افسران میں خود کشی کا رجحان کیوں؟

چند روز قبل کنٹونمنٹ بورڈ بنوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بلال پاشا کی غیر طبعی موت نے پاکستان کے طول و عرض میں کہرام مچا دیا۔ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کے طور پر یہ خبر کئی دن وائرل رہی۔ اس واقعے کے بعد سول سروس سے تعلق رکھنے والے نوجوان افسران میں بے پناہ غم، خوف اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ چہار سو بلال پاشا کی موت کا سوگ منایا جا رہا ہے مگر قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ارسطو لائکس اور فالورز بڑھانے کی ریس سے باز نہیں آئے اور مسلسل بے سرو پا کہانیاں گھڑ کر اس خوبرو نوجوان کی ناگہانی موت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ چند ''مہربان‘‘ اپنی ذاتی ناکامیوں، نظام کے ہاتھوں ملنے والی رسوائیوں اور کچھ دیگر وجوہات‘ جن کے اسباب انہیں خود ہی معلوم ہوں گے‘ کے باعث اس موقع پر اپنے دل کی خوب بھڑاس نکال رہے ہیں۔ نیلی بتی اور سبز نمبر پلیٹ، طاقت، غرور، تکبر، ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول، متوسط طبقے یا انتہائی غریب گھرانوں سے اٹھ کر اچانک ایلیٹ کلب میں شامل ہونے کا شوق، کسی کی محبت کو پالینے کا جنون اور پھر اس خواب کی تعبیر ملنے کے بعد اور سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اچانک پھیلنے والی بددلی، سسٹم سے ٹکرائو یا نوکری کے دوران ملنے والے بے پناہ سٹریس اور نادیدہ دبائو کو خود کشی کے اس پھیلتے رجحانات کا محرک قرار دے رہے ہیں۔ میٹرک پاس یا نیم خواندہ صاحبان بھی ڈاکٹر اور ماہرینِ نفسیات کے روپ میں یا دماغی امراض کے معالج کے کردار میں ایسی ایسی ''ماہرانہ آرا‘‘ پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ الامان‘ الحفیظ! آپ اگر افلاطون کی سی ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے ان صاحبان کی بے سروپا باتوں پر غور کریں تو اصل حادثہ بھول کر ایک نئی الجھن کا شکار ہو جائیں گے لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ ان خود ساختہ ''ماہرین ‘‘اور مفروضو ں پر مبنی ان کہانیوں پر جتنی توجہ کم دیں گے‘ اتنا آپ کی صحت و عافیت کے لیے بہتر ہو گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سنتالیسویں کامن سے تعلق رکھنے والے بلال پاشا گزشتہ چند سالوں میں وہ ساتویں سی ایس ایس آفیسر ہیں جنہوں نے افسرانہ ٹھاٹ باٹ، طاقت، اختیارات، سماجی مقام و مرتبہ اور سرکاری جاہ و حشم کے باوجود مبینہ طور پر اپنے ہاتھوں ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اِنہوں نے شباب گلاب رُت میں اس چمن کو ہی اجاڑ دیا جس کو گل و گلزار بنانے میں زمانے لگتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ اور غور طلب امر ہے اور لازم ہے کہ اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچا جائے اور ان محرکات، عوامل، حالات ، واقعات اور ذہنی کیفیات کا احاطہ کر کے نہ صرف ان کا عمیق جائزہ لیا جائے بلکہ ان کے تدارک کیلئے قابلِ عمل اقدامات کی نشاندہی بھی کی جائے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ایسے حادثات کی شرح میں نمایاں کمی لا سکیں۔
جب سے یہ المناک خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ہے مجھے قارئین کے درجنوں پیغامات موصول ہو چکے ہیں جن میں ایک طرف تو انہوں نے بلال پاشا کی اس اندوہناک موت پر اپنے صدمے اور دکھ کا اظہار کیا تو دوسری طرف یہ مطالبہ بھی کیا کہ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھوں کیونکہ میرا تعلق بھی سول سروس کے قبیل سے ہے۔ لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس انتہائی اہم اور سنجیدہ موضوع کو زیرِ بحث لائوں تاکہ اسے کسی منطقی انجام کی طرف لا سکوں۔ مجھے اس موضوع کی وسعت، گہرائی اور اہمیت کا اچھی طرح ادراک ہے اور گزشتہ پچیس سالوں پہ محیط بے پناہ مشاہدات اور تجربات میں کئی ایسے واقعات ہیں جن کی روشنی میں اس موضوع سے انصاف کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سی ایس ایس امتحان کی نوعیت کیا ہے اور اس میں کامیاب ہونے والے نوجوان آخر کن صلاحیتوں اور خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں جن کی بدولت ملکی سطح پر منعقد ہونے والے اس سب سے کٹھن، صبر آزما اور اعصاب شکن امتحان کے متعدد مراحل کو کامیابی سے عبور کر کے بالآخر یہ گنتی کے چند خوش نصیب اپنی منزل کو پانے کا خواب شرمندۂ تعبیر کر گزرتے ہیں۔ یہ بھی جاننا لازم ہے کہ سول سروس کا نظام دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں رائج ہے جس کا مقصد انتظامی امور کو احسن انداز سے انجام دینے کیلئے ایک ایسی ورک فورس تیار کرنا ہوتا ہے جو ایک شفاف عمل‘ میرٹ اور صلاحیت کے بل بوتے پر منتخب ہو اور پھر ایک مضبوط اور مربوط تربیت کے ذریعے ملکی سطح پر اپنی خدمات انجام دینے کے قابل بن جائے جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی اور بہتری لائی جا سکے۔ وطنِ عزیز کی چوبیس کروڑ کی آبادی میں اکثریت نوجوانوں کی ہے‘ اس میں ہر سال محض پچیس سے تیس ہزار نوجوان ہی اپنے آپ کو اس امتحان کے لیے تیار کر پاتے ہیں جس کے تحریری امتحان سے قبل اب ایک سکریننگ ٹیسٹ کے اضافی مرحلے میں کامیاب ہونا لازم قرار دیا جا چکا ہے۔ اس امتحان کے لیے کم سے کم تعلیم گریجوایشن ہے اور عمر کم از کم اکیس سال ہوناضروری ہے۔ تحریری امتحان کے نتائج میں ہر سال محض چار سو سے پانچ سو امیدوار پاس ہو پاتے ہیں جنہیں بعدازاں نفسیاتی جانچ پڑتال پر مبنی دو روزہ مختلف سرگرمیوں سے گزارا جاتا ہے، پھر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی سربراہی میں چار سے پانچ رکنی پینل کے سامنے چالیس منٹ سے لے کر ایک‘ ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہنے والے انٹرویو کا مرحلہ آن پہنچتا ہے اور سب سے آخر میں میڈیکل کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔ لہٰذا سکریننگ ٹیسٹ سے لے کر میڈیکل تک پانچ مختلف مراحل ہیں اور ہر کسی میں کامیاب ہونا لازم ہے ۔ اس سارے عمل میں کم و بیش ایک سال کا عرصہ لگ جاتا ہے جبکہ اس کی تیاری کیلئے بھی کم از کم ایک سال دن رات ایک کر کے کل بارہ سو نمبروں پر مبنی لازمی اور اختیاری مضامین کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح پچیس‘ تیس ہزار امیدواروں میں سے صرف دو سو سے تین سو خوش نصیب افراد ہی مختلف وفاقی اداروں کیلئے اہل قرار دیے جاتے ہیں۔
یہاں پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر اتنے بڑے ملک میں سے صرف پچیس‘ تیس ہزار افراد ہی کیوں اپنے آپ کو اس امتحان کے میدان میں اتارتے ہیں؟ اس کی وجہ ایک طرف اس امتحان کی دشواری اور بے پناہ مقابلہ ہے تو دوسری طرف اس میں اترنے کیلئے جہاں ذہانت، محنت اور صلاحیتوں کا عمل دخل ہے وہاں مضبوط اعصاب بھی درکار ہیں جو لگ بھگ دو سے تین سال پر محیط اس صبر آزما امتحان کے سبھی مراحل کو کامیابی سے عبور کرنے اور ہمت و حوصلہ برقرار رکھنے کیلئے لازم ہیں۔ لہٰذا چند ہزار یہ بلند حوصلہ نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی کی سفارش، پرچی یا ذاتی احسان کا بوجھ اٹھانا گوارا نہیں کر سکتے۔ یہ جواں ہمت نوجوان عام نوکری کی رسوائی برداشت نہیں کر سکتے اور ان پر ہمیشہ بڑے خواب دیکھنے اور ان کی تعبیریں ڈھونڈنے کا جنون طاری رہتا ہے۔ وہ اپنی خودی، خودداری اور خود مختاری کو فوقیت دیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں، بے پناہ محنت اور ربِ کائنات پر بھروسے کی بدولت اپنی خواہشات، امنگوں، ارمانوں اور رعنائیوں کو اپنی طاقت بنا کر مسلسل جہد و جستجو کے سفر میں رہتے ہیں ۔ اردگرد کے معروضی حالات کی سنگینی، ذاتی محرومیوں اور نامساعد مواقع اور ناہمواریوں کے باوجود اپنی چشم باطن میں ایک ایسے خواب نگر کا جہان آباد رکھتے ہیں جہاں وہ ہر طرح کی محرومیوں، ناکامیوں، پریشانیوں اور درد و آلام سے بے نیاز ہو کر ایک ایسی زندگی بسر کر سکیں جہاں سرکاری جاہ و جلال اور معاشی تحفظ کے سبب ذہنی سکون بھی ہو اور سماجی خدمات کے امکانات بھی روشن ہوں ۔ اس کامیابی کے بعد وہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں جہاں زندگی وبال نہ ہو اور عام لوگوں کا جینا محال نہ ہو۔ اس طرح ایک طرف وہ اپنی ذات کی تکمیل کا اہتمام کرتے ہیں تو دوسری طرف عوامی خدمت کے جذبات سے سرشار ہو کر عملی زندگی کے میدانِ کرب و بلا میں اترتے ہیں جہاں اُن کے خوابوں کے جہان کے برعکس ایک نئی دنیا اور مختلف ماحول اپنی پوری طاقت سے ان کے سامنے سینہ تان کر کھڑا نظرآتا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں