے تھمنے کا تقاضا کرتی نظر آتی ہیں مگر وقت کب کسی کے لیے تھما ہے۔ دوسری طرف دیارِ غیر کے لیے عازمِ سفر مسافروں کو الوداع کہنے والوں کی نمناک آنکھیں اور غمناک چہرے افسردگی کی تصویر بنے پیاروں کو خدا حافظ کہہ رہے ہوتے ہیں تو یہ خوف ان کے چہرے پر نمایاں ہوتا ہے کہ پھر جانے کب ملاقات ہو، کون‘ کب‘ کس سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو جائے؟ عارضی جدائیوں پہ دائمی جدائی کے خدشات حاوی ہو جائیں تو دل پگھل جاتے ہیں اورآہ و بکا سے کہرام برپا ہو جاتا ہے۔ میں نے کئی بار بانہوں کے ہار بنتے دیکھے ہیں اور بچھڑنے والے ایسے بلک بلک کے روتے ہیں کہ جیسے اب کہ بچھڑے تو پھر شاید خوابوں میں ملیں۔ مگر درد و آلام پر مبنی فراق کے یہ لمحے ایک مرتبہ پھر اُن پیاروں سے دوبارہ ملنے کی امید میں انتظار کے نئے سلسلے شروع کر دیتے ہیں اور یوں منتظر نگاہوں میں ایک مرتبہ پھر وصل کی چاہت نئی امنگوں کا جہان آباد کرنے لگتی ہے۔ اس طرح انتظار کے موسم ہمہ وقت ہماری زندگی کو اپنے وسیع و عریض دامن میں سموئے رکھتے ہیں اور ہمارے دلِ بے قرار کو بہلائے رکھتے ہیں۔ انتظار کی کوکھ سے امید جنم لیتی ہے اور آرزوئوں کی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں جن سے دل کی ویرانیوں میں زندگی کی رمق دوبارہ واضح ہونے لگتی ہے۔
یہاں پردیس میں رہنے والوں سے میں نے کئی دل دہلا دینے والی کہانیاں سن رکھی ہیں جن میں کئی ایسے افراد کی غم کی داستانیں بھی شامل ہیں جو وطنِ عزیز میں اپنے پیاروں کو ایک بہتر زندگی اور سنہرا مستقبل دینے کے لیے غیر قانونی طریقے سے جان ہتھیلی پر رکھ کر برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں پہنچے مگر پھر کئی سال تک قانونی مسائل اور پیچیدگیوں کے باعث وطن واپس سفر نہیں کر سکے اور نہ ہی اُن پیاروں سے مل سکے جن کی محبت کی تڑپ انہیں دیارِ غیر میں کھینچ لائی تھی۔ وہاں پاکستان میں ان کی دید کی منتظر نگاہیں جانے کتنے برس تڑپتی رہیں مگر انہیں انتظار کے دامن میں کھلنے والے امید کے پھول ہمیشہ مضبوط رکھتے کہ کبھی نہ کبھی وہ اپنے جان سے پیاروں سے دوبارہ مل پائیں گے اور یوں زندگی اور خوشیوں کے سارے روپ ایک مرتبہ پھر انہیں نصیب ہو جائیں گے۔
گزشتہ برس میں جب آخری مرتبہ ایک مختصر قیام کے بعد پاکستان سے برطانیہ آ رہا تھا تو ہمیشہ کی طرح ایئر پورٹ پر امیگریشن کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد میں نے ماں جی سے طویل گفتگو کی، ڈھیر ساری باتیں کر کے اُن کا دل بہلایا، انہیں تسلی دی اور جلد دوبارہ وطن واپسی کا وعدہ کیا۔بظاہر یہ طویل گفتگو بہت جلد ختم ہو گئی کہ وقت کے دامن میں موجود گنتی کے یہ چند لمحات بہت تیزی سے بیت گئے اور جہاز پر سوار ہونے کا اعلان شروع ہو گیا۔ ماں جی نے ڈھیروں دعائوں اوربھاری دل کے ساتھ مجھے رخصت کیا۔ اگر دل میں کہیں امید کی کوئی کرن تھی تو دوبارہ ملنے کے وہ امکانات تھے جن کا سوچ کر میں اپنا سامان اٹھائے جہاز کی طرف بڑھ گیا تھا۔
مگر اس بار انتظار کے موسم نے میرے ساتھ عجیب ہاتھ کیا کہ امید و آرزو کے سارے امکانات ہی معدوم کر دیے‘ دوبارہ جیتے جی امی جان سے ملنے کی حسرت ہی دم توڑ گئی اور میں نے پاکستان پہنچ کر اُن کا جسدِ خاکی لکڑی کے صندوق میں سفید پیرہن میں لپٹے ہوئے دیکھا تو کلیجہ منہ کو آگیا۔ میں نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اس تابوت کا اوپری حصہ اٹھایا اور امی جان کے ماتھے پر بوسہ دیا، انہیں آواز دی مگر پہلی مرتبہ ''جی میری جان‘‘ کے الفاظ پر مبنی جواب نہ مل سکا۔ پھر راولپنڈی اور آبائی گائوں میں دو بار نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے انہیں سپردِ خاک کیا۔ پاکستان میں پندرہ روزہ قیام کے دوران ہزاروں افراد اظہارِ افسوس کے لیے آئے،تسلیاں دیں، دلاسے دیے اور ہماری ڈھارس بندھائی۔ جب واپس برطانیہ آنے کے لیے رات ڈھلے اسلام آباد ایئر پورٹ پرپہنچا تو فلائٹ کے انتظار میں ایئرپورٹ کے لائونج میں بار بار نظریں موبائل فون کی سکرین پر جاٹھہرتیں کہ ابھی امی جان کی کال آجائے گی، وہی طویل گفتگو دوبارہ ہوگی مگر اب کہاں؟ یہ تو جھوٹی تسلیاں تھیں، دلِ نارسا کی نا تمام حسرتیں تھیں جو مجھے ناگن کی طرح ڈس رہی تھیں۔ اب نہ وہ شریں لب و لہجہ والی آواز رہی، نہ دعا کے لیے اٹھنے والے ہاتھ رہے اور نہ ہی وہ منتظر نگاہیں رہیں‘ گویا زندگی ہی روٹھ گئی ہو۔ جہاز پہ سوار ہونے کا اعلان ہوا تو میں مسافروں کی قطار میں ایسے کھڑا ہو گیا کہ جیسے دو جہان ہارا ہوا کوئی بدنصیب! بقول شاعر:
رفتہ رفتہ گزر گئے سارے؍ وہ تیرے انتظار کے موسم

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں