گزشتہ کالم میں ماں جی کی اچانک رحلت کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کی طویل جدوجہد، ہمہ جہت شخصیت اور خداداد صلاحیتوں کا ذکر ہوا۔ محترم پروفیسر توفیق بٹ اور برادرم مظہر برلاس نے اپنے اپنے کالم میں ہماری والدہ ماجدہ کی مثالی تربیت اور بے پناہ قربانیوں کا احاطہ کیا جس کے بعد درجنوں قارئین کرام اور دوست احباب نے فرمائش کی کہ میں ان کی اس حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کے چند کلیدی اصول و ضوابط پر مزید روشنی ڈالوں جن کے طفیل اللہ رب العزت نے ہمارا یہ صبر آزما سفر بخیر و خوبی طے کرا دیا اور ہمیں ہمیشہ اپنی بے پایاں نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔
والدِ گرامی کی ناگہانی وفات کے بعد شروع ہونے والے اس سفر میں ماں جی کے کلیدی کردار کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کے لیے یقینا ایک ضخیم کتاب درکار ہو گی مگر یہاں وقت اور جگہ کی قلت کے باعث محض اختصار کے ساتھ چند بنیادی نکات کا ہی احاطہ کیا جائے گا۔ اپنی ذاتی زندگی میں ماں جی صبر و رضا، سادگی، راست گوئی، عبادت و ریاضت، تحمل و برداشت اور سخاوت و غنا کا عملی نمونہ تھیں اور انہوں نے ہماری تربیت بھی انہی زریں اصولوں کی روشنی میں کی۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمیں تعلیم کے حصول کے لیے پوری توجہ، انہماک، محنت اور دیانت داری سے آگے بڑھنے کا نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں حصولِ تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا تسلسل بھی برقرار رکھا۔ ہم پر بے پناہ اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے کبھی ہم سے روپے‘ پیسے کا حساب کتاب نہیں کیا۔ ہم نے جب چاہا اپنے اخراجات کے لیے درکار رقم کا مطالبہ کیا اور انہوں نے ہمیشہ ہمیں وہ وسائل میسر کیے۔ انہوں نے ہمارے اندر خودی، خودداری، خود اعتمادی اور خود انحصاری کو فروغ دیا اور ہمیشہ دینے والے ہاتھ کی فضیلت کو اجاگر کیا۔ دوسروں کی طرف دیکھنے یا ان کے وسائل پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی ذات کی تکمیل کے لیے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ وہ ہمیشہ ہمیں ایک نئی دنیا کی تلاش کے لیے اور اپنے والدِ گرامی کے تمام بڑے خوابوں کی تعبیر کے لیے ترغیب دیا کرتی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاتے ہوئے والد گرامی کی مثالی شخصیت اور بلند کردار کے معیار کو ہمارے لیے ایک مینارۂ نور بنائے رکھتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے ایک طرف ہمیں رزقِ حلال، جائز ذرائع اور سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے پر راغب کیا تو دوسری طرف والد مرحوم کے ساتھ ہمارا رشتہ مضبوطی سے استوار رکھا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے والد اس دنیا میں نہیں رہے بلکہ ہم نے ان کی قبر کو ہمیشہ ایک جیتے جاگتے شخص کی موجودگی سے تعبیر کیا اور یوں اپنے ہر ایک قدم پر دھیان رکھا کہ کہیں ہم ان کے بتائے ہوئے سنہری اصولوں سے روگردانی نہ کر بیٹھیں اور نہ ہی کوئی ایسا کام کریں جس سے ہمیں شرمندگی ہو یا ہمارے والدین کی عزت و توقیر پر حرف آئے۔
یہی وجہ ہے کہ تقریباً پچیس سال قبل جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہم نے سول سروس کی تیاری کا عمل شروع کیا تو محنت و دیانت کے یہی اصول ہمارے لیے مشعلِ راہ بنے۔ یکے بعد دیگرے ہم پانچ بھائی سول سروس کا حصہ بن گئے تو ہماری شادیوں کا وقت آن پہنچا۔ ہماری والدہ مرحومہ مغفورہ نے ایک مرتبہ پھر آگے بڑھ کر ہماری راہ نمائی کی اور اس ضمن میں چند بنیادی شرائط کا تعین کیا۔ انہوں نے ہی یہ طے کیا کہ ہم نے اپنے ہم پلہ مڈل کلاس دیہی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے گھرانوں سے رشتہ داری کو ترجیح دینی ہے‘ ایسے گھرانے جن کی اقدار اور طرزِ زندگی ہمارے ساتھ ملتا جلتا ہو۔ انہوں نے جہیز کی لعنت اور حرص و ہوس سے جڑی تمام آلائشوں سے ہمیں دور رکھا اور یوں ہمارے لیے اپنی پسند کے رشتے طے کیے جو ان کی نظر میں شرافت، سادگی اور اخلاص کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ ہم سب نے ہمیشہ ان کے حسنِ انتخاب کو اپنے لیے سعادت سمجھا اور کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کی کیونکہ ہمارے لیے ہماری والدہ کا اطمینان اور خوشی ہی اولین ترجیح رہی۔ وہ ہمیشہ اپنی خودداری اور خودی کو پروان چڑھاتی رہیں اور ہمارے سسرالی خاندانوں سے عزت و وقار کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتی رہیں۔ یہی اصول ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں سرکاری امور کی انجام دہی میں ہمارے لیے سود مند ثابت ہوئے اور ان کی تربیت کے مطابق لوگوں کی بے لوث خدمت، رزقِ حلال کی برکت اور سادہ زندگی نے ہمیں ہمیشہ ثابت قدم رکھا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں ایسے مواقع کئی مرتبہ آئے کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں ظالم اور مظلوم، حق و باطل اور طاقتور اور کمزور کے انتخاب میں ہمیں انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑے، مظلوم کی داد رسی اور ان کے جائز حقوق کی فراہمی کے لیے کئی مرتبہ کچھ ''صاحبان‘‘ ناراض بھی ہوئے مگر وہ سب کٹھن لمحات دھویں کے بادل ثابت ہوئے اور ہماری والدہ کی دعائوں نے مشکلات میں ہمیں ہمہ وقت مضبوط رکھا، ہمارے راستوں سے کانٹے ہٹائے اور یوں ہم سرخرو ہوتے چلے گئے۔
ہمارے والدِ گرامی کی طرح ہماری والدہ ماجدہ کو بھی اپنی مٹی اور اپنے لوگوں سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے گائوں میں زیادہ خوش رہتیں جہاں ہمارے آبائی گھر میں لوگوں کا ایک ہجوم برپا رہتا۔ وہ ہر سائل اور ضرورت مند کی دادرسی اور حاجت روائی کی حتی المقدور کوشش کرتی تھیں۔ غریب اور نادار والدین اپنی بیٹی کی رخصتی کے لیے ان سے جہیز کی فراہمی کا مطالبہ کرتے تو امی جان جہیز کی اشیا کی خریداری کی ذمہ داری مجھ سمیت دیگر بھائیوں میں تقسیم کر دیتیں اور یوں چند دنوں میں ایک بیٹی کی باعزت رخصتی کا اہتمام و انتظام ہو جاتا۔ اسی طرح گزشتہ کئی سال سے انہوں نے زکوٰۃ کا ایک منظم اور مربوط نظام وضع کر رکھا تھا جس کے تحت ہر ماہ دو درجن کے قریب مستحقین کی دہلیز پر رقم پہنچ جایا کرتی تھی۔ کئی افراد اپنے تھانہ کچہری کے معاملات اور مقدمات کے سلسلے میں بھی والدہ محترمہ کے پاس آتے اور وہ ان کے لیے ہمیں وٹس ایپ پر وائس نوٹ کے ذریعے جائز امداد کے لیے پُرزور سفارش کیا کرتی تھیں۔ اگر ہم میں سے کوئی کسی سرکاری مصروفیت کے باعث بروقت جواب نہ دے پاتا تو وہ اس افسر تک خود رسائی حاصل کر کے اسے سائل کی جائز داد رسی کا کہہ دیتیں۔
ایک مرتبہ میں نے انہیں نہایت ادب سے گزارش کی کہ یہ لوگ بڑے چالاک ہیں‘ وہ ڈیرے پر آکر جب اپنے مسائل بیان کرتے ہیں تو میں ان سے حقائق اور میرٹ سے متعلق چند بنیادی سوالات کر کے یہ طے کر لیتا ہوں کہ وہ حق پر ہیں یا ناحق مخالف فریق کے خلاف مجھے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس عمل سے بچنے کے لیے اپنے گھر کی خواتین کو آپ کے پاس بھیج دیتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہاں سے براہِ راست سفارش یقینی ہے۔ میں نے امی جان سے عرض کی کہ آپ بھی ان سے حق‘ ناحق کی بابت ضرور پوچھا کریں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ حق یا ناحق کا فیصلہ تو اس افسر نے کرنا ہے جسے اللہ رب العزت نے مسند پر فائز کیا ہے، جسے اللہ نے اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنے عقل و شعور اور دانش کے مطابق لوگوں میں انصاف یقینی بنائے، ویسے بھی میں تو جائز مدد اور دادرسی ہی کی بات کرتی ہوں، حق سچ کا فیصلہ کرنا تو اس افسر کی ذمہ داری ہے۔ میں ان کے اس مدلل اور منطقی جواب کے سامنے بے بس ہو گیا اور مسکرا کر کہا کہ امی جان! آپ کے پاس ہر بات کا ٹھوس جواب تیار ہوتا ہے، آپ اپنا مشن جاری رکھیں۔
اللہ کریم نے انہیں بے پناہ ذہانت اور دانش مند ی کے ساتھ ساتھ غریب پروری، انسان دوستی، عاجزی اور سخاوت کے اوصافِ حمیدہ سے بھی نواز رکھا تھا جن کے باعث وہ پورے علاقے کے لیے امید و آرزو کا ایک ایسا روشن چراغ تھیں جس کی لو میں کبھی کمی نہیں آتی تھی۔ (جاری)