کم و بیش چار برسوں سے جاری کالم نگاری میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی موضوع پر یکے بعد دیگر ے تین کالم لکھنا پڑے۔ دوسرے لفظوں یہ موضوع اتنا حساس، سنجیدہ اور اہم تھا کہ اس کے تمام پہلوئوں پر مدلل گفتگو ضروری تھی۔ اسی لیے کوشش کی کہ اس المیے کے ساتھ جڑی بہت سی ذاتی، سماجی، جذباتی، نفسیاتی اور پیشہ ورانہ حقیقتوں کا عمیق جائزہ لے کر کسی منطقی نتیجے تک پہنچا جا سکے۔ گزشتہ دو کالموں میں قارئین کے سامنے وہ معروضی حالات، مشاہدات اور تجربات رکھے جو میں نے ذاتی طور پر سول سروس کے اس قبیل میں دو دہائیوں سے زائد عرصے میں قریب سے دیکھ رکھے ہیں۔ اُن عوامل کا احاطہ کرنے کی جسارت بھی کی جو ان غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک مگر حساس طبیعت رکھنے والے نوجوان افسران کو اس انتہائی تکلیف دہ عمل تک دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں اور اس کے ساتھ ان خوابوں، امنگوں اور آرزوئوں کا احاطہ بھی کیا جن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں یہ بہت دور نکل جاتے ہیں اور اپنوں سے بیگانہ ہو کر بظاہر انسانوں کے اس میلے میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے سب کڑے امتحانات محض اپنی ذات تک محدود کر لیتے ہیں اور ہونٹوں کو سی کر آہ بھی نہیں بھرتے تا وقتیکہ ایک کمزور لمحہ آن پہنچتا ہے اور عمومی طور پر مضبوط اعصاب کے باوجود اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ہی تمام کر لیتے ہیں۔ خود وہ شاید اسے اپنی اذیت سے چھٹکارا پالینے اور ابدی سکون کے حصول کا ذریعہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس نگر جا پہنچتے ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں لوٹ سکا مگر وہ اس اندوہناک عمل سے اپنے پیاروں اور دلداروں کو رنج و غم کے دہکتے انگاروں پر جل کر راکھ ہونے کے لیے چھوڑ کر منوں مٹی تلے ہمیشہ کے لیے سو جاتے ہیں۔
اب کچھ ایسے اقدامات، معاملات اور امور کی نشاندہی لازم ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ایسے کربناک انجام سے بچا جا سکتا ہے اور زندگی کی تمام تر سختیوں، تلخیوں اور حوادثِ زمانہ کے باوجود صبر و رضا، شکر و غنا اور مہر و وفا کی عملی تصویر بن کر ہمت و حوصلہ کے ساتھ ایک متوازن اور پُر سکون زندگی کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، اسے جیا جا سکتا ہے اور لوگوں کی سرد مہری، بیوفائی اور ذاتی ناکامیوں کا زہر خوش دلی سے پیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے جذباتی، نفسیاتی اور ذاتی خلفشار اور ذہنی انتشار کی موجودگی میں اپنے دکھوں کو کمزوری کے بجائے طاقت بنا کر آگے بڑھ جانے والے جواں ہمت اور صبر و رضا کے پیکر قابلِ تقلید کرداروں پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے حالات کی سنگینی کا مقابلہ کرنے کے لیے جن چند اہم عوامل کو اپنی طاقت بنایا ان میں چار ستون کلیدی اہمیت کے حامل ہیں جن کی طاقت پر زندگی کی عمارت مضبوطی سے کھڑی رہتی ہے اور بدلتے موسموں کے طوفانِ بادوباراں بھی انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ان میں مرکزی حیثیت قوتِ ایمانی کی ہے۔ ایمان کی دولتِ بے پایاں ہی وہ فصلِ گل ہے جو خزاں رت میں بھی بہار کے سبھی رنگوں سے مزین رہتی ہے اور جسے پت جھڑ کے موسموں سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ایمان کی لازوال طاقت ہی کڑے امتحانات، سخت ترین آزمائشوں اور بدترین ابتلائوں میں انسان کی ڈھارس بندھاتی ہے، تو کل مضبوط ترین ہتھیار بن جاتا ہے اور صبر و رضا سے آگے بڑھ کر شکر و غنا کی نعمت مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہونے کی ہمت دیتی اور انسان کو چٹان میں بدل دیتی ہے۔ ایمان اور توکل ہی راضی برضا پر مائل کرتے ہیں اور کلامِ الٰہی کی ابدی سچائیوں پر یقین کے لیے راغب کرتے ہیں جس میں خالقِ کائنات نے یہ واضح فرما رکھا ہے کہ وہ کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مال، اولاد اور جانوں کی آزمائش میں ڈالتا ہے اور ان کو کڑی آزمائشوں کی بھٹی میں پکا کر کندن بناتا ہے۔ قرآنِ کریم میں انبیاء کرام کی کڑی آزمائشوں کے بے پناہ قصائص درج ہیں۔ خو د ہمارے پیارے نبی کریمﷺ پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے گئے، کفارِ مدینہ نے قافیہ حیات تنگ کیے رکھا، وادیٔ طائف میں لہو لہان کیا گیا اور شعبِ ابی طالب میں تین سال تک محاصرے میں لے کر زندگی کے سبھی دروازے بند کرکے مظالم ڈھائے گئے مگر ربِ کریم کی خوشنودی آپﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کی اولین ترجیح ٹھہری۔ یہی قوتِ ایمانی ہمیں معصومینِ کربلا کی بلند کرداری میں بدرجہ اتم ملتی ہے جس سے صرف اہلِ اسلام ہی نہیں بلکہ اغیار بھی سبق سیکھتے نظر آتے ہیں۔ سائوتھ افریقہ کے سیام فام لیڈر نیلسن منڈیلا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اس نے اپنی طویل قید و بند میں جب بھی حوصلہ ہارا یا سفید فام حکمرانوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو سیدنا امام حسینؓ کی بے مثل استقامت اور شجاعت نے اسے چٹان کی طرح مضبوط رہنے کی طاقت بخشی۔
حوادثِ زمانہ اور ذاتی رنج و آلام کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسری بڑی طاقت خاندانی نظام اور اپنے وہ پیارے ہیں جن کے شانوں پر سر رکھ کر رویا جا سکتا ہے ، جن سے دل کی بات کر کے بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے، جن کی مسکراہٹ زندگی کا استعارہ بن جاتی ہے، جن کے الفاظ کی تاثیر روح کی گہرائی تک پہنچ جاتی ہے اور دلِ بیمار کی مسیحائی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ کہیں باپ اپنے سینے سے لگا کر زندگی کی کڑکتی دھوپ میں شجرِ سایہ دار بن جاتا ہے تو کہیں دکھوں سے لڑتے لڑتے تھک ہار جانے والوں کو ماں اپنی آغوشِ محبت میں لے کر زخموں پر مرہم رکھ دیتی ہے اور اپنی مامتا کی ازلی طاقت سے سخت ترین حالات میں بھی اپنی اولاد کو ہمت و حوصلہ کا پیکر بنا دیتی ہے، کہیں بھائی دست و بازو بن جاتے ہیں اور کہیں وفا شعار بیوی تھک ہار کر آنے والے شوہر کی امید و آرزو کی ڈوبتی نائو کو منجھدار سے نکال لاتی ہے۔ یہی سچے اور سُچے رشتے ہماری اصل طاقت ہیں، لہٰذا زندگی کے جھمیلوں میں مضبوط خاندانی نظام اور اپنے رشتوں کی طاقت کمزور ترین لمحات میں مضبوط رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
تیسرا بڑا ستون مخلص اور بے لوث دوست احباب ہیں جن سے جڑے رہنے سے زندہ رہنے کا سبب یاد رہتا ہے۔ جن کے آس پاس ہونے سے ڈھارس بندھی رہتی ہے اور جن کے ساتھ خوش گپیاں لگا کر، قہقہے مار کر، لطیفے سنا کر، ہاتھوں ہر ہاتھ مار کر، عہد شباب کی گلاب رُت سے کچھ رنگ چُرا کر موسمِ خزاں میں بھی بہار کا سماں باندھا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی موجودگی سے زندگی کے سبھی معانی و مفاہیم آشکار کر دیتے ہیں اور مایوسی، ناامیدی اور حسرت و یاس کی کالی سیاہ رات کے باوجود ایک نئی صبحِ پُر نور کی امید جگا دیتے ہیں۔ سچے اور کھرے دوست مشکلات سے لڑنے اور آگے بڑھنے کی طاقت بخشتے ہیں۔
چوتھا مضبوط ستون انسان کا عجز و انکسار ہے جس میں انسان بظاہر طاقت رکھنے کے باوجود خود کو دوسروں کے مقابلے میں کم تر سمجھتا ہے ، وہ سرکاری بود و باش ، دنیاوی جاہ و حشم اور مال ودولت کو پر تفاخر نہیں کرتا اور نہ ہی دوسرے انسانوں کو اپنے رعب و دبدبہ سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ان تمام آسودگیوں کو انعاماتِ الٰہی سمجھ کر لوگوں میں خیر کی خیرات تقسیم کرتا ہے، ان سے بدلے میں کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ ان پر کسی قسم کا احسان جتلاتا ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ درگزر کرتا ہے، انہیں معاف کرتا ہے اور ان سے انتقام نہیں لیتا۔ وہ اپنے تمام معاملات اُس خا لقِ کائنات کے سپرد کر دیتا ہے جو ہماری زندگی،موت، خوشی، غمی، طاقت، کمزوری، جلوت، خلوت اور ظاہر و باطن کے سبھی رنگوں سے واقف بھی ہے اور زمین و آسمان کی تما م تر وسعتوں کا مالک و قادر بھی۔ لہٰذا عجز و انکسار کی دولت انسان کو مایوس نہیں ہونے دیتی، لوگوں سے بیزار نہیں کرتی، زندگی سے نا امید نہیں کرتی بلکہ مخلوقِ خدا کے دلوں پر راج کرنا سکھاتی ہے اور جو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کا ہنر سیکھ گیا وہ بھلا خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کیونکر کرے گا۔